پہلی مجلس 3 دسمبر 2024

خطبہ فدکیہ کی عظمت/ خطبہ فدکیہ میں حج کا مقصد: علامہ جواد نقوی

اس خطبہ فدکیہ سے متعلق ہماری گزشتہ تقاریر میں ایمان، نماز، زکات اور صیام کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور بی بی دوعالم کی طرف سے بیان کیا گیا ان چیزوں کا فلسفہ گزارش کیا گیا۔ آج جو ہماری گفتگو ہے وہ حج کے موضوع سے شروع ہو گی والحَجَّ تَشْييداً لِلدّينِ، حج کو اللہ تعالیٰ نے کیوں واجب کیا؟ 
فقالت فاطمۃ الزہرا سیدۃ نساء العالمین علیہا السلام
فَجَعَلَ اللهُ الإيمانَ تَطْهيراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ الكِبْرِ، والزَّكاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَنَماءً في الرِّزْق، والصِّيامَ تَثْبيتاً للإِخْلاصِ، والحَجَّ تَشْييداً لِلدّينِ، وَالعَدْلَ تَنْسيقاً لِلْقُلوبِ، وَطاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَإمامَتَنا أماناً مِنَ الْفُرْقَةِ، وَالْجِهادَ عِزاً لِلإْسْلامِ، وَالصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اسْتِيجابِ الأْجْرِ، وَالأْمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعامَّةِ، وَبِرَّ الْوالِدَيْنِ وِقايَةً مِنَ السَّخَطِ، وَصِلَةَ الأَرْحامِ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَالْقِصاصَ حِصْناً لِلدِّماءِ، وَالْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْريضاً لِلْمَغْفِرَةِ، وَتَوْفِيَةَ الْمَكاييلِ وَالْمَوَازينِ تَغْييراً لِلْبَخْسِ، وَالنَّهْيَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزِيهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَاجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ، وَتَرْكَ السِّرْقَةِ إيجاباً لِلْعِفَّةِ. وَحَرَّمَ الله الشِّرْكَ إخلاصاً لَهُ بالرُّبُوبِيَّةِ، {فَاتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إلا وَأنْتُمْ مُسْلِمُونَ} وَ أطيعُوا اللهَ فيما أمَرَكُمْ بِهِ وَنَهاكُمْ عَنْهُ، فَإنَّه {إنَّما يَخْشَى الله مِنْ عِبادِهِ العُلِماءُ}.
حضرت فاطمہ زہرا(س) کے ایام شہادت کے موقع پر مکتب امامت و ولایت کے تمام پیروکاروں کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔ خطبہ فدکیہ کے نام سے حضرت فاطمہ زہرا(س) کا یہ معروف خطبہ ہے جسے آپ نے نبی کریم (ص) کی رحلت کے بعد اپنے حق کے مطالبہ کے لیے مسجد النبی میں اصحاب رسول کے مجمع میں بیان فرمایا۔
خطبہ فدکیہ کی عظمت
اس نورانی خطبہ میں ایک مکمل دینی نصاب پایا جاتا ہے۔ اگر یہ خطبہ کسی تعلیمی ادارے کے اندر پڑھایا جائے تو اسے کسی دوسرے نصاب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایک اجمالی اور جامع نصاب اس نورانی خطبے میں پایا جاتا ہے۔ حضرت زہرا(س) نے اس خطبے میں ترتیب کے ساتھ توحید سے گفتگو شروع کی پھر نبی کریم کی نبوت اور قرآن کریم کے بارے میں مطالب بیان کیے اس کے بعد نصاب دین کا اہم ترین باب کھولا ہے۔
قرآن کریم میں پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی تین اہم ذمہ داریاں بیان کی ہیں، آیات الہی کی تلاوت، نفوس کا تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم۔ بی بی دوعالم نے اس خطبے میں کتاب و حکمت کی تعلیم کے تکمیلی مرحلے کو بیان فرمایا ہے۔ رسول خدا (ص) نے قرآن کی شکل میں اللہ سے دین دریافت کیا احکام و قوانین کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ کسی حد تک آپ نے ان احکام کے مقاصد کو بھی بیان کیا ہے، لیکن حضرت فاطمہ زہرا(س) نے اس مرحلہ کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے دین شناسی کا ایک اہم باب کھولا ہے اور وہ فلسفہ دین ہے جس کے اندر دین کے احکام اور دین کی تعلیمات کا مقصد بیان کیا جاتا ہے۔ گرچہ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں کے اندر فلسفہ دین کے عنوان سے یہ موضوع موجود نہیں ہوتا۔ احکام اور ان کے دلائل بیان کیے جاتے ہیں لیکں احکام کے مقاصد بیان نہیں ہوتے، جناب سیدہ(س) نے یہ نادر موضوع بیان کیا ہے۔ اگرچہ عصر حاضر میں ہمارے کچھ علماء نے عیسائی علماء کی تقلید میں اس موضوع کو کم و بیش بیان کرنا شروع کیا ہے۔
اس خطبہ فدکیہ سے متعلق ہماری گزشتہ تقاریر میں ایمان، نماز، زکات اور صیام کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور بی بی دوعالم کی طرف سے بیان کیا گیا ان چیزوں کا فلسفہ گزارش کیا گیا۔ آج جو ہماری گفتگو ہے وہ حج کے موضوع سے شروع ہو گی والحَجَّ تَشْييداً لِلدّينِ، حج کو اللہ تعالیٰ نے کیوں واجب کیا؟
خطبہ فدکیہ کے مخاطبین
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس کلاس کو جناب سیدہ یہ تعلیم دے رہیں تھیں وہ اسلام کی پہلی کلاس اور پہلی نسل تھی، کچھ نے نبی کریم کے حضور میں اپنی تعلیم و تربیت کا نصاب مکمل کیا اور کچھ نے نہیں کیا تھا چونکہ جوں جوں نئے نئے لوگ مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوتے گئے دھیرے دھیرے اسلامی احکام سے آشنائی حاصل کرتے رہے۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تمام احکام الہیہ کو سیکھ چکے تھے احکام سے کسی حد تک اکثریت کو آشنائی ہو چکی تھی لیکن احکام کے مقاصد اور فلسفے کو بیان کرنا ابھی باقی تھا۔ لہذا جناب سیدہ نے اسلام کی پہلی کلاس کو ہی دینی احکام کے مقاصد بیان فرمائے۔
خطبہ فدکیہ میں حج کا مقصد
ان احکام میں سے حج ایک ایسی جامع عبادت ہے جس کا فلسفہ بی بی دوعالم نے دو لفظوں میں بیان فرمایا دیا۔ والحَجَّ تَشْييداً لِلدّينِ، حج کو دین کے استحکام کے لیے مقرر فرمایا۔ تشیید کا مطلب کسی عمارت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا، بلند کرنا اور خوبصورت بنانا ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم کی لفظ ہے اور قرآن میں مشیدا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ تینوں معنیٰ اس لفظ کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔
بی بی زہرا  سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ دین کی مضبوطی، استحکام، پائیداری، بلندی اور زیبائی کے لیے اللہ نے حج مقرر کیا ہے۔
عبادت کسے کہتے ہیں؟
عبادتیں جتنی بھی ہیں جیسے نماز ہے روزہ ہے زکات ہے حج ہے عبادتوں کی نوعیت مختلف ہے کچھ جسمانی عبادتیں ہیں اور کچھ مالی عبادتیں ہیں اصطلاح میں عبادت ان فرائض کو کہا جاتا ہے جن کی بجا آوری کے وقت انسان کو قربۃ الی اللہ کی نیت کرنا پڑتی ہے اگر یہ نیت نہ ہو تو عمل عبادت شمار نہیں ہو گا۔ امتثال امر پروردگار کی خاطر انجام پانے والا کام عبادت کہلاتا ہے۔
جب عبادتوں کا باب کھلتا ہے تو ہماری ساری توجہ عبادتوں کے معنوی پہلو کی طرف جاتی ہے جیسے نماز میں ہم صرف معنویت تلاش کرتے ہیں اور علماء و فقہاء بھی جب نماز کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس کے معنوی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نماز انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے نماز انسان کو برائیوں سے روکتی ہے اس کے تقویٰ میں اضافہ ہوتا ہے اس کی روح پاکیزہ ہوتی ہے یہ معنوی امور ہیں جو انسان کے نفس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اور یقینا ایسا ہی ہے کہ عبادتوں کا انسان کی روح اور نفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ عبادتوں کے علاوہ کسی اور چیز کا روح انسانی کے ساتھ شاید ہی اتنا گہرا تعلق ہو۔
عبادتوں کے سماجی اور مادی فوائد
عبادتوں کے معنوی پہلووں کو بیان کرتے وقت ان کے سماجی اور مادی فوائد کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہماری کتابوں میں بھی مادی فوائد کا بالکل کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن قرآن کریم نے دونوں پہلوں یعنی معنوی اور مادی کا تذکرہ کیا ہے۔ معنوی پہلووں کو سمجھنا آسان نہیں ہے ہم اکثر بنا سمجھے صرف سن کر یا پڑھ کر ’تعبدا‘ مان لیتے ہیں تعبدا یعنی ہم بندہ خدا ہونے کی حیثیت سے اس کی جانب سے آئی ہوئی ساری باتیں مان لیتے ہیں۔ بندگی کا تقاضا ہی یہی ہے کہ چاہے آپ کو بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے آپ نے مان کر بجا لانا ہے۔ جیسے ڈرائیور کو جب مالک کہتا ہے کہ مجھے فلاں جگہ چھوڑ کر آو تو وہ پلٹ کر یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ کو وہاں جانے کا فائدہ کیا ہے اسے مالک کی ہر بات بغیر چوں چراں کے ماننا ہے۔ اس کام کو تعبد کہتے ہیں۔ یعنی ملازم ہونے کی حیثیت سے جو آپ کو کہا جاتا ہے چاہے آپ اسے سمجھے ہیں یا نہیں سمجھے ہیں آپ کو انجام دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرامین اس کا بندہ ہونے کی حیثیت سے اگر آپ کی سمجھ میں آ رہے ہیں تب بھی اور اگر سمجھ میں نہیں بھی آ رہے ہیں تب بھی بجا لانا ہوں گے۔ ساری عبادتیں ایسی ہی ہیں انہیں اللہ کا عبد اور بندہ ہونے کی حیثیت سے ان کو بنا چوں چراں کے بہرصورت انجام دینا ہوتا ہے۔
معرفت کے بغیر عبادت بے نتیجہ ہے
بندہ کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام فرامین کو بجا لائے لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہیں بنا سمجھے ہی بجا لائے اگر سمجھ کر اور ان کے مقاصد جان کر بجا لاتا ہے تو اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔
عبادت اگر معرفت کے ساتھ ہے تو وہ واقعی معنیٰ میں عبادت ہے عبادت میں ’عارفا بحقھا‘ کی تاکید ہے جب عبادت معرفت کے ساتھ ہوگی تب اس کا نتیجہ ظاہر ہو گا۔ چونکہ بنا معرفت اور سمجھ کے ہم کسی عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ دنیوی کام بھی ایسے ہیں آپ موبائل کا استعمال ’عارفا بحقھا‘ کرتے ہیں موبائل کی معلومات آپ کے پاس ہیں اس کے سارے فنکشن سے آپ آشنا ہیں تبھی آپ اس کو چلاتے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تعبد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان معرفت حاصل نہ کرے بلکہ تعبد کی تکمیل معرفت سے ہوتی ہے روزمرہ کی زندگی میں انسان جتنے بھی کام کرتا ہے وہ معرفت کے ساتھ انجام دیتا ہے لیکن جب دین کا مسئلہ آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ بنا معرفت کے بھی تعبدا دین کے کاموں کو انجام دیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے دین کے تمام کام بھی مکمل معرفت کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔
مقصد عبادت کو سمجھنے کی ضرورت
عبادات میں مقصد عبادت بہت اہم ہے زیادہ تر لوگوں کو عبادت بے مقصد لگتی ہے اس لیے اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ رغبت اس وقت آتی ہے جب کام کا مقصد پتا ہو۔ تعلیم بھی بغیر رغبت کے کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔ جن لوگوں میں تعلیم کی رغبت پائی جاتی ہے انہیں صرف راستہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عبادت کے اندر رغبت ضروری ہے اور رغبت معرفت سے پیدا ہوتی ہے اور معرفت عبادت کے مقصد کو جاننے سے آتی ہے۔ اس لیے جناب سیدہ نے اپنے خطبے میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطبے کے شروع میں امت کو فلسفہ دین سمجھایا ہے۔ رسول خدا (ص) کے بعد امت کو اگر دین لینے کے لیے کسی ذات کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا تو وہ امام علی کی ذات اور جناب سیدہ کی ذات تھی چونکہ یہ دو وہ شاگرد ہیں جنہوں نے دن رات ہر لمحہ رسول خدا سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن امت نے اگر کسی کی طرف رجوع کیا تو وہ مردوں میں جناب ہریرہ ہیں اور عورتوں میں جناب عائشہ ہیں۔ سب سے زیادہ احادیث اہل سنت میں ان دو لوگوں کی ہیں۔ لیکن بہرحال جب جناب سیدہ کو یہ تلخ موقع گفتگو کے لیے نصیب ہوا تو اس سے ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو فلسفہ دین کی طرف متوجہ کیا۔
دین کس سے لیں؟
امت کے لیے اور خاص طور پر ہمارے لیے جو ہم بی بی زہرا (س) سے محبت کا دم بھرتے ہیں انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنا دین بی بی زہرا (س) سے لیں اس لیے جیسا دین رسول اللہ نے بی بی کو سکھایا ایسا کسی کو نہیں سیکھایا نہ صحابہ کو، نہ ازواج کو اور نہ دیگر لوگوں کو۔ دیگر صحابہ کے اقوال کا آپ بی بی زہرا کے کلام سے موازنہ کر لیں دوسرے صحابہ کی وہی باتیں وزنی ہیں جو انہوں نے رسول خدا سے نقل کی ہیں لیکن بی بی زہرا (س) یہ خطبہ راوی بن کر نقل نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنی معرفت اور قابلیت کی بنا پر یہ اپنا کلام بیان کر رہی ہیں۔ اتنی فصاحت و بلاغت اور کلام میں اتنی گہرائی جس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ جناب زہرا(س) کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جناب فاطمہ زہرا (س) کے مقام کی عظمت کو اگر سمجھنا ہے تو اس خطبہ فاطمیہ کو آکر دیکھیں۔
حج دین کی مضبوطی کا سبب
اس خطبہ میں آپ نے حج کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’والحج تشییدا للدین‘ ۔ دین کو مستحکم بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حج کو مقرر فرمایا۔ حج کے ذریعے دین کو اتنا مضبوط بنایا کہ کوئی اس کی عمارت کو مسمار نہ کر سکے۔ اللہ نے دین بنایا تو دین کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ اس کی حفاظت کریں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے اس نے خود ایسا مضبوط انتظام کیا کہ کوئی دین کی عمارت کو گرا نہ سکے۔ دین کی عمارت کو استعمال کرنے والوں کے پاس دین کی کوئی معرفت نہیں ہوتی اور جس چیز کی معرفت نہ ہو اس کی انسان ناقدری کرتا اور اسے باآسانی خراب کر دیتا ہے۔ دین کا تعلق ہر فرد سے ہے اور ہر فرد دین کے حوالے سے معرفت نہیں رکھتا لہذا وہ اس عمارت کے استعمال میں کبھی بھی اس کی حفاظت نہیں کر سکتا یقینا اس نے خرابی کرنا ہے۔
شہید مطہری کہتے ہیں کہ جب میں نے ابتدا میں دین کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو میں نے دیکھا جو دین میں نے کتابوں میں پڑھا ہے اور جو دین لوگوں کے پاس ہے اس میں بہت فرق ہے تو اس سے مجھے ایک جھٹکا لگا جس کے بعد میں نے لوگوں کے لیے وہی بیان کرنا شروع کیا جو کتابوں میں لکھا ہے۔
لیکن ہمارے یہاں کیا ہے ہمارے یہاں جو کتابوں میں دین لکھا ہے وہ بھی درست ہے چونکہ انہوں نے زحمت کی ہے اللہ ان کو بھی اجر دے اور جو ذاکرین ممبروں سے دین بیان کرتے ہیں وہ بھی درست ہے اللہ ان کو بھی اجر دے۔ چونکہ ہمارے یہاں دین کی مارکٹ ویسی ہے جیسی چین کے مال کی مارکٹ ہے جس میں ہر طرح کا مال بکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو شہید مطہری جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں دین کا درد ہو۔ شہید مطہری کی کتابوں میں خالص دین ہے وہی دین ہے جو قرآن اور اہل بیت(ع) نے دیا ہے اس لیے امام خمینی نے شہید مطہری کی کتابوں کو نصاب قرار دیا اور امت کو ان کتابوں کے مطالعہ کی تاکید کی۔
دین کی بنیادوں کو کوئی ہلا نہیں سکتا
اسی چیز کو بی بی زہرا(س) نے اپنے خطبے میں سمجھایا ہے کہ اللہ نے دین لوگوں پر نہیں چھوڑا کہ لوگ یہود و نصاریٰ کی طرح دین کو افسانہ بنا دیں بلکہ خود دین کا ڈھانچہ اتنا مضبوط بنایا کہ کوئی اس کی بنیادوں کو ہلا نہ سکے دین کے اندر کچھ ایسی چیزیں رکھیں جن سے دین کو تقویت، مضبوطی اور تحفظ ملے۔ ان میں سے ایک حج ہے۔ اللہ نے حج کے ذریعے دین کا ڈھانچہ مضبوط کیا۔ اور دین اسلام کا ڈھانچہ اتنا مضبوط کر دیا کہ بنو امیہ، بنو عباس، بنو عثمان، مغل سب مل کر چنگیز و اسکندر کی طرح دین پر چڑھائی کریں تب بھی دین کی بنیادوں کو ہلا نہیں سکتے آج بھی دین کی عمارت اپنے اصلی ستونوں پر کھڑی ہے۔
حج کیسے دین کی مضبوطی کا سبب ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ٹھوڑا حج کے اوپر گفتگو کرنا پڑے گی۔ ’تشییدا‘ کے بارے میں قرآن کریم کے سورہ نساء کی آیت 78 کو بطور مثال پیش کرتا ہوں:
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ (تم جہاں کہیں (بھی) ہوگے موت تمہیں (وہیں) آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں (ہی) ہو،)
موت زندگی کا تسلسل ہے زندگی کا خاتمہ نہیں ہے لہذا موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موت ہر زندگی کا لازمہ ہے اور تمہیں بہرصورت موت کا سامنا کرنا ہے گرچہ تم کنکریٹ اور مضبوط عمارتوں اور ٹاوروں میں کیوں نہ ہو۔
بی بی دوعالم نے اسی لفظ ’تشییدا‘ کا استعمال کر کے یہ بتا دیا کہ دین مضبوط ہونا چاہیے دین کمزور نہیں ہونا چاہیے آپ کے پاس سب سے مضبوط چیز دین ہونا چاہیے۔ دین جو اللہ کے پاس ہے وہ مضبوط ہے لیکن جو انسان کے پاس ہے اسے بھی مضبوط ہونا چاہیے۔
حضرت زہرا کے نزدیک دین اہم ترین موضوع
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نزدیک جس چیز کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل تھی وہ دین تھا ناگوار ترین حالات میں بھی آپ نے دین سکھانے کی بات کی، بی بی کے نزدیک صرف فدک کا مسئلہ اہم نہیں تھا بلکہ دین کا مسئلہ اس سے زیادہ اہم تھا اور پھر امیرالمومنین (ع) کے حق کا موضوع تھا، جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے چھینا گیا وہ فدک سے زیادہ تکلیف دہ تھا، ان سے زیادہ جو چیز بی بی کے لیے دکھ کا باعث بنا وہ رسول خدا کی جدائی تھی۔
جناب زہرا (س) کا اپنے بابا رسول خدا سے کس قدر تعلق تھا اور رسول خدا کے نزدیک بی بی کا مقام کیا تھا اس کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تعلق اور رشتہ صرف باپ بیٹی کا رشتہ نہیں تھا بلکہ باپ بیٹے کے تعلق سے ماوراء تھا چونکہ رسول اکرم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول تھے اور بی بی بھی اللہ کی طرف سے عطیہ تھیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے مقام کی خبر تھی رسول بھی اپنی بیٹی کے مقام سے آشنا تھے اور بیٹی بھی بابا کے عظیم مقام سے آگاہ تھی۔ لہذا یہ صرف باپ بیٹی کا رشتہ نہیں تھا۔