حق پرستی کا جذبہ اور خواہش نفس

حالیہ قرآن کریم کی اہانت کو دیکھ لیں دو طرح کے رد عمل ہمارے سامنے ہیں ایک عام مسلمانوں کا ایک کربلائی رد عمل کربلائی رد عمل ہی کی بنیاد پر ہمیں سوشل میڈیا میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں نے ہمارے مراجع کرام کو بھی نشانہ بنایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود اس بات کو جانتے ہیں اگر واقعی اس دور میں قرآنی تعلیمات پر کوئی عمل پیراں ہے تو یہیں فقہا ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شک نہیں کہ فطری طور پر انسان حق پسند ہے وہ حق کا ساتھ دینا چاہتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ خواہشوں کا اسیر ہو جائے یا پھر مفادات کے تصادم کی بنیاد پر اسے یہ لگے کہ حق کہنے سے میرا نقصان ہوگا در حققیت یہ بھی خواہشوں کے ہاتھوں اسیر ہونا ہی ہوا ، ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ذاتا حق کو روندنا چاہتا ہو جس ماحول میں وہ پروان چڑھا ، اسکی تعلیم و تربیت اس کی غذا اور ماحول یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو اس کے فیصلہ کو متاثر کرنے کا ذریعہ ہیں ، ممکن ہے ایک انسان ساری زنجیروں کو توڑ کر تمام تر مشکلات کو اپنے لئے مول لے اور حق کا سود ا نہ کرے اور حر کی صورت ایک تاریخ رقم ہے اور یہ بھی ممکن ہے ایک شخص اس طرح سے خواہشوں کے آگے ڈھیر ہو جائے کہ اس سے زیادہ خسارے میں کوئی نہ ہو جیسے پسر سعد ، اسے نہ ہی ملک رہ مل سکا اور نہ ہی و ہ اپنی آخرت ہی بچا سکا ۔
اربعین سید الشہداء علیہ السلام اور حق پرستی :
اربعین سید الشہداء پر نجف سے لیکر کربلا تک کا عظیم مارچ حق پرستی کا اظہار ہے اس بات کا اظہار ہے کہ ہم ہر طرح کے باطل کے خلاف ہیں اور حق کی راہ میں مر مٹنے کا عزم لیکر ان شہیدوں کے راستہ پر گامزن ہیں جنہوں نے سر کٹا دیا لیکن حق کی ڈگر سے نہ ہٹے جنہوں نے کربلا جیسی عظیم شاہراہ کی بنیاد رکھی جس پر چل کر آج بھی مزاج حقیقت شناس بن رہے ہیں
’’کربلا‘‘ جہاں ہمارے سامنے احیاء اقدار کا ایک معتبر سلسلہ رکھتی ہے ، وہیں ہم سب کو حق کی اہمیت اور حق پرستی کی اعلی قدر سے بھی آشنا کرتی ہے ، کربلا ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ہم حق کے بغیر ادھورے ہیں اور حق کے ہوتے ہوئے پھر کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں ہم اکیلے نہیں ہیں اور ہر منزل پر خدا ہمارے ساتھ ہے ۔
شک نہیں کہ انسان کے وجود میں پائی جانے والی خواہشوں سے جنگ کرنا انسان کے لئے بہت سخت ہے لیکن کربلائی تعلیمات ہمارے سامنے اس جنگ کو آسان بنا دیتی ہیں ۔
ہو سکتا ہے کوئی کہے جب انسان کو خواہشوں سے جنگ ہی کرنا ہے تو اللہ نے انسان کے وجود میں اتنی ساری خواہشوں کو رکھا ہی کیوں ، خواہشوں کو مالک نے رکھا ہی اس لئے ہے کہ ان سے جنگ کر کے انسان حقیقت تک پہنچے اسی لئے کہیں بھی دین نے یہ نہیں کہا کہ بالکل ہر خواہش کو مار دو ، خواہشوں کو دین نے سمت دی ہے ایک راہ دکھائی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو بالکل خواہشوں کو تسلیم نہیں کرتے اور ہر خواہش کو انسان کے لئے ایک نقص مانتے ہیں اور بعض جگہوں پر خواہشات کے نہ ابھرنے کی بنا پر کسی مخصوص جسم کے حصے کو ناکارہ بنا دیتے ہیں دین انہیں اس عمل کی اجازت نہیں دیتا ، دین کہتا ہے کہ جب تک کوئی عضو بالکل خراب نہ ہو جائے اسے علیحدہ نہ کیا جائے
، ، جب تک کہ وہ بگڑ نہ جائے خراب نہ ہو جائے تب تک نہ کاٹا جائے، اور اگر اس کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے بنایا نہ جاتا ۔ فطری جبلتوں و فطری خواہشات کا خاتمہ اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پیھینکنا ناممکن ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ایک خواہش باطن کی طرف گریز پا ہوتی ہے اور باہر سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ اندر ہی اندر تخریب میں لگ جاتی ہے اور روحانی ودماغی اور اعصابی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے اور بعض اوقات یہ جرائم اور دھماکہ کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ روحانی امور کو دبانے اور مٹانے اور انکا قلع قمع کی ناممکن ہونا ایک ایسی چیز ہے جو فلسفہ میں طے شدہ ثابت بات ہے اور ماہرین نفسیات نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ لہٰذا خواہشوں سے اس قسم کا تصادم و ٹکراو بجائے اس کہ کے اخلاق کی اصلاح کا سبب ہو، ایک دوسرے طریقے سے روح اور اخلاق کی خرابی کا باعث بنتا ہے ۔ یہاں پر ضروری ہے کہ ان خواہشوں کو لگام دی جائے اور کمال کی راہ میں آگے بڑھنے میں ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔
ہندوستان میں بہت سے لوگ ہیں جو اپنے وجود میں پائی جانے والی خواہشوں سے لڑتے ہیں اور بے ڈھنگے پن سے لڑتے ہیں کوئی مہینوں کھانا نہیں کھاتا اور کھانے کی خواہش کو دباتا ہے کوئی سالہا سالا نہاتا دھوتا نہیں تو کوئی شادی نہیں کرتا یہ ساری چیزیں وہ ہیں جنہیں بعض ریاضت کرنے والے افراد مستحسن سمجھتے ہیں جب کہ یہ ہرگز دین کی نظر میں مطلوب نہیں ہے
دین یہ کہتا ہے کہ خواہشوں کی پکار کے باجود انسان روح کی پکار سے غافل نہ ہو یہ کمال ہے خواہشوں سے جڑے رہنے اور انہیں سے وابستہ رہنے و انہیں میں رچ بس جانے سے لڑنا آزادی اور طاقت ہے۔
خواہشوں کو ابھارنا :
بعض اوقات ایک خواہش کو ایک ہی وقت میں متحرک کرنے اور پیش کرنے کے لئے کسی موضوع کی ضرورت ہوتی ہے ، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمام جبلتوں اور خواہشوں کو متحرک ہونے اور کھلنے کی ضرورت ہے ۔ جبلت کی خاصیت یہ نہیں ہے کہ وہ موضوع کو پیش کیے بغیر دوبارہ ظاہر ہو اور ابھرے۔ اگر کسی شخص کو طاقت اور اختیار کی پیشکش نہ کی جائے اور وہ ہمیشہ ایک فرد کے طور پر ایک غار میں رہتا ہے، تو یہ احساس اس کے اندر کبھی ظاہر نہیں ہو گا اور وہ خود بھی محسوس نہیں کرے گا کہ اس میں ایسی خواہش موجود ہے، اور دوسرے لفظوں میں جبلت کی خصوصیت یہ ہے کہ فطرت میں مثبت یا منفی رد عمل کی بنا پر فطرت ہی کی زمین پر وجود میں آئے اور فطرت کو اس کی طرف کسی نہ کسی طرح کی موروثی رہنمائی حاصل رہے ۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ اکیلا رہتا ہے اور جنس مخالف کو ہرگز نہ دیکھے تو بھی اس کے اندر ایک ہلچل پیدا ہو اپنے اندر جنس مخالف کی طرف رغبت کی کیفیت کو محسوس کرے
اور ایک علمی میلان ، سچائی کی تلاش، اخلاقی رجحان وغیرہ بھی اسی طرح ہیں ۔ ایک عالم کو علمی پیاس اچھی طرح محسوس ہوتی ہے، جاہل کے برعکس، سو روحانی خواہشیں معدہ کے نظام کی طرح نہیں ہیں جو خو بخود د خالی اور بھرا ہوا ہو اور اسکے اندر خالی ہونے پر بھوک اور پیاس کا احساس پایا جائے ۔
اعلی خواہشیں :
انسان کے روحانی اور اعلیٰ رجحانات اس کے ایمان و عقیدہ اور اس دنیا میں بعض س حقائق سے اس کے لگاؤ سے پیدا ہوتے ہیں، جو فرد کے لیے ماورائی، عمومی اور جامع اور مادیات سے ماوراء ہیں، یعنی وہ سود و زیاں کی نوعیت کے حامل نہیں ہیں ۔ اس قسم کے اعتقادات اور منسلکات کے نتیجے میں کچھ تصور کائنات پر مبنی نظریات اور کائنات شناسی کے نظریات کی پیدائش ہوتی ہے جو یا تو الہی پیغمبروں کے ذریعہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیے گئے ہیں یا کچھ فلسفی حضرات نے ایسا چاہا کہ ایک ایسی سوچ پیش کی جائے جو ایمان افروز و مقصدیت کی حامل ہو ۔
مقدس خواہشیں :
وہ خواہشیں و رجحانات مقدس ہوتےہیں جن کی بنیاد خود پرستی پر نہیں ہے، یعنی انسان کے پاس ایک ا یسے رجحانات کا سلسلہ ہے جو “خود پرستی” کے دائرہ سے باہر ہیں ۔
انسان کے اند ر کچھ دوسرے رجحانات کا بھی ایک سلسلہ ہے، جو اس طرح ہیں:
اول یہ کہ ، یہ خود پرستی پر مبنی نہیں ہے؛
دوسرے یہ کہ انسان کے ضمیر میں ان کے لئے ایک پاکیزگی و قداست کا تصور ہے انسان ان کے لئے ایک امتیاز و فضیلت کا قائل ہے ۔ یعنی ان کے لیے وہ ایک ایسی برتری اور ایک ایسے اعلیٰ درجہ کا قائل کہ اگر کسی کے پاس یہ رجحانات[ زیادہ] ہیں تو اسے انسان ان رجحانات کی پاکیزگی کی بنا پر اسے زیادہ برگزیدہ و بلندشخص سمجھتا ہے جو ان صفات کا حامل ہو
انسانوں میں ایسے رجحانات ہوتے ہیں جن رجحانات کو :
اول تو یہ کہ جو “خود پرستی” کے ساتھ سازگار نہیں ہیں انکا کویہ ملاپ خود محوری کے ساتھ نہیں ہے ۔
اور دوسری بات یہ کہ اس کی ایک منتخب اور شعوری شکل ہے اور بہر حال یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانیت کا معیار کہلاتی
اور نہیں انسانیت کی کسوٹی کے طور پر جانا جاتا ہے ہ… “انسانیت” یعنی یہی رجحانات اور یہی چیزیں ہیں، یعنی جب بات انسانیت کی ہو تو کہا جائے یہی چیزیں اور ان کے علاوہ یہاں کچھ نہیں ہے ۔
مذہبی احساس :
ہر انسان کی سب سے اعلیٰ جبلت اور احساسات میں سے ایک بلند احساس ، انسان کے اندر مذہبی حس ، خدا جوئی کی فطرت ہے ۔
کربلا کے تعلیمات میں ایک اہم یہ ہے کہ کربلائی فکر ہمیں اپنے مذہب سے وابستگی کے ساتھ اس سے بے انتہا محبت سکھاتی ہے اور کربلائی فکر کا حامل انسان دوسروں کی طرح لا تعلق نہیں رہتا
حالیہ قرآن کریم کی اہانت کو دیکھ لیں دو طرح کے رد عمل ہمارے سامنے ہیں ایک عام مسلمانوں کا ایک کربلائی رد عمل کربلائی رد عمل ہی کی بنیاد پر ہمیں سوشل میڈیا میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں نے ہمارے مراجع کرام کو بھی نشانہ بنایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود اس بات کو جانتے ہیں اگر واقعی اس دور میں قرآنی تعلیمات پر کوئی عمل پیراں ہے تو یہیں فقہا ہیں جو قرآن سے نتیجہ اخذ کر کے حکم شرعی کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، اور یہ وہی لوگ ہیں جنکا تعلق کربلائی فکر سے ہے ۔ اربعین سید الشہداء کے پیشرو لمحات ہم سب کو حق محوری کا درس دیتے ہیں اگر ہم ان سے بجا طور پر استفادہ کریں تو بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہمارے ظاہری قدم جس طرح سید الشہداء ع کے روضے کی طرف گامزن ہیں ویسے ہی ہماری روح بھی روح سید الشہداء علیہ السلام کی طرف گامزن ہو جائے
مالک ہم سب کو توفیق دے کہ کربلائی تعلیمات کی روشنی میں کمال کے مدارج کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنی خواہشوں کو دین کی راہ میں موڑ دیں اور حق پرستی کے پرچم دار بن کر جئیں کہ ہمارا تعلق کربلا سے ہے اور کربلا حق پر جینے اور حق پر مر مٹنے کا درس دیتی ہے ۔