داوود کوریڈور”؛ صہیونی ریاست کی فرات تک رسائی اور جغرافیائی سیاسی غلبے کی کوشش”

صیہونی حکومت نے گزشتہ ایک ماہ میں شام کی زمین میں داخل ہو کر جولان اور مشرقی لبنان کے سامنے جبل الشیخ کی بلندیوں کے علاوہ جنوبی شام کے قنیطرہ اور درعا علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صیہونی حکومت کا منصوبہ ہے کہ ” داوود کوریڈور” کے ذریعے جنوبی شام سے شمال مشرقی شام تک رسائی حاصل کر کے کرد علاقوں تک پہنچ سکے اور دریائے فرات تک رسائی حاصل کرے، تاکہ اس راستے سے اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بڑھا سکے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی خبر رساں ٹیم کے مطابق، شام اور لبنان میں حالیہ تبدیلیاں صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک طویل المدتی منصوبوں کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہی ہیں، جو کہ مغربی ایشیا میں اس حکومت کی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔

صیہونی حکومت نے گزشتہ ایک ماہ میں شام کی زمین میں داخل ہو کر جولان اور مشرقی لبنان کے سامنے جبل الشیخ کی بلندیوں کے علاوہ جنوبی شام کے قنیطرہ اور درعا علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

اگرچہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مزاحمتی قوتوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اس علاقے پر قابض ہوا ہے، لیکن صیہونیوں کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اقدامات کو صرف مزاحمتی محاذ کے ساتھ جنگ کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔

صیہونیوں نے جنوبی شام میں اپنی حرکات کے دوران دریاؤں اور آبی وسائل پر کنٹرول کے لیے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس حوالے سے “گلوبل آئی” نے اشارہ دیا ہے کہ صیہونی حکومت نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جنوبی شام میں کم از کم چھ تالابوں اور جھیلوں پر قبضہ کر لیا ہے، اور اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو “اسرائیل شام کے 30 فیصد اور اردن کے 40 فیصد آبی وسائل پر قابض ہو جائے گا۔”

صیہونی حکومت ان کامیابیوں کی بدولت نہ صرف جنوبی شام کی زرخیز زمینوں پر قبضہ اور شمالی مقبوضہ فلسطین میں ایک بفر زون قائم کر سکتی ہے، بلکہ عمان اور دمشق پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک طاقتور ہتھیار بھی حاصل کر سکتی ہے تاکہ وہ ایسے ضمانتیں لے سکے کہ یہ دونوں ممالک تل ابیب کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکیں۔
تاہم، یہ کہانی کا مکمل حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل، جنوبی شام کے آبی وسائل کے علاوہ، ” داوود کوریڈور” کے ذریعے دریائے فرات تک پہنچنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ صیہونی اس بلند پروازانہ منصوبے میں، جنوبی شام کی سرحدوں کے ساتھ امریکی اڈوں کی مدد سے (عراق، شام اور اردن کی سرحدی مثلث المعروف تنف) شمال کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک محفوظ راستہ بنا کر دریائے فرات تک پہنچ سکیں۔
داوود کوریڈور، تلمودی تعلیمات کو یہودیوں کے لیے عملی بنانے کے علاوہ، صیہونی حکومت کو عراق کے آبی وسائل پر بھی قابض کر سکتا ہے۔ اس طرح کے منظرنامے کی تکمیل جغرافیائی سیاسی اعتبار سے صیہونیوں کو اپنے کرد اتحادیوں کی حمایت کے لیے مشرقی فرات اور شمالی عراق میں مزید جنگی تقسیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے لامحدود رسائی فراہم کرے گی۔


اس کے علاوہ، صیہونی حکومت شام کے تیل کے وسائل تک بھی رسائی حاصل کر سکتی ہے، جن میں سے 90 فیصد شمالی شام میں اور مشرقی فرات میں واقع ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ترکی کی ضرورت کے بغیر کردستان عراق کے اہم تیل وسائل تک زمینی رسائی حاصل کر لے۔
یہ مسئلہ ترکی کے میڈیا میں بھی زیر بحث آیا ہے، اور وہ بھی راہروی داوود کی تشکیل سے پریشان ہیں۔ ترک حکومت، جو کہ مسلح مخالفین کی حمایت سے بشار الاسد کی حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کر رہی تھی، اس جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے شمالی شام کے کردوں، المعروف قسد، سے سنجیدگی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اب حالیہ علاقائی تبدیلیوں، خاص طور پر شام میں، کے بعد ان لوگوں کے لیے واضح ہو گیا ہے جو مزاحمت کو محض سازشی نظریہ سمجھتے تھے کہ صیہونی حکومت کی جارحیت کبھی بھی مقبوضہ فلسطین کی جغرافیائی حدوں تک محدود نہیں رہے گی، اور وہ مغربی ایشیا کے علاقے پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔