شاتم رسول سلمان رشدی کا فتنہ؛

دشمن کے ساتھ نرمی برتنے کی عبرتیں/ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کا تاریخی فتویٰ

اس واقعے پر بر صغیر سمیت دنیا بھر میں احتجاج ہؤا اور 14 فروری سنہ 1989ع‍ کو فتویٰ جاری کرکے سلمان رشدی کو مرتد قرار دیا اور یوں اللہ کے سب سے بڑے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آنحضرت کی امت اور دین اسلام کے خلاف حملے کا مغربی کھیل ابتدائی مرحلے ہی میں درہم برہم ہوگیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سلمان رشدی ملعون کا قصہ توہین انبیاء – بالخصوص توہین رسالت مآب ختمی مرتبت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) – کا پہلا قصہ تو نہ تھا مگر بہت برجستہ اور نمایاں تھا، گویا کفر کے محلات میں شر و فساد کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے یہ منظرنامہ ایسے وقت میں تیار کیا تھا جب وہ اسلام کی بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کے آگے بھی عاجزی کے نقطے پر پہنچ گئے تھے اور بھاری اخراجات اور ناکامی کے امکان کی وجہ سے بھی سخت جنگ کی افادیت کم ہو چکی تھی چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے مغرب کے قائم کردہ عالمی نظام کے تحفظ کی غرض سے مستقبل کی ممکنہ سخت جنگوں میں مغرب کی کامیابی کو یقینی بنانے اور طویل مدت میں نرم جنگ کو سخت جنگ کے متبادل کے طور پر متعارف کرانے کے لئے انھوں نے نئے انداز سے – نرم جنگ کے ضمن میں – عالم اسلام کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا جس کا ایک مقصد اسلامی مقدسات کے تئیں مسلمانوں کی حساسیت کم کرنا بھی تھا؛ چنانچہ بڈھے لکڑ بھگے “برطانیہ” اور بڑے شیطان “امریکہ” نے، برطانیہ میں مقیم برصغیر کے ایک تارک وطن سلمان رشدی – جس کی زندگی کا پس منظر چنداں قابل ستائش نہ تھا – کو اسلام پر بڑی یلغار کا پہلا مرحلہ سونپ دیا اور اس نے بعض مسلم مکاتب کی کتبِ تاریخ و حدیثی کتب میں ایک غلط، بے بنیاد اور جعلی روایت [حدیث غرانیق] کے سہارے کتاب “آیاتِ شیطانی” لکھ ڈالی اور پینگوئن نامی پبلشنگ کمپنی نے اسے شائع کیا۔
اس واقعے پر بر صغیر سمیت دنیا بھر میں احتجاج ہؤا اور 14 فروری سنہ 1989ع‍ کو فتویٰ جاری کرکے سلمان رشدی کو مرتد قرار دیا اور یوں اللہ کے سب سے بڑے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آنحضرت کی امت اور دین اسلام کے خلاف حملے کا مغربی کھیل ابتدائی مرحلے ہی میں درہم برہم ہوگیا۔ یوں، ہر سال 14 فروری کو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کے ہاتھوں مغربی محاذ کے جنگی منصوبے کی ناکامی کی سالگرہ منائی جاتی ہے لیکن شاید عالم اسلام کی نوجوان نسل اس واقعے کی تفصیل، مقاصد اور امام کے جوابی حملے کے بارے میں زیادہ با خبر نہیں ہے چنانچہ اہل قلم – جو تحریر کو اپنا اسلامی مشن سمجھتے ہیں – کی کوشش ہوتی ہے کہ حال اور مستقبل کی نسلوں کو اس اہم واقعے سے آگاہ کریں۔
چنانچہ راقم الحروف اپنے پیش لفظ کے ساتھ ایرانی بلاگر محمد ایمانی کی ایک رپورٹ پیش کررہا ہے:
مشہور ایرانی بلاگر محمد ایمانی نے لکھا:
امام نے 18 جولائی 1988ع‍ کو سفارتکاروں اور ملکی حکام کی رائے اور عالم اسلام کے بعض سربراہوں کی اپیلوں پر، خیرسگالی کا ثبوت دیتے ہوئے آٹھ سالہ جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قرارداد 598 قبول کرکے جنگ بندی کا اعلان کیا؛ لیکن ان کے اس اقدام کو مغرب اور ان کی کٹھ پتلیوں نے غلط فہمی میں مبتلا ہوکر نہ صرف ایران کے اس اقدام کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ اپنے کرائے کے عراقی آمر اور مجاہدین خلق نامی دہشت گرد ٹولوں کو ایران پر دوبارہ حملوں کا گرین سنگل دے دیا؛ مغربی دشمن کا وہم یہ تھا کہ ایرانی مجاہدین جنگ سے تھک چکی ہے اور وہ نئے حملوں کا جواب نہیں دے سکیں گے، لیکن انہیں ایک بار منہ کی کھانا پڑی اور پورے ایران سے عظیم لام بندی ہوئی اور عراق کے ساتھ محاذ میں مجاہدین کی بھاری نفری جمع ہوئی۔ عراق کو ایک بار شکست ہوئی اور منافقین کی جنگی مشین بھی ہمیشہ کے لئے منہدم ہو کر رہ گئی۔
جنگ میں شکست ہوئی تو مغربی طاقتوں نے منحوس چہرے کا نیا جلوہ دکھا کر ملعون سلمان رشدی کو آگے بڑھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حرمت شکنی اور امت کو فکری طور پر نہتا کرنے کا مشن سونپا؛ اور اس کا تاریخی جواب امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) نے اپنے تاریخی اور تاریخ ساز فتویٰ کے ذریعے دے دیا۔
ان واقعات کے بعد، مورخہ 22 فروری 1989ع‍ کو امام نے “منشور روحانیت” (علماء کا منشور) کے عنوان سے اپنا تاریخی پیغام جاری کیا اور فرمایا:
“میں اس سے پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ مسلط کردہ جنگ سمیت ہمارے خلاف سامراجی قوتوں کی تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے کہ “ہم دنیا سے یہ نہ کہیں کہ اسلام معاشروں کے تمام مسائل کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے” اور ہمیں اپنے ہر اقدام اور مسئلے کے لئے ان سے اجازت نامہ لینا چاہئے۔ لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے؛ ہمیں حقیقتاً اس سمت میں آگر بڑھنا چاہئے کہ اس وحشی دنیا سے وابستگی کی تمام جڑیں اکھڑ جائیں، ان شاء اللہ۔
مغربی استکبار نے شاید تصور کیا ہے کہ اگر وہ ہمارے سامنے دولت مشترکہ (Common Wealth) اور “اقتصادی پابندیاں” جیسے الفاظ ہمارے سامنے لائیں گے تو ہم ڈر کر رک جائیں گے اور اللہ کے حکم کے نفاذ سے دستبردار ہوجائیں گے۔ بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ یہ بظاہر مہذب اور مفکر قومیں – جو اگر کوئی کرائے کا قلم کار ایک ارب انسانوں اور مسلمانوں کے جذبات کو اپنے زہر آلود قلم کے ڈنگ سے مجروح کرے اور کچھ لوگ اسی اثناء میں جام شہادت نوش کرتے ہیں، تو – اسے کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور یہ المیہ [ان کے ہاں] عین جمہوریت اور “تہذیب و تمدن” ہے لیکن جب حکم و عدل کے نفاذ کی بحث سامنے آتی ہے تو یہی قومیں شفقت اور انسان دوستی کے لئے نوحہ سرائی کرنے لگتی ہیں! ہم اسلام اور اسلامی فقاہت کے ساتھ غرب کی دشمنی کو ایسے ہی نکات سے سمجھ لیتے ہیں۔
کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ان حالات میں وسیع تعلقات و روابط قائم کرنے کے درپے ہوں؛ کیونکہ دشمن سوچ سکتے ہیں کہ ہم ان سے اتنے وابستہ ہو گئے ہیں اور ان میں دلچسپی لینے لگے ہیں [یہاں تک] کہ ہم [ان کی خواہشوں کی خاطر] اپنے مذہبی عقائد اور مقدسات کو خاموشی سے نظر انداز کر رہے ہیں۔
وہ جو اب بھی سوچتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں، کہ ہمیں اپنی سیاست، اصولوں اور سفارتکاری پر نظر ثانی کرلینا چاہئے اور ہم نے ناتجربہ کاری سے کام لیا اور ہمیں سابقہ غلطیاں دہرانے سے پرہیز کرنا چاہئے؛ اور سمجھتے ہیں کہ تند و تیز نعروں یا جنگ کے نعروں نے مغرب اور مشرق کو ہماری نسبت بدگمان کردیا ہے اور ہمارا ملک تنہا ہو گیا ہے اور اگر ہم حقیقت پسندی سے کام لیں تو وہ جواباً ہمارے ساتھ انسانی سلوک کریں گے اور ہماری ملت اور اسلام و مسلمین کے ساتھ دو طرفہ احترام کے قواعد پر عمل پیرا ہونگے؛ [لیکن] یہ ایک زندہ مثال ہے کہ خدا نے چاہا اور آیاتِ شیطانی نامی کتاب کی اشاعت کے بعد فرعونیت و استکبار اور بربریت نے اسلام کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کے سلسلے میں اپنا حقیقی [کریہ] چہرہ بے نقاب کردیا؛ تاکہ ہم سادہ اندیشی سے نکل آئیں اور ہر چیز کو اپنی غلطیوں اور ناتجربہ کاریوں کے کھاتے میں نہ ڈالیں اور سمجھ لیں کہ مسئلہ “ہماری غلطی” نہیں ہے؛ بلکہ سامراجی طاقتیں جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کی نابودی کی خواہاں ہیں؛ ورنہ سلمان رشدی کی ذات ان کے لئے اتنی اہمیت نہیں رکھتی کہ پوری صہیونیت اور استکبار اس کی پشت پر آ کھڑے ہوجائیں۔