خواہشوں کے سمندر میں ڈوبتا انسان اور کشتی نجات حسینی

خواہشوں کے بپھرے سمندر کے سامنے ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو کشتی نجات میں سوار کر لیں وہ کشتی جو ہماری خواہشوں کو کنڑول کر کے ہمیں ساحل توحید سے ہمکنار کردے گی اور ہماری نجات یقینی ہو جائے گی ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہمارے سامنے آج خواہشوں کا ایک سمندر ہے جس میں ہر طرف ڈوبتے انسان نظر آ رہے ہیں ، ان لوگوں کے ڈوب جانے کا اتنا افسوس نہیں جنکے پاس کوئی کشتی نجات نہیں ہے لیکن افسوس ان لوگوں پر ہے جو کشتی نجات کے ہوتے ہوئے ڈوب رہے ہیں اور کشتی میں سوار ہونے کو تیار نہیں ۔ ہمارے لئے دشمن ہر دن کے سورج کے ساتھ نئی خواہشوں کا جال بچھاتا نظر آ رہا ہے ہم میں سے بہت ہم ہیں جو اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ وسائل کی بہتات و فراوانی کبھی ہمیں خواہشوں کی تنوعیت و کثرت سے نہیں روک سکتی ، اگر خواہشوں کو اعتدال کی راہ پر لانا ہے تو اسکے لئے معرفت ضروری ہے ۔ ہمارے اطراف میں ہر طرف خواہشوں کے ابھارنے کے نئے نئے انداز ہیں ،نئے نئے طریقوں سے انسان کی خواہشوںکو جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
آج آپ جس طرف نظر ڈالیں آئے دن نئے نئے پروڈکٹ مارکٹ میں لانچ ہو رہے ہیں ، نئی نئی مصنوعات ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے موبائل اسکرین پر طلوع ہو جاتی ہیں اور شام ہوتے ہوتے ہر طرف نئی نئی چیزوں کا ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ انسان ان میں سے کچھ نہ کچھ کو اپنی ضرورت سمجھ کر بک کر لیتا ہے ، آسانیاں بھی اتنی ہیں کہ آ کو نہ مارکٹ جانے کی ضرورت نہ تھکانے کی ضرورت بس موبائل اسکرین پر گھر گرہستی کے سامان سے لیکر روز مرہ استعمال ہونے والے الیکٹرانک سازوسامان کے ان گنت نمونے آ پ کو یوں نظر آئیں گے کہ آپ جان چھڑانا بھی چاہیں تو جاتے جاتے ایک بار کلک کر کے دیکھنے میں کیا جاتا ہے کا خیال آپ کو وہیں پہچنچائے گا جہاں بڑی ہوشیاری سے آج دوسروں کی جیب خالی کرنے والے ہنر مندوں نے ہمارے لئے جال بچھایا ہوا ہے ۔
شک نہیں کہ انسان کی خواہشوں کا سلسلہ فطری ہے انسان کے وجود کے اندر اللہ نے جو جذبات رکھیں ہیں جو خواہشیں ہیں وہ انسان کے وجود کا تقاضا ہے انہیں خواہشوں کو شریعت کے دائرے میں آگے بڑھنے والا انسان کامیاب انسان بنتا ہے مگر افسوس کچھ غیر حقیقی خواہشیں ہیں جو جھوٹی ہیں لیکن ان پر ایسا ملمع کاری کی گئی ہے لگتا ہے ان کے بغیر انسان جی نہیں سکتا

غیر حقیقی خواہشات اور انسان کا متزلزل ارادہ 
نفسیاتی طور پر انسان آسانیاں تلاش کرتا ہے اور اسی طرف جاتا ہے جہاں اسے سکون ملے لیکن یہاں جو چیز نفسیات کے کام کو مشکل بناتی ہے وہ ہے مصنوعی اور جعلی لگاو اور جعلی اور جھوٹے برانڈزاور مارک کا وجود ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں دلچسپیوں کا ایک ایسا سلسلہ پیدا ہوتا ہے، جو انسانی فطرت اور ساخت کا حصہ نہیں ہے ، لیکن تلقین ، تکرار اور ماحولیاتی عوامل کے نتیجے میں یہ خواہشیں وجود میں آ جاتی ہیں ، اور اصل متاع کا ایسا رنگ اور ایسی شکل اختیار کر لیتی ہیں کہ خود انسان تو ان سے متاثر ہوتا ہی ہے ماہر نفسیات اور محقق کو بھی شبہہ ہوتا ہے کہ شاید یہ واقعی اصلی اور حقیقی ہے یہ بڑی عجیب بات ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کبھی ہمارے اطرا ف میں ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ ہم اس ماحول کی بنیاد پر کچھ چیزوں کو اپنے لئے ضروری سمجھ بیٹھتے ہیں ، کیا آج سے پہلے یہ تصور تھا کہ بچوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں کھلونے کی جگہ پچاس ہزار سے زائد کی قیمت کے موبائل ہوں اور اس پر بھی انہیں ضد ہو کہ موبائل کا اور نیا ماڈل ہمیں چاہیے ؟
یہ سب ایک منصوبہ بند اس قدر منظم سازش کے تحت ہوا ہے کہ ہم کبھی اسے نہ سازش ماننے کے لئے تیار ہوں گے نہ اس کی منصوبہ بندی کا اعتراف کریں گے ، خواہشوں کو اگر لگام نہ دی جائے تو یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں اور آج کی دنیا خواہشوں کو ہمارے سامنے اس انداز سے سجا کر پیش کرتی ہے کہ اگر انسان انکی طرف مائل نہ ہو تو گو کہ انسان کی ہی نہیں ہے
انواع و اقسام کے ویڈیو گیم ہوں یا موبائل پر کھیلے جانے والے مختلف کھیل یا تفریح ومستی کی دیگر آلات و وسائل ہر ایک اپنی پوری ایک دنیا ہے اور ان کے بیچ میں اسیر انسان ہے جو بجائے اسارت کے بندھنوں کے کم کرنے کے خود ہی زنجیروں سے اپنے وجود کو جکڑے جا رہا ہے اور ریشم کی کیڑے کی طرح اپنے ہی تھوک میں قید ہو تا جا رہا ہے ۔
دنیاوی سازو سامان سے لگاو اور دنیاوی وسائل سے رغبت ایسی چیز ہے جسے انسان معنویت ہی کے ذریعہ روک سکتا ہے ورنہ مال کا بھوکا کبھی سیر نہیں ہو سکتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْھُوْمَانِ لَا یَشْبَعَانِ طالب علم و طالب مال ‘‘
… یعنی دو بھوکے لوگ کبھی سیر نہیں ہوں گے: ایک علم کا طالب دوسرے مال کا طالب ، انہیں جتنا زیادہ دیا جائے گا ، ان کی بھوک اتنی ہی بڑھ جائے گی ۔
انسان کے وجود میں جاہ طلبی و ہوس اقتدار بھی اسی طرح ہے لی جاہ طلبی کے اعتبار سے انسان کا ظرف وجودی بے پایاں ہے یہ خواہش لازوال ہے ۔ ہر وہ شخص جو کوئی بھی سماجی عہدہ یا کوئی بھی اعلیٰ مقام و منصب حاصل لیتا ہے عہدے کے مل جانے کے بعد بھی اعلیٰ مقام کے حصول کا طالب رہتا ہے ۔ اور بنیادی طور پر جہاں بھی حس تملک کی بات ہو وہاں تمام ہو جانے و اختتام کی تو بات ہی نہیں ہے آج آپ اپنے اطراف کی دنیا میں دیکھ لیں کیا حال ہیں عہدے و منصب کے لالچ نے انسان کو کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ اسے عہدے کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آ رہا ہے ، انسانوں کو انسان نہیں عہدے نظر آتے ہیں یہ کتنی عجیب بات ہے لوگ انسانوں سے بات نہیں کرتے عہدوں سے بات کرتے ہیں ، اپنے گھر انسانوں کو نہیں عہدوں کو بلاتے ہیں ، دوسری طرف انسان کے وجود کے اندر پائی جانے والی ہوس کی کوئی حد نہیں سوائے معنویت کے سوائے اس شناخت کے جس کے حصول کے بعد انسان حقیقی بندہ بنتا ہے اور ہواو ہوس کو اپنے لئے جال سمجھتا ہے۔
انسان کے وجود میں کبھی کبھی ہوس اس طرح سر اٹھاتی ہے کہ وہ اپنے سامنے صرف اپنی ہوس کو دیکھتا ہے ہمارے سامنے دو چیزیں ہیں جنسی ہوس اور حس ملکیت۔ یہ وہی چیز ہے جو پرانے حرم سراوں کے مالکوں میں اور ہمارے زمانے کے اکثر امیر اور غیر امیر لوگوں میں بھی موجود ہے۔ اس قسم کی پیاس تنوعیت پسند اور مختلف ہوتی ہے ۔ انسان ایک سے سیر ہو کر دوسرے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ ایک ہی وقت میں جب اس کے پاس درجنوں لوگ ہیں، وہ درجنوں دوسرے لوگوں کا اسیر ہوتا ہے ، اور یہ وہ پیاس ہے جو بے لگام اور نام نہاد آزاد بیٹھکوں اور انجمنوں کے تناظر میں پیدا ہوتی ہےاور آزاد خیال بنا روک ٹوک والی معاشرت کی فضا کو ہموار کرنے کا سبب ہوتی ہے ۔ اس قسم کی پیاس کو ’’ہوس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ہوس سطحی ہوتی ہے اور انسانی قوتوں کو منتشر کرتی ہے اور تنوع اور بے حیائی کی طرف مائل ہونے والی ہرزہ صفت قوتوں کے پھیلنے کا سبب ہے ۔ یہ اس قسم کی پیاس ہے جسے ” ہوس” کہا جاتاہے جو کبھی مٹتی نہیں ہے اس قسم کی پیاس میں مبتلا شخص کبھی یہ نہیں کہتا کہ بہت ہو گیا، میں سیر ہو گیا ہوں یہ جہنم کی طرح ہے اس کے اندر جتنا بھی جھونک دیا جائے پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا ۔
بار بار مزید طلب کرتا ہے۔ خدا وند کریم قرآن میں فرماتا ہے:
ہم جہنم کو کہیں گے ، کیا تیرا پیٹ بھر گیا ؟ کیا تو وہ کہے گا کیا اور بھی کچھ ہے
يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزيد
ایسے حالات میں کثرت سے تسکین و ارضاء ممکن نہیں اور اگر کوئی اس راستے سے اپنی بھوک مٹائے تو ایسے ہی ہے کہ آگ کو لکڑی سے سیر کرے ایسا ہو نا ناممکن ہے
اس منزل پر ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت کی طرف پلٹے اپنے وجود کے تقاضوں کو محسوس کرے مقصد حیات کو پہچانے ، ہمارے ملک میں یہ جو روز مرہ اخبارات و رسائل و جرائد میں ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں جہاں بھیڑیوں کی طرح انسان معصوم بچیوں تک کو ہوس کا شکار بناتے نظر آتے ہیں اور مسلسل سخت قوانین کے نفاذ کے باوجود شرح جرم کم نہیں ہوتی اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ قوانین و دستور تب انسان کو جرم سے روک سکتے ہیں جب اسے اپنے وجود کا احساس ہو ااپنے سرمایے کا احساس ہو لیکن جب اسے انسان ہونے کا ہی احساس نہ ہو تو وہ جانور بن جاتا ہے ۔ دین کا کمال یہ ہے کہ انسان کو جانور بننے سے روکتا ہے خواہشوں کے مقابل انسان کی قوت ارادی کو مضبوط کرتا ہے انسان کو ایک با کمال و با شرف وجود کے طور پر پیش کرتا ہے جو اپنے وجود کو حد انسانیت سے کبھی گرا نہیں سکتا ، خواہشوں کے سمندر سے جو خود کو نکال کر باہر لاتا ہے اور غرق ہونے سے بچاتا ہے ۔ خواہشوں کو کنڑول کرنے اسے صحیح راہ دکھانے اور انسان کو قناعت پسندی کے ساتھ جینے کا جو درس ہمیں کربلا کے آفاقی تعلیمات کے ذریعہ ملتا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا ،لہذا آج ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے در سید الشہداء پر سر جھکائیں کہ یہ وہ در ہے جہاں انسان کادین و ایمان محفوظ رہتا ہے اور انسان اس در پر آکر حقیقت میں انسان بنتا ہے ۔ خواہشوں کے بپھرے سمندر کے سامنے ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو کشتی نجات میں سوار کر لیں وہ کشتی جو ہماری خواہشوں کو کنڑول کر کے ہمیں ساحل توحید سے ہمکنار کردے گی اور ہماری نجات یقینی ہو جائے گی ۔