خاخاموں کی سلطنت؛ مغربی کنارے کے عمق میں صیہیونیوں کی ریاست

اب اسموتریچ اور ان کی جماعت "مذہبی صہیونیت" مغربی کنارے میں اپنے مخصوص قوانین نافذ کر نے کے درپے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے ایک نئی حکمرانی کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور مغربی کنارے کو "اسرائیل" میں ضم کرنا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اب اسموتریچ اور ان کی جماعت “مذہبی صہیونیت” مغربی کنارے میں اپنے مخصوص قوانین نافذ کر نے کے درپے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے ایک نئی حکمرانی کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور مغربی کنارے کو “اسرائیل” میں ضم کرنا ہے۔
امریکا کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے بعد، حتی ان کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے پہلے ہی، اسرائیل کے اندر سے بہت سی آوازیں بلند ہوئیں کہ مغربی کنارے کے انضمام اور اس پر اسرائیلی حاکمیت کو مسلط کرنے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ نتن یاہو ان افراد میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے گزشتہ نومبر میں اعلان کیا تھا کہ مغربی کنارے کے انضمام کا معاملہ ان کے نئے سال کے منصوبوں میں شامل ہے، اور 20 جنوری کو ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں داخلے کی تاریخ اس منصوبے کے آغاز کی تاریخ ہوگی۔
نتن یاہو کے ان بیانات کے ساتھ ہی، بتسلئیل اسموتریچ، جو اسرائیل کے وزیر خزانہ اور وزارت جنگ کے ماتحت سول ایڈمنسٹریشن کےوزیر ہیں اور مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کے انچارج بھی انہوں، نے انہیں خیالات کا اظہار کیا، مگر مزید واضح اور انتہا پسندانہ انداز میں۔

اسموتریچ: “2025، مغربی کنارے پر اسرائیلی حاکمیت کا سال ہوگا”
اسموتریچ نے اپنی جماعت “مذہبی صہیونیت” کے اجلاس میں کہا کہ اسرائیل، ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران، مغربی کنارے (یہودا و سامرہ) کے انضمام سے صرف ایک قدم دور تھا، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس ہدف کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: “سال 2025، مغربی کنارے پر اسرائیلی حاکمیت کا سال ہوگا۔”
لیکن اسموتریچ کی یہ باتیں صرف زبانی دعوے نہیں تھیں بلکہ وہ تیز رفتار اور وسیع پیمانے پر اقدامات کے ساتھ آگے بڑھے، یہاں تک کہ اب انہیں “مغربی کنارے کا غیر رسمی حکمران” کہا جا رہا ہے۔ ان کے اقدامات کئی شکلوں میں ظاہر ہوئے، جن میں نئے قوانین بنانا، مختلف اجازت نامے جاری کرنا، اور غیر قانونی بستیوں کے رہائشیوں کے ساتھ سازباز شامل ہیں۔ اس کا واحد مقصد یہودی بستیوں کی توسیع، ان کی بنیادوں کو مضبوط کرنا اور انہیں ناقابل بازگشت حقیقت میں تبدیل کرنا تھا۔
انہیں ان تمام اقدامات میں نتن یاہو کی مکمل حمایت حاصل تھی، چاہے وہ الفاظ میں ہو—جہاں انہوں نے انہیں اہداف پر زور دیا اور اسموتریچ کی سرگرمیوں پر خاموشی اختیار کی—یا عملی طور پر، جہاں انہوں نے فلسطینیوں پر ہجرت کے لیے دباؤ بڑھایا۔
ان پالیسیوں کے نتیجے میں، آج مغربی کنارہ نئے شہر سازی کے قوانین کی ضرب اور اقتصادی جنگ کی چکی میں پس رہا ہے، اور ایک بار پھر یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ میدان میں واحد آپشن، مزاحمت ہے۔

خاموش انقلاب

مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1967 میں اس کے قبضے کے وقت ہوا، جب صہیونی حکومت کے اس وقت کی کابینہ نے مغربی کنارے میں قانونی ڈھانچے کو تبدیل کیا اور انہیں فوجی احکامات کے ساتھ ضم کر دیا، تاکہ فلسطینی اراضی کی ضبط کرنے کو یہودی بستیوں کے قیام کے لیے جائز بنایا جا سکے۔ بعد کی صہیونی حکومتوں نے بھی اسی پالیسی کو مختلف طریقوں سے مگر ایک جیسے مقاصد کے ساتھ جاری رکھا۔
مثلاً، لیوی اشکول کی قیادت میں لیبر پارٹی کی حکومت نے “آلون پلان” کے تحت اس پالیسی کو نافذ کیا، جس کا مقصد مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کرنا تھا۔
یہ بستیوں کی توسیع اس وقت مزید بڑھ گئی جب دائیں بازو کے صہیونی سیاست میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے لگے۔ 2009 میں بنیامین نتنیاہو کے اقتدار میں آنے سے لے کر 2022 تک، دائیں بازو کی حکومتوں نے تقریباً 176 مستقل یہودی بستیاں اور 186 عارضی رہائشی مقامات قائم کیے، جو مجموعی طور پر مغربی کنارے کے 42 فیصد علاقے پر محیط ہیں اور جہاں 720,000 سے زائد یہودی آبادکار رہائش پذیر ہیں۔
مگر 2023 میں جب نتن یاہو کی قیادت میں انتہا پسند ترین صہیونی حکومت تشکیل پائی، تو مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور بھی خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی۔
اس نئی حکومت میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں شامل تھیں، جن میں “مذہبی صہیونیت” پارٹی (جسے بتسلئیل اسموتریچ چلا رہے تھے)، “یہودی طاقت” پارٹی (جسے ایتامار بن گویر رہبری کر رہا تھے)، نتن یاہو کی لیکود پارٹی اور کچھ حریدی جماعتیں شامل تھیں۔ ان تمام جماعتوں کا مشترکہ نظریہ شدید قوم پرستانہ، صہیونی اور فلسطینی دشمنی پر مبنی تھا۔
مئی 2024 میں انسانی حقوق کی تنظیم “بریکنگ دی سائلنس” (شکست سکوت) نے “خاموش انقلاب کے طور پرمغربی کنارے میں حکمرانی کے نظام کی تبدیلی” کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں اس نئی حکومت کے قیام کے اثرات اور مغربی کنارے پر اس کے خطرناک نتائج کو واضح کیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق، نئی کابینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی کنارے میں حکمرانی کا طریقہ کار بین الاقوامی قوانین میں بیان کردہ فوجی قبضے کی تعریف سے بدل کر ایک ایسے حکومتی اداروں اور تنظیموں کے نظام میں تبدیل ہو گیا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے اور مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں اور مشرقی یروشلم کو اسرائیلی علاقوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رپورٹ میں ان وسیع قانونی اور عدالتی تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے پیچھے “بزلل اسموتریچ” کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے، جو کہ وزارت جنگ اور اسرائیلی فوج سے وابستہ مغربی کنارے کی سول ایڈمنسٹریشن کے نگران کے طور پر تھی، مغربی کنارے میں قوانین کے نفاذ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کیں۔
ابتدائی طور پر، انہوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیر جنگ “یوآو گالانت” کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت مغربی کنارے میں کئی فوجی اختیارات فوج سے لے کر اسموتریچ اور ان کی وزارت کو منتقل کر دیے گئے۔ ان اختیارات میں تعمیراتی اجازت نامے جاری کرنا اور شہری خدمات جیسے پانی، بجلی، اور سڑکوں کی تعمیر شامل تھے۔
جون 2023 میں، اسرائیلی کابینہ نے بستیوں میں تعمیراتی منصوبوں کی منظوری کا اختیار بھی اسموتریچ کو دے دیا، جو اسرائیل کے تین دہائیوں پرانے پروٹوکولز کے خلاف تھا۔ ان پروٹوکولز کے مطابق، ان منصوبوں کو وزیر اعظم اور وزیر جنگ کی منظوری درکار ہوتی تھی۔
اس کے بعد، اسموتریچ نے قانونی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور نئے انتظامی ادارے اور عہدے تخلیق کیے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا حکومتی نظام تشکیل پایا جو فوجی حکمرانی سے آزاد کام کرتا تھا۔
نئے قائم کردہ اداروں میں سے ایک سب سے اہم “شہر بسانے والا ایک ادارہ ” (آبادیوں کی تنظیم) تھا، جس کی سربراہی “یہودا الیاهو” کے سپرد کی گئی، جو اسموتریچ کے نہایت قریبی دوست تھے۔ اسموتریچ اور الیاهو نے مل کر یہ تنظیم “رگاویم” کے نام سے آبادکاری کی حمایت کے لیے قائم کی تھی۔
اسموتریچ نے الیاهو کو اس تنظیم میں وسیع اختیارات دیے، جن میں تعمیراتی اجازت نامے جاری کرنا، یہودی آبادکاروں کی غیر قانونی تعمیرات کو مسمار ہونے سے روکنا، اور فلسطینیوں کے گھروں اور عمارتوں کو کسی بھی بہانے سے منہدم کرنا شامل تھا۔
اس تنظیم کی بدولت، یہودی آبادکاروں کی غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کا عمل 2022 میں ماہانہ 25 عمارتوں سے کم ہو کر 2023 میں ماہانہ صرف 2 عمارتوں تک محدود ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آبادکاروں کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ جو چاہیں کریں۔
مزید برآں، اسموتریچ نے سول ایڈمنسٹریشن (ادارہ مدنی) میں ایک نائب سربراہ کا نیا عہدہ تخلیق کیا اور قانونی مشاورت کے اختیارات بھی فوج سے لے کر اس سول ایڈمنسٹریشن کو منتقل کر دیے۔ اس اقدام کے ذریعے اسرائیلی فوج کے اختیارات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
قانونی مشاورت کے اختیارات کو سول ایڈمنسٹریشن کے حوالے کرنے کے بعد، صہیونی حکومت بین الاقوامی قوانین کی ان پابندیوں سے بچنے میں کامیاب ہو گئی جو بظاہر مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ تھیں، مگر اب ان قوانین کو نظرانداز کر کے اسرائیلی قبضے کو مزید مستحکم کیا جا رہا تھا۔

ظاہری رکاوٹیں اور چیلنجز

یہ سوچنا کہ مغربی کنارے کا اسرائیل سے الحاق ایک روایتی اور رسمی عمل ہوگا، جس میں جھنڈے نصب کئیے جائیں گے، اجازت نامے جاری ہوں گے اور باضابطہ اعلان کیا جائے گا، یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی انتہا پسند دائیں بازو کی کابینہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے ہی مغربی کنارے کے عملی الحاق میں مصروف ہے۔
اسموتریچ کی پالیسیوں کا بنیادی مقصد مغربی کنارے کو عملی طور پر اسرائیل میں شامل کرنا ہے اور ان اقدامات کے ذریعے وہ صہیونیوں کے “دریا سے لے کر دریا تک” کے خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کے بارے میں برطانوی اخبار دی گارڈین نے انتباہ کیا ہے۔ اخبار کے مطابق، “اسموتریچ کی پالیسیاں مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو ایسی حقیقت کے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں جس میں ان کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔”
فلسطینی سرزمین کے الحاق کو آسان بنانے کے لیے قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ، اسموتریچ نے اسرائیلی آبادکاروں کی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں بھی اضافہ کیا ہے، اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی سیاسی حیثیت کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں فلسطینیوں، ان کی املاک اور زمینوں کے خلاف 591 پرتشدد واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو ماہانہ 98 حملوں کی اوسط بنتی ہے۔ یہ تعداد 2022 کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ ہے، جب ماہانہ 81 واقعات پیش آئے تھے۔
اس سے بھی بڑھ کر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے کی جانے والی عدالتی اصلاحات، جنہوں نے اسرائیل میں شدید تنازع کھڑا کر دیا تھا، درحقیقت مغربی کنارے کے اسرائیل سے الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھیں۔ ان اصلاحات کا مقصد اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے یہودی بستیوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرنا تھا، تاکہ بستیوں کی توسیع میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسموتریچ کی قیادت میں کام کرنے والی رگاویم تحریک ان عدالتی اصلاحات کی پرجوش حامی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود، یہ تصور کرنا کہ اسرائیلی سپریم کورٹ یا اسرائیلی حکومت کی کوئی کمیٹی واقعی یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کے خلاف کوئی حقیقی رکاوٹ بن سکتی ہے، سراسر خام خیالی ہے۔
ایسے حالات میں “طوفان الاقصیٰ” آپریشن اور اسرائیل کی غزہ کے خلاف نسل کشی کی جنگ کا آغاز ہوا، جس نے وقتی طور پر نیتن یاہو کی کابینہ کو عدالتی اصلاحات کے ایجنڈے سے ہٹا دیا، لیکن یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل ہرگز نہیں رکا۔

مثال کے طور پر، گزشتہ ایک سال کے دوران، جب سے اسموتریچ نے مغربی کنارے میں سول ایڈمنسٹریشن کے اختیارات سنبھالے، سپریم کونسل برائے منصوبہ بندی و تعمیرات نے 18,515 تعمیراتی اجازت نامے جاری کیے۔ ان میں سے 3,500 اجازت نامے “معالیہ ادومیم”، “افرات” اور “کیدار” کی یہودی بستیوں میں نئے رہائشی یونٹس کی تعمیر کے لیے دیے گئے۔
اسرائیلی اخبار “اسرائیل الیوم” نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایک سال میں جاری کیے گئے سب سے زیادہ تعمیراتی اجازت نامے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔
اسموتریچ نے 2024 کے بجٹ میں تقریباً 4.9 ارب شیکل (تقریباً 1.3 ارب ڈالر) یہودی بستیوں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، نئی بستیوں کی تعمیر، غیر قانونی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے، شہری خدمات (پانی، بجلی، سڑکوں) کی فراہمی، مذہبی اسکولوں کی تعمیر، اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے مختص کیے ہیں۔
اس کے علاوہ، اسموتریچ نے آئندہ دو دہائیوں میں مغربی کنارے میں آبادکاروں کی آبادی کو ایک ملین تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

“گرین لائن” کا خاتمہ: حتمی مقصد

ان تمام اقدامات کا اصل اور حتمی ہدف “گرین لائن” (خط سبز) کو مٹانا ہے، جو فلسطین کی تاریخی سرزمین کو بین الاقوامی قراردادوں کے تحت تقسیم کرتی ہے۔
یہ گرین لائن ان علاقوں کو الگ کرتی ہے، جن پر اسرائیل نے 1948 میں قبضہ کیا تھا، ان علاقوں سے جو 1967 میں قبضے میں لیے گئے۔ اس حد بندی کے خاتمے کا مطلب “دو ریاستی حل” کی عملی موت ہے۔
اسموتریچ، اپنی مذہبی پس منظر کی بنا پر، اس حل کا سخت مخالف ہے۔ وہ دوسرے انتہا پسند مذہبی صہیونیوں کی طرح یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم “گریٹر اسرائیل” کا حصہ ہیں۔

اقتصادی جنگ

اسموتریچ کا مغربی کنارے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ صرف یہودی بستیوں کی توسیع تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک انتہائی اہم اقتصادی پہلو بھی ہے۔ اس کا مقصد فلسطینیوں پر سخت معاشی اور اقتصادی حالات مسلط کرکے ان کی مزاحمت کو توڑنا ہے۔
اسی لیے فلسطینی معیشت پر سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ سال کے دوران فلسطین کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں 28 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ مغربی کنارے میں بیروزگاری اور غربت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ان پابندیوں کے باعث فلسطینی معیشت اپنی 80 فیصد پیداواری صلاحیت کھو چکی ہے، اور فلسطینی اتھارٹی کی وزارت اقتصادیات کے مطابق، روزانہ 20 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔

فلسطین کے مرکزی محکمہ شماریات کے مطابق:

مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں 32 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

صرف مغربی کنارے میں معاشی ترقی کی شرح میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی۔

فی کس مجموعی قومی پیداوار 24 فیصد کم ہو گئی۔

اقتصادی نقصان صرف GDP تک محدود نہیں

یہ نقصان صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ فلسطینیوں کی املاک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے 23 ستمبر 2024 کے دوران:

اسرائیل نے 1,725 فلسطینی عمارتوں اور گھروں کو تباہ کیا۔

1,900 مزید عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

یہ تمام کارروائیاں ان نئے قوانین کے تحت انجام دی گئیں جو اسموتریچ نے فلسطینیوں کی موجودگی کو کمزور کرنے کے مقصد سے منظور کیے تھے۔
یہ قوانین دراصل اسرائیل کی اجتماعی سزا کے اقدامات کا حصہ ہیں، جو اس نے “طوفان الاقصیٰ” آپریشن کے ردعمل میں فلسطینیوں کے خلاف نافذ کیے۔
یہ قوانین مزید پابندیوں پر مشتمل ہیں

یہ نئے قوانین نہ صرف ٹیکسوں میں اضافے، بلکہ فلسطینیوں کے روزگار کے مواقع محدود کرنے اور سماجی خدمات تک ان کی رسائی روکنے جیسے اقدامات پر بھی مشتمل ہیں۔
اسرائیل نے اپنی منڈیوں کو فلسطینی مزدوروں کے لیے بند کر دیا، جس کے نتیجے میں:

200,000 فلسطینی مزدور، جو اسرائیل کے اندر کام کر رہے تھے، اپنی نوکریاں کھو بیٹھے۔

فلسطینی معیشت نے 306,000 ملازمتوں سے محرومی کا سامنا کیا۔

اس کے نتیجے میں، 2024 کے پہلے نصف میں فلسطینی بیروزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ 2022 میں یہ صرف 13 فیصد تھی۔

حتمی مقصد: فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا

ان تمام اقدامات کا اصل مقصد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔ یہ وہ بنیادی منصوبہ ہے جو مغربی کنارے کے اسرائیل میں الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
اسموتریچ، نیتن یاہو کی حمایت سے، اسے علاقائی خاموشی اور عالمی برادری کی ملی بھگت کے سائے میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وضاحت: یہاں “ریاست” کا ذکر محض ایک اصطلاح کے طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ اسرائیل یا زیادہ درست الفاظ میں “صہیونی حکومت” کو سیاسیات اور بین الاقوامی قانون کے روایتی مفہوم میں ایک ریاست تسلیم کرنے کے لیے۔