حسین آئے اس لئے کہ کہیں آفتاب پرست قبلہ نما نہ بن بیٹھیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ماہ محرم کا آغاز ہے، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے لعل کربلائے وصال و فراق میں داخل ہو چکے ہیں۔۔۔ حسین (علیہ السلام) نے آسان راستہ منتخب نہیں کیا، بلکہ مشکل ترین راستہ انتخاب کیا، اپنے لئے نہیں بلکہ آزادی، انسان کی شرافت و حقیقت، انسان ہونے، انسان رہنے اور انسان کی صورت میں ہی جانے کے لئے۔ اس راستے کو آپ نے گویا اپنے لئے اور بھی سخت کر دیا ہے کیونکہ نہ صرف خود آئے ہیں بلکہ ہر اس فرد کو جو اپنا تھا اور حریت کی مشق کر چکا تھا، اپنا ہم سفر بنایا ہے ۔۔۔ اب نفسا نفسی کے اس عالم میں، کچھ لوگ تھے اور ہیں جو چیختے چلاتے ہیں اور اپنا گریبان پھاڑتے ہیں اور انہیں منتبہ! کرتے ہیں اور بزعم خود نصیحت کرتے ہیں کہ:
– [آپ نے] حج کو چھوڑ دیا؟!
– اپنی جان شیرین کو خطرے میں ڈال دیا ہے!؟
– دوسروں کو مہلکے میں لے گئے ہیں!؟
– چھوڑ دیجئے اس راہ کو، اور اس رائے کو ۔۔۔
– دو دنوں کی یہ دنیا کی قیمت ہی کیا ہے جس کے لئے آپ اپنی گران قیمت زندگی کو سختیوں اور تلخیوں میں ڈال دیں!؟
– بیٹھ جایئے! ٹہریئے! حج بجا لایئے اور تلخی، سختی اور مشقتوں سے دور رہئے!
– جو کچھ چاہتے ہیں، اسے راز و نیاز کی صورت میں اللہ سے مانگئے۔۔۔ [جہاد کے بجائے راز و نیاز]
– مسجد الحرام کے ایک گوشے میں بیٹھئے اور جتنا چاہیں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز و مناجات کیجئے!
– خدا ہی سے مانگئے جو چاہتے ہیں آپ، دعائے عرفہ دیکھئے آپ ہی سے تو منقول ہے!
– اگر آپ کی مصلحت ہو تو خدا دے دے گا ورنہ تو آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی”۔۔۔
آہ آہ آہ ۔۔۔ کتنے جانے پہچانے جملے ہیں یہ! میدان میں نہ آنے کے لئے کس قدر یہ سجی دھبی حجتیں ڈھونڈ لاتے ہیں، دنیا پرست اور آسائش و مادیات کے متلاشی اور جہاد و دفاع سے گریزاں عناصر، لیکن نہیں جانتے کہ عزیمت کے لئے، ایک دل تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو “حسین و زینب” سے ۔۔۔ اور “علی و فاطمہ” سے مالامال ہو ۔۔۔ کیا کمیاب موتی ہے یہ دل!
“فَاللَّهُ خَيْرٌ حافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ” کو پڑھ لیا؛ حسین نے زینب کے لئے اور زينب نے حسین کے لئے… تیار دل ۔۔۔ ترجیحات کا صحیح تعین کرنے والے ۔۔۔ آ گئے اور فرسودہ دل رہ گئے، ہمیشہ کے لئے [گوکہ کچھ نے حسین بن علی کے سینہ مبارک پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بوسے کے مقام پر بوسہ بھی دیا، لیکن حسین کو اکیلے جانے دیا ہمیشہ کے لئے] ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
– حسین مسافر ہو گئے، حسین مہاجر ہو گئے ۔۔۔
– آئے حجت تامّہ بننے کے لئے ہر مذبذب اور ہر فرسودہ اور رہنے والے کے لئے ۔۔۔
– آئے کہ آفتاب کامل ہو جائے، ہر پتلی باز کے لئے ۔۔۔
– آئے اس لئے کہ سجادہ نشین بازار بندگی کے مول بھاؤ کو بے وقعت نہ کریں۔۔۔
– آئے اس لئے کہ گوشہ نشین [اور رہبانیت و تصوف کے متوالے] زہد و تہجد کا معیار نہ بن جائیں
– آئے اس لئے کہ قرائت و تلاوت پر اکتفا کرنے والے مسلمانی کا مقیاس و میزان نہ ٹہرے ۔۔۔
– آئے اس لئے کہ ولی کی معرفت سے محروم لوگ، حبداری کی منڈی کو توڑ نہ دیں ۔۔۔
– آئے اس لئے کہ گرگٹ (آفتاب پرست) قبلہ نما نہ بن بیٹھیں ۔۔۔
– آئے اس لئے کہ “مذاکرات” کو “جہاد” کے متبادل [نقلی] نسخے کے طور پر متعارف کرایا جائے
– آئے اس لئے کہ مبینہ مصلحت اندیش [تقیہ کی حرمت کے وقت] تقیہ اختیار کرنے کا فتویٰ جاری نہ کر دیں۔۔۔
– آئے اس لئے کہ بہانے اور وجہ تراشنے کے کاروباری، دکانیں نہ کھولیں ۔۔۔
– آئے ۔۔۔ آئے ۔۔۔ آئے اس لئے کہ حقیقت کی قیمت جان تک بڑھ جائے، اور حقیقت پسندی، جان بازی تک
– آئے اس لئے کہ سرمشق کو “تحریر شد” تک مکمل کرے، اور اس پر دستخط ثبت کریں ۔۔۔
– اور عجب یہ کہ اپنے خون کے ساتھ “دستخط” بن گئے اس سند پر ۔۔۔ اگرچہ مقطّع اور ٹکڑے ٹکڑے اور حرف حرف ہو کر ۔۔۔ ہر ٹکڑا اس کا ایک کونے میں اور ہر آیت اس کی ایک گوشے میں ۔۔۔ گویا کہ جب [دعائے] عرفہ پڑھ رہے تھے، ان تمام ٹکڑوں کو دیکھ رہے تھے:
“واناً اَشْهَدُ يا اِلَّهَي بِحَقِيقَةِ إيمانِي وعَقْدِ عَزَماتِ يَقِيني وَخالِصِ صَريحِ تَوْحِيدِي وبَاطِنِ مَكْنُونِ ضَمِيرِي وَعَلائِقِ مَجارِي نُورِ بَصَرِي وَاسارِيرِ صَفحَةِ جَبيني وَخَرْقِ مَسَارِبِ نَفسي وَخَذَارِيفِ مَارِنِ عِرْنِينِي ومَسَارِبِ سِمَاخِ سَمْعِي وَمَا ضَمَّتْ وَاطبَقَت عَلَيهِ شَفَتايَ وَحَرَّكاتِ لَفظِ لِسَانِي وَمَغْرِزِ حَنَكِ فَمِي وَفْكِي ومَنَابِتِ أضْرَاسِي ومَسَاغِ مَطْعَمِي ومَشْرَبِي وَحِمالَةِ اَمٍ رَأسِي وَبُلُوعٍ فَارِغِ حَبَائِلِ عُنُقِي ومَا اشتَمَلَ عَلَيهِ تامورُ صَدري وَحَمائِلِ حَبلِ وَتِينِي وَنِيَاطِ حِجَابِ قَلبي وأَفْلَاذِ حَوَاشِي كَبِدِي وَمَا حَوَتْهُ شَرَاسِيفُ أَضْلاعِي وَحِقاقُ مَفَاصِلِي وَقَبْضِ عَوَامِلي وَأَطْرَافُ أَنَامِلِي وَلَحْمِي وَدَمِي وَشَعْري وَبَشَري وَعَصَبِي وَقَصَبي وَعِظَامِي وَمُخِّي وَعُرُوقِي وَجَمِيعُ جَوَارِحِي وَمَا انْتَسَجَ عَلَى ذَلِكَ أَيَّامُ رِضَاعِي؛
“اور اے میرے معبود! میں گواہی دیتا ہوں اپنے ایمان کی حقیقت کے ساتھ اور اپنے محکم ارادوں کی مضبوطی اور اپنی صریح اور محکم توحید [یکتا پرستی] کے ساتھ، اور اپنی ضمیر میں پوشیدہ رازوں کے باطن کے ساتھ، اور اپنی آنکھوں کی روشنی کے راستوں [یا نالیوں] کے پیوندوں کے ساتھ، اپنی پیشانی کی شکنوں کے ساتھ، اور اپنی سانس کے راستے کے دریچوں کے ساتھ، اور اپنی ناک کی نرم ہڈیوں اور پردوں کے ساتھ، اور ناک کے ابھرے ہوئے بیرونی حصے اور اپنے کانوں کے پردوں کے ساتھ، اور وہ اعضاء جن پر میرے ہونٹ چپکے ہوئے ہیں، اور میری زبان کی کلامی حرکتوں اور اور منہ اور جبڑے کی چھت کے گڑھے کے ساتھ، اور اپنے دانتوں کے اگنے کے جگھوں (مسوڑھوں) اور زبان کے اس حصے کے ساتھ جس میں کھانے اور پینے کی اشیاء کا ذائقہ محسوس کرتا ہوں، اور سر میں دماغ کی گدی کے مقام کے ساتھ، گردن میں غذا گذرنے کی نالی اور ان اعضاء کے ساتھ جن پر میرے سینے کا کہفہ [جوف] مشتمل ہے اور میری شہ رگ کو سہارا دینے والی اعصاب کی بافتوں اور اپنے دل کے آویزان پردے کے ساتھ، میرے جگر کے مختلف حصوں، میری پسلیوں کے پٹھوں کے اندر کے اعضاء اور اپنے اعضاء کے جوڑوں (مفاصل) کے ساتھ، اور اپنے پٹھوں کی پیوسگی، اپنی اور انگلیوں کے پوروں کے اطراف کے ساتھ، اور اپنے گوشت، اپنے خون، اپنے بالوں، اپنی جلد، اور اپنے ہاتھ پاؤں اور باقی بدن کی ہڈیوں اور اپنے حنجرے (Larynx) اور اپنے مغز، اپنی رگوں اور تمام اعضاء و جوارح کے ساتھ، اور ان اس گوشت و جلد وغیرہ کے ساتھ جو میری شیرخوارگی کے ایام میں ان پر آگ آیا…”
– کس قدر جانسوز ہیں حسین کے حروفِ مقطعات …
– گویا اپنے وجود کے ٹکڑوں کے ساتھ ” قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ” کی تلاوت کرنا چاہتے تھے۔۔۔
– گویا ہمیں “ثُمَّ اسْتَقَامُوا” (فصلت – 30) کی حدود کی یاددہانی کرانا چاہتے تھے ۔۔۔
– گویا “إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ” کے مقصد کو با معنی بنانا چاہتے تھے ۔۔۔
– گویا “مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ” کی تفسیر کرنا چاہتے تھے تا کہ “يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجا” (الطلاق – 3) میں سعادت کا راستہ اچھی طرح روشن ہو جائے۔۔۔
– گویا ان کے “فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ” (بقرہ – 15) کے سامنے اپنے “عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ” (آل عمران – 3) کی شوکت دکھانا چاہتے تھے۔۔۔
– گویا “وَٱسْتَعِينُواْ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ” (بقرہ – 45) کو جلوہ گر کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
– گویا “مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ” (احزاب – 10) اور “رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ” (النور – 37) کو “اشباح الرجال ولا رجال” سے
– گویا ہمارے لئے “رِجالٌ صَدقوا ما عاهَدوا الله علیه” و “رجال لا تُلهیهم…” کو دنیا پرست اور دنیاخور “أَشْبَاهُ الرِّجَالِ وَلاَ رِجَالٌ” (نہج البلاغہ، خطبہ 27) سے الگ کرنا چاہتے تھے۔۔۔
– اور گویا وہ جنت کا بھاؤ اس کی بلند ترین نقطے پر پہنچانا چاہتے تھے۔۔۔ جان کی قیمت، نوجوان قیمت، کٹی گردن کی قیمت، نونہالوں کے گلے کی قیمت، بھائی کی قیمت، اس سر کی قیمت جو بے تن ہوچکا ہے۔۔۔ اور سب سے زیادہ سخت غم و حزن کا سبب بننے والا قصہ چادر، بالی اور زخمی کان کا قصہ ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مصباح الہدی باقری، امام صادق یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی مطالعات و مینجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر جامعۂ امام صادق (علیہ السلام) – تہران
تبصرہ کریں