داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں شامی خواتین اور بچوں کے قتل پر امریکی رازداری

خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر ایک امریکی اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ مارچ 2019 میں امریکہ نے شام کے ایک شہر پر فضائی حملے میں 60 سے زائد شہری خواتین اور بچوں کو ہلاک کر کے اس واقعے کو چھپا دیا تھا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق، جب کہ شام اور عراق میں اس دہشت گرد گروہ سے لڑنے کے بارے میں نام نہاد داعش مخالف اتحاد میں شامل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بار بار دعوے سب پر واضح ہو چکے ہیں، اب واشنگٹن کی رازداری کے حوالے سے ایک نئی رپورٹ سامنے آئی ہے جو شام میں اس کے جرائم کی نشاندہی کرتی ہے۔

نیویارک ٹائمز نے ہفتے کی رات رپورٹ دی ہے کہ امریکی فوج نے شام میں 2019 کے فضائی حملوں کو چھپایا تھا جس میں 64 خواتین اور بچے ہلاک ہوئے تھے اور یہ داعش کے خلاف مبینہ لڑائی کے دوران ممکنہ جنگی جرم تھا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت باغوز شہر کے قریب یکے بعد دیگرے دو فضائی حملوں کا حکم ایک امریکی خصوصی آپریشن یونٹ نے دیا تھا جسے شام میں زمینی کارروائیوں کا کام سونپا گیا تھا۔

اخبار نے لکھا ہے کہ شام میں اس ملک کی فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والی امریکی سینٹرل کمانڈ (دھشتگرد تنظیم سینٹکام) نے اس ہفتے پہلی بار حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ حملہ جائز تھا۔

سینٹکام دہشت گرد تنظیم نے ہفتے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں نیویارک ٹائمز کو دی گئی ایک رپورٹ کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 80 افراد مارے گئے جن میں 16 داعشی دھشتگرد اور چار عام شہری شامل تھے۔ تاہم، امریکی فوج نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا مرنے والے دیگر 60 افراد عام شہری تھے، کیونکہ خواتین اور بچے بھی دھشتگرد ہو سکتے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق ، امریکی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے “اپنے قانونی دفاع” کے لیے اور “مناسب” وقت پر تھے اور شہریوں کی غیر موجودگی کو یقینی بنانے کے بعد انجام پائے تھے۔

تاہم، نیویارک ٹائمز نے لکھا: پینٹاگون کے تفتیش کار نے 18 مارچ 2019 کے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر لیا ہے، لیکن رپورٹ نے آخر کار بم دھماکے کا ذکر کرنے سے انکار کر دیا اور بہر صورت یہ تحقیقات مکمل، آزادانہ طور پر انجام نہیں پائیں۔

اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی حملے میں شامی شہری خواتین اور بچوں کی ہلاکت سے متعلق اس کی رپورٹ خفیہ دستاویزات اور خفیہ رپورٹس کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں براہ راست ملوث اہلکاروں کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، امریکی فضائیہ کے ایک وکیل جو اس وقت آپریشن سینٹر میں تھے، کا خیال تھا کہ یہ حملے جنگی جرائم ہوسکتے ہیں اور بعد میں پینٹاگون اور سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو خبردار کیا گیا، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

امریکہ شامی حکومت کی اجازت کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے داعش نامی بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں اس ملک میں داخل ہوا اور اس نے ملک کے شمالی اور مشرقی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ دمشق اور اس کے اتحادیوں نے بارہا کہا ہے کہ ملک میں امریکی فوج کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے جلد از جلد شام سے انخلا کیا جانا چاہیے۔

اس عرصے کے دوران امریکی فوج نے کرد علیحدگی پسند گروپوں کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے انہیں دمشق کے خلاف محاذ آرائی اور شام کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے پر اکسایا جبکہ اسی دوران کردوں کی مدد سے مشرقی شام میں تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں پر کنٹرول حاصل کر کے شام سے تیل لوٹنا شروع کر دیا ہے۔