حسین الدیرانی: جنگ کی طوالت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن میں مقاومت بہت گہری ہے

آسٹریلیا سے حسین الدیرانی نے یمن کے مسئلے پر اقوام متحدہ اور بعض ممالک کی مجرمانہ خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: یمن کی جنگ کی طوالت اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ عالمی استکبار کے مقابلے میں یمنی مقاومت کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آسٹریلیا سے حسین الدیرانی نے “یمن کے خلاف جارحیت کے پہلؤوں کا جائزہ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بعض یورپی ممالک اور سعودی عرب سمیت بعض علاقائی ریاستوں کی طرف سے یمن پر حملے کی پرزور مذمت کی اور کہا: یہ جارحیت ویرانیوں، تباہیوں، پسماندگیوں، قتل عام اور درندگیوں کا باعث بنی ہوئی ہے اور دنیا اس صورت حال کی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے یمنیوں کی بےمثل مقاومت و مزاحمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: دنیا کے طاقتور ممالک اور ان کی امیر کٹھ پتلی ریاستوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ یمن پر ہلہ بول دیا ہے جس کا نہ صرف اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا ہے بلکہ انہیں بہت شدید اور مؤثر حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے؛ گوکہ ان بےضمیر اور انسان دشمن جارحوں نے یمن میں بہت ساری تباہ کاریوں اور پسماندگیوں کے اسباب فراہم کئے ہیں مگر ان کو پہنچنے والے نقصانات یمن پر مسلط کی جانے والی تباہ کاریوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ [اور ان کے جنگی اخراجات نیز جوابی حملوں میں انہیں پہنچنے والے نقصانات کی لاگت، کھربوں ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں]۔
انھوں نے یمن کو ایک مضبوط اور افسانوی دیوار سے تشبیہ دی اور کہا: یمن نے عالمی استکبار اور بنی سعود کے مقرر کردہ قواعد اور ان کی توقعات اور منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے؛ یہ مقاومت کا ادراک صرف مؤمنین کے لئے ممکن ہے۔
انہوں نے کہا: حال ہی میں حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے یمنی مجاہدین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ “کاش میں بھی سید الحوثی کے پرچم تلے آپ کے مجاہدین اور مقاومین میں شامل ہو سکتا”؛ اور سید المقاومہ کا یہ کلام ثابت کرتا ہے کہ یمنی مجاہدین اور فوج اور عوام کی احسن اور با ایمان قیادت عوام کی کامیابیوں میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے: سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی الطباطبائی الحسنی۔
جناب حسین الدیرانی نے اللہ کی راہ میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے مؤمنین کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کا حوالہ دیا اور کہا: بیرونی جارحیت کے اس سات سالہ عرصے میں یمنی عوام کے ساتھ بزدلانہ، حیوانی اور وحشیانہ دشمنیاں برتی گئیں؛ یمن کو بےشمار شہداء کی قربانی دینا پڑی، اسپتالوں، اسکولوں اور تمام بنیادی ڈھانچوں پر حملے کئے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جارح مغربی اور صہیونی جارحین اور ان کی بےتشخص کٹھ پتلی ریاستوں پر مسلط قبیلے [بنی سعود، بنی نہیان، بنی خلیفہ وغیرہ] اپنی فطرت میں کس قدر سفاکیت اور بربریت رکھتے ہیں اور یمن کے با ایمان اور ثابت قدم عوام ایمان کامل کے حامل ہیں اور ان کی عالمی اور علاقائی حیثیت، بہادری اور استقامت نے انہیں ایک افسانوی قوم میں تبدیل کر دیا ہے۔
انھوں نے بین الاقوامی اداروں اور یمن کے مظلوم عوام کی حمایت نہ کرنے والے ممالک کی مجرمانہ خاموشی کو مورد تنقید ٹہرایا اور کہا: یمنی عوام کا انتہائی ظالمانہ انداز سے قتل عام ہؤا ہے اور بےگناہ اور نہتے شہریوں کو مغربی ممالک کے بنائے ہوئے بموں اور میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ سب جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
حسین الدیرانی نے یمنی عوام کے دشمنوں کی خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یمن کے دشمن طاقت اور اسلحے کی زبان کے سوا کچھ نہیں جانتے؛ چنانچہ یہ مقاومت اور مقابلہ جاری رہنا چاہئے اور ضروری ہے کہ ان پر شدید حملے کئے جائیں تاکہ وہ اپنے موجود رویوں اور موقف سے پسپا ہوجائیں۔
حسین الدیرانی نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا: سعودیوں نے یمن پر یلغار کرنے سے پہلے، ایک یا دو ہفتوں کے عرصے میں یمن کی جنگ کے خاتمے اور یمنیوں کی فیصلہ کن شکست کا وعدہ دیا تھا لیکن سات سالہ طویل عرصے میں پوری مغربی دنیا اور صہیونیوں کی پشت پناہی اور کھربوں کے ہتھیار خریدنے اور استعمال کرنے کے باوجود، انہیں شکست کے سوا کچھ نہیں مل سکا ہے اور دنیا کی اتنی بڑی اور سرمایہ دار جابر حکومتوں کی یلغار کے باوجود، جنگ کی طوالت، یمنی عوام کی بے مثل مقاومت کی آئینہ دار ہے اور ہم بھی اس جنگ میں ان کے حامی اور پشت پناہ ہیں۔