فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکہ اور حماس کے درمیان بے مثال اور براہ راست مذاکرات نہ صرف مختلف فریقوں، بشمول صہیونی ریاست، کے لیے کئی پیغامات رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے نیتن یاہو کو بھی مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔
فارس پلس گروپ: غزہ کی صورتحال پر مذاکرات، جو پہلے مرحلے میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر منتج ہوئے تھے، اب نیتن یاہو کی مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے ایک سنگین مسئلے کا شکار ہیں، جس کے باعث دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا کوئی واضح مستقبل نظر نہیں آتا۔
اسرائیل کے سخت گیر دائیں بازو کے حامیوں کی پشت پناہی کی بنا پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر نے والے نیتن یاہو ، کو امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ کی قیادت میں دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے بے مثال براہ راست مذاکرات کے باعث شدید اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ اقدام عالمی برادری کے لیے بھی حیران کن اور چونکا دینے والا تھا، کیونکہ یہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طویل المدتی حکمت عملی میں ایک تاریخی موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، جو اسرائیل کے کئی دہائیوں پر محیط منصوبوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نیتن یاہو کی جانب سے پیدا کی گئی رکاوٹوں کے باعث، امریکہ اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، لیکن انہوں نے دونوں فریقوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے دروازے کھول دیے، جو مستقبل میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ اقدام قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرے گا، جو نیتن یاہو اور اسرائیلی قیادت کے لیے گہری تشویش کا باعث بن گیا ہے اور انہیں مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
فی الحال، فلسطینی اور اسرائیلی حلقے امریکی ایلچی اسٹیون وِٹکف کے آئندہ ہفتے ہونے والے متوقع دورے کے منتظر ہیں، جس سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں سامنے آنے والے تعطل کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا، خاص طور پر جب اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، جس کے فلسطینی، اسرائیلی اور علاقائی سطح پر سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
نیتن یاہو اور اسرائیلی قیادت کی گہری تشویش
نیتن یاہو اور اسرائیلی ماہرین کو شدید تشویش لاحق ہے، جس نے انہیں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس وقت فلسطینی اور اسرائیلی حلقے امریکی ایلچی اسٹیون وِٹکف کے آئندہ ہفتے ہونے والے متوقع دورے کے منتظر ہیں، جن سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں تعطل کو ختم کرنے میں کامیاب ہونگے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، جس کے فلسطینی، اسرائیلی اور علاقائی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
امریکہ اور حماس کے درمیان بے مثال مذاکرات
امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات امریکی صدر ٹرمپ کی درخواست پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوئے اور چار دور تک جاری رہے۔ مذاکرات کے دوران امریکہ نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو، جو امریکی شہریت بھی رکھتے ہیں، رہا کرے۔ تاہم، حماس نے اس مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ چونکہ یہ قیدی اسرائیلی فوجی ہیں، انہیں کسی تبادلے کے بغیر رہا نہیں کیا جا سکتا۔
ان مذاکرات کے دو دور حماس کے اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے تھے، کے ساتھ ہوئے۔ بات چیت کے دوران دونوں فریقین نے ایک ابتدائی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی، جس کے تحت 5 اسرائیلی-امریکی فوجیوں (1 زندہ اور 4 ہلاک شدہ) کے بدلے 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ ان 250 قیدیوں میں 100 قیدی وہ تھے جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جب کہ 50 قیدیوں پر بھاری سزائیں عائد تھیں۔
اگرچہ مذاکرات کے ابتدائی مراحل میں امریکی مذاکرات کاروں نے سخت موقف اپنایا، لیکن آخرکار وہ حماس کی شرائط ماننے پر مجبور ہو گئے اور اعلان کیا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے حتمی جائزے کے منتظر ہیں۔
صہیونی مخالفت اور مذاکراتی تعطل
اس معاہدے کے ردعمل میں صہیونی ریاست نے موقف اختیار کیا کہ وہ صرف 50 فلسطینی قیدیوں، جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے، کی رہائی پر راضی ہو سکتا ہے، لیکن دیگر 50 قیدیوں کی رہائی حساس سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے۔ حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا، لیکن بالآخر 10 فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے دستبردار ہونے پر آمادگی ظاہر کی۔
اگرچہ یہ معاہدہ ناکام ہو گیا اور مذاکرات کی تقدیر غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے، لیکن کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ واشنگٹن غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ یا تو پہلے مرحلے کے جنگ بندی معاہدے میں توسیع چاہے گا یا دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں پیش رفت کے لیے کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے حتمی صورت حال اسٹیون وٹکف کے آئندہ ہفتے ہونے والے دورے کے بعد مزید واضح ہو جائے گی۔
غیر متوقع اور حیران کن پیشرفت
نیتن یاہو اور اسرائیلی ماہرین کو امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات سے کوئی تشویش نہیں تھی، کیونکہ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے مذاکرات، جو دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہوئے، میں امریکہ شروع سے ہی ایک مستقل فریق کے طور پر شامل تھا۔ لیکن جو چیز اب نیتن یاہو اور اسرائیلی قیادت کو پریشان کر رہی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مذاکرات براہ راست اور امریکی صدر ٹرمپ کی درخواست پر ہو رہے ہیں۔
اس سے قبل مذاکرات مصری اور قطری ثالثوں کے ذریعے ہوتے تھے۔ یہ ثالث حماس کے رہنماؤں سے مشاورت کے بعد، ان کی نمائندگی کرتے ہوئے، امریکی اور اسرائیلی وفود سے گفتگو کرتے تھے، جبکہ حماس کے نمائندے یا رہنما خود ان مذاکرات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔
لیکن اب اسرائیل کے نزدیک صورتحال خطرناک حد تک بدل چکی ہے۔ ایک امریکی مذاکرات کار براہ راست حماس کے ایک سینئر رہنما کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر چار دور مذاکرات کرتا ہے، جس میں دونوں فریقین اپنے مطالبات اور نقطہ نظر کو بغیر کسی واسطے کے براہ راست ایک دوسرے کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ وہ پیش رفت ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر نتنیاہو اور اسرائیلی قیادت کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔
تاریخی اور بے مثال اقدام
امریکہ کا حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شامل ہونا نہ صرف حماس کی تشکیل کے بعد پہلی بار ہوا ہے، بلکہ یہ ایک تاریخی اور بے مثال پیش رفت بھی ہے جو دونوں فریقین کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔
حماس کو تسلیم کرنا
محض ایک ہی میز پر بیٹھ کر براہ راست مذاکرات کرنا اس بات کا غیر رسمی اعتراف ہے کہ حماس ایک آزاد اور خودمختار تنظیم ہے اور اسے غزہ میں فلسطینی عوام کی نمائندہ حیثیت حاصل ہے۔
امریکہ کا حماس کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونا درحقیقت حماس کی غزہ پر حکمرانی، اس کی سیاسی اور عملی حیثیت، اور اس کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، جو اسرائیل کے اس دعوے کو رد کرتا ہے کہ حماس ایک غیر قانونی اور غیر جائز تنظیم ہے۔
حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بیانیے کی شکست
اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے کوشش کر رہا تھا کہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرے۔ اسی طرح امریکہ اور مغربی ممالک بھی حماس کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتے ہیں اور اسے اپنی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر چکے ہیں۔
اس نظریے کے تحت، حماس کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس سے کسی بھی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں۔ تاہم، امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات نے اس بیانیے کو چیلنج کر دیا ہے۔
یہ مذاکرات اسرائیل اور مغربی دنیا کی برسوں کی محنت سے بنائی گئی منفی تصویر کو ختم کر رہے ہیں، جس کے تحت حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حماس ایک ایسی قوت ہے جس سے براہ راست بات چیت ممکن ہے۔
یہ پیش رفت اسرائیل اور مغربی دنیا کے پروپیگنڈے کو زبردست دھچکا پہنچانے کے مترادف ہے اور اس کے عالمی سطح پر دور رس سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ مذاکرات اسرائیل اور مغربی دنیا کی برسوں کی محنت سے بنائی گئی منفی تصویر کو ختم کر رہے ہیں، جس کے تحت حماس کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں۔ اب جب کہ امریکہ نے خود حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے ہیں، تو یہ اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے اس پروپیگنڈے کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔
اسرائیل پر امریکہ کے بھروسے کی ٹوٹتی دیوار
امریکہ کا براہ راست حماس کے ساتھ مذاکرات کرنا، بغیر کسی اسرائیلی نمائندے کی موجودگی کے، کئی اہم حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ اقدام ایک طرف تو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکومت کو اسرائیل، خاص طور پر مذاکرات کے معاملے میں، مکمل اعتماد نہیں ہے۔ دوسری طرف، یہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی قیدیوں کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتی ہے، بغیر اس کے کہ نتنیاہو کی ضد اور سیاسی مفادات مذاکرات میں رکاوٹ بنیں۔
یہ صورتحال یہ ثابت کرتی ہے کہ ٹرمپ کے نزدیک ظاہری طور پر اسرائیل کے قریبی حامی ہونے کے باوجود، درحقیقت نیتن یاہو مکمل بھروسے کے لائق نہیں ۔
امریکی قیادت کو احساس ہو چکا ہے کہ نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور اس کے ذاتی و سیاسی مقاصد نہ صرف اسرائیل بلکہ خطے میں امریکی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے امریکہ نے اسرائیل کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست حماس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا، تاکہ اسرائیلی اور امریکی قیدیوں کے مسئلے کا کوئی ٹھوس حل نکالا جا سکے۔
اسرائیل کی مکمل فتح کے بیانیے پر سوالیہ نشان
یہ مذاکرات، چاہے کسی نتیجے پر پہنچیں یا نہ پہنچیں، اسرائیل اور نیتن یاہو کے لیے ایک زبردست دھچکا ثابت ہوئے۔ نیتن یاہو نے 15 ماہ تک جاری رہنے والی غزہ جنگ میں حماس پر مکمل فتح اور اس کی تباہی کے دعوے کیے تھے، لیکن امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات اور اس سے قبل اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے دوران حماس کے مضبوط پیغامات نے یہ واضح کر دیا کہ اس جنگ میں اصل فاتح اسرائیل نہیں، بلکہ حماس ہے۔
طاقت کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے
یہ مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ محض طاقت کے ذریعے وہ مزاحمتی قوتوں سے اپنی بات نہیں منوا سکتا۔
امریکی حکومت کو اب یہ احساس ہو چکا ہے کہ فوجی حل کی ناکامی کے بعد، اسے ایک نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
یہ نئی امریکی حکمت عملی طاقت اور جنگ کے بجائے مذاکرات، تفہیم، اور معاہدے پر مبنی ہے۔ اس حکمت عملی کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ امریکہ اب حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے بجائے، ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھنے لگا ہے جو اپنے عوام کے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔
امریکی مفادات اسرائیل سے زیادہ اہم
امریکی حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی اور غزہ میں جنگ کا خاتمہ سب سے پہلے خود امریکہ کے مفاد میں ہے۔
واشنگٹن اس صورتحال سے خطے میں اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے۔ امریکی قیدیوں کے لئیے
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ، آدام بوهلر نے اس حقیقت کو کھل کر بیان کیا اور کہا:
“واشنگٹن تل ابیب کے مفادات کے مطابق کام نہیں کرے گا۔ امریکہ کے خطے میں اپنے مخصوص مفادات ہیں، جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے انہی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حماس سے براہ راست رابطہ کیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ غزہ میں امریکی قیدیوں کی رہائی کا اصل حل کیا ہے۔”
یہ بیان واضح کرتا ہے کہ امریکہ اب اسرائیلی مفادات کے بجائے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے اور اسی لیے وہ حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے، چاہے اسرائیل کو یہ کتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔
امریکی مفادات اسرائیلی مفادات پر مقدم
امریکی حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی اور غزہ میں جنگ کا خاتمہ سب سے پہلے خود امریکہ کے مفاد میں ہے۔
واشنگٹن اس صورتحال سے خطے میں اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے۔
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے امریکی قیدیوں، آدام بوهلر نے اس حقیقت کو کھل کر بیان کیا اور کہا:
“واشنگٹن تل ابیب کے مفادات کے مطابق کام نہیں کرے گا۔ امریکہ کے خطے میں اپنے مخصوص مفادات ہیں، جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے انہی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حماس سے براہ راست رابطہ کیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ غزہ میں امریکی قیدیوں کی رہائی کا اصل حل کیا ہے۔”
جنگوں کے خاتمے کی پالیسی
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ غزہ اور یوکرین کی جنگوں کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے ارادے میں سنجیدہ ہیں۔
ٹرمپ کی یہ پالیسی بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کے برعکس ہے، جو یوکرین کی جنگ کو تین سال سے زیادہ اور غزہ جنگ کو 15 ماہ تک جاری رکھنے کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔
اب ٹرمپ انتظامیہ ہر ممکن طریقے سے ان دونوں جنگوں کو ختم کرنا چاہتی ہے، لیکن اس سے پہلے وہ ان جنگوں سے زیادہ سے زیادہ سفارتی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی پیش رفت
امریکہ اور حماس کے براہ راست مذاکرات نے نتنیاہو کو ایک واضح پیغام دیا کہ اگر وہ مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا، قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کرتا رہا، یا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے جنگ کی دھمکیاں دیتا رہا، تو امریکہ اسرائیل کو نظرانداز کر کے براہ راست حماس سے بات چیت کرے گا۔
نتنیاہو، جو اس پیغام کو بخوبی سمجھ چکا تھا، اپنی پوزیشن بچانے کے لیے ایک ٹیم کو دوحہ بھیجنے پر مجبور ہو گیا تاکہ دوسرے مرحلے کے جنگ بندی مذاکرات کو بحال کر سکے۔
اسی طرح، ایک اسرائیلی سیکیورٹی وفد قاہرہ بھی بھیجا گیا تاکہمصر کے ساتھ غزہ کے انتظامات پر تبادلہ خیال کرےاورغزہ میں امدادی سامان کی بحالی کے حوالے سے بات کرےدوسرے مرحلے کے جنگ بندی معاہدے کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرےاور اس کے دو دن بعد، حماس کا ایک وفد بھی قاہرہ پہنچا تاکہ عرب سربراہوں کے منصوبوں کے نفاذ کے سلسلہ سے چارہ جوئی کی جا سکے۔
کیا ویتکاف کا دورہ کوئی نیا موڑ لا سکتا ہے؟
اس پیچیدہ، غیر یقینی اور سیاسی چالوں سے بھرپور صورتحال میں، سب کی نظریں امریکی ایلچی اسٹیون ویتکاف کے آئندہ ہفتے کے دورے پر لگی ہوئی ہیں۔
ویتکاف کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر جمود کو توڑنا اور مذاکرات کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔
یہاں پر سیاسی بات چیت، خاص طور پر مزاحمتی گروہوں اور ثالثوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر توجہ بہت اہم ثابت ہوگی
اسی دوران، ویٹکاف ٹرمپ کی ” دباؤ اور ترغیب” کی حکمت عملی پر عمل پیر ا ہے
ویتکاف نے حماس کو مذاکرات کی ناکامی کے ممکنہ نتائج سے خبردار کیا، لیکن حماس تنظیم نے سخت موقف اپناتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ کسی بھی دباؤ یا زبردستی کی پالیسی کو قبول نہیں کرے گی۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں