“دیوانہ آدمی” غزہ کے لئے ٹرمپ کا نسخہ کیا کام آئے گا؟۔۔۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں غزہ کی پٹی کو خالی کرانے اور وہاں کے دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فارس پلس گروپ: یہ بیان کسی طور پر بھی حیران کن نہیں تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار، 25 جنوری 2025 کو مصر اور اردن سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے تیار رہیں۔ ٹرمپ کے مطابق، جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے غزہ ناقابلِ سکونت ہو چکا ہے، اس لیے وہاں کے رہائشیوں کو باہر منتقل کرنا ضروری ہے تاکہ علاقے کی تعمیرِ نو ممکن ہو سکے۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر اردن کے بادشاہ، عبداللہ دوم سے گفتگو کی ہے اور ان سے مزید فلسطینیوں کو پناہ دینے کا کہا ہے، جبکہ وہ جلد ہی یہی درخواست مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی کریں گے۔
ٹرمپ نے یہ گفتگو ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کی اور کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے، حالانکہ یہ خطہ مکمل طور پر انتشار کا شکار ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطینیوں کی یہ منتقلی عارضی ہوگی یا مستقل، تو ان کا جواب تھا: “یہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔”
اردن اور مصر کو غزہ کے فلسطینیوں کو قبول کرنا چاہیے
یہ منصوبہ، جسے ٹرمپ “غزہ کی صفائی” قرار دے رہے ہیں، محض ایک سادہ تجویز یا سرسری بیان نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جا سکے، بلکہ یہ درحقیقت ان کی حقیقی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مقصد صیہونی ریاست کے مفادات کی خدمت کرنا اور ان امریکی ارب پتی کاروباری شخصیات کی حمایت حاصل کرنا ہے جو اسرائیل نواز ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کو اسرائیل کی حمایت کی ضمانت کے بدلے میں حمایت فراہم کرتے ہیں۔
اس بار ٹرمپ نے سفارتی نعروں اور رسمی بیانات سے ہٹ کر کھل کر اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے اور واضح طور پر غزہ کی پٹی کو خالی کرانے کی بات کی ہے، جسے وہ تعمیر نو کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔
یہ متنازعہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب ٹرمپ نے بائیڈن کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا، جس کے تحت اسرائیل کو 2000 پاؤنڈ وزنی MK-84 بموں کی ترسیل معطل کر دی گئی تھی۔ یہ فیصلہ اسرائیلی فوج کے مئی میں غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملے کے جواب میں کیا گیا تھا، جہاں اس مہلک ہتھیار کا استعمال ہوا تھا۔
امریکی ویب سائٹ “اکسیوس” نے تین امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ بم اب بحری جہازوں کے ذریعے اسرائیل بھیجے جا رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں تل ابیب کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
انتہا پسند صہیونیستوں کو تحفے دینے کا سلسلہ جاری
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ٹرمپ، جو اپنے صہیونی وزیروں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں، نے اپنی اصل مشن کو بے نقاب کر دیا— وہ مشن جس کے لیے وہ اقتدار میں واپس آئے: “صہیونیت اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت”۔ اس حمایت کی فہرست میں مزید اضافے کے لیے انہوں نے وہی پالیسی اپنائی جو اپنی پہلی صدارتی مدت میں اسرائیل کے لیے اختیار کی تھی۔
ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی نئی بنیاد رکھی تھی، جسے “صدی کا معاہدہ” کہا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے مقبوضہ یروشلم (القدس) کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا۔ انہوں نے دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کی پیروی کریں۔
اب، اقتدار سنبھالنے کے صرف پانچ دن بعد، ٹرمپ نے اپنی وفاداری کا “تحفہ” اسرائیل کو پیش کر دیا۔ انہوں نے مغربی کنارے کے ان صہیونی آبادکاروں پر بائیڈن کی عائد کردہ پابندیاں ہٹا دیں، جنہیں فلسطینیوں کے قتل، لوٹ مار اور گھروں کو نذر آتش کرنے جیسے جرائم میں ملوث پایا گیا تھا۔
اسی کے ساتھ، ٹرمپ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے خلاف سخت جنگ کا اعلان کیا کیونکہ اس عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے برطرف وزیر جنگ یوآو گالانت کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے آغاز میں ہی عدالت کے ججوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تاکہ انہیں مستقبل میں ایسے کسی اقدام سے باز رکھا جا سکے۔
اس کے بعد، ٹرمپ نے اپنے “غزہ کی صفائی” کے منصوبے کا اعلان کیا، جو “صدی کے معاہدے” سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن نتائج کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا تصور بھی انتہا پسند صہیونیوں نے نہیں کیا تھا، لیکن اب وہ اسے حقیقت بنتا دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ کے بیان پر صہیونی وزراء کا ردعمل
اسرائیل کے مستعفی وزیر برائے قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے ٹرمپ کے اس منصوبے پر شکریہ ادا کیا اور زور دیا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا ان کا ابتدائی مطالبہ تھا۔ انہوں نے کہا: “جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا صدر خود یہ تجویز دے رہا ہے، تو اسرائیلی کابینہ کے پاس اسے نافذ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں ابھی سے فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا چاہیے۔”
اسرائیلی وزیر خزانہ بزلل اسموتریچ نے بھی اس منصوبے کو “ایک شاندار آئیڈیا” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ غزہ کے عوام کی مدد کا بہترین طریقہ ہے تاکہ وہ کہیں اور اپنی زندگی بہتر طور پر گزار سکیں۔ انہوں نے مزید کہا: “76 سال تک سخت حالات میں رہنے اور اسرائیل کی تباہی جیسے خواب دیکھنے کے بعد، اب فلسطینی ایک بہتر جگہ پر نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔ وہ جو سالوں سے ‘دہشت گردی’ کو مقدس سمجھتے رہے ہیں، اب مہذب زندگی گزارنے کا موقع پا سکتے ہیں۔”
انہوں نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو ماضی کے تمام فلسطینی راہ حلوں سے مختلف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے فلسطینی مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دو ریاستی حل اور فلسطین کی تقسیم جیسے پرانے صہیونی منصوبوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں غیر عملی قرار دیا اور اعلان کیا کہ وہ نیتن یاہو کے ساتھ قریبی تعاون کریں گے تاکہ اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
صہیونیوں کی ابدی خواہش
یہ پہلی بار ہے کہ ایک امریکی صدر نے براہ راست، کھلے عام اور واضح طور پر صہیونیوں کے اس ازلی خواب کی حمایت کی ہے، جو فلسطینیوں کو یا تو رضا کارانہ طور پر یا زبردستی اور جبر کے ذریعے بے دخل اور بے گھر کرنے سے متعلق ہے۔
یہی وہ منصوبہ ہے جسے نیتن یاہو اور ان کے ساتھی سالوں سے چاہتے تھے، خاص طور پر غزہ کی حالیہ جنگ کے آغاز سے۔ اس جنگ میں صہیونیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمام سرخ لکیریں عبور کیں اور ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جو کئی دہائیوں تک انسانیت کے لیے ناقابلِ تصور تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کی پٹی کو ختم کرنا، جو صہیونیوں کے دل میں ایک ناسور اور ان کی ریاست کے پہلو میں ایک خنجر بن چکا ہے، صہیونی منصوبے کا سب سے اہم مقصد رہا ہے۔
آج، غزہ وہ واحد رکاوٹ ہے جو فلسطینی مسئلے کے حتمی تصفیے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، خاص طور پر جب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس صہیونیوں کے لیے مکمل تابع داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
چونکہ تمام سابقہ منصوبے، جن کا مقصد غزہ کے عوام کو مزاحمت سے الگ کرنا تھا، ناکام ہو چکے ہیں، اس لیے اب غزہ کو خالی کرنے اور تعمیرِ نو کے بہانے فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ صہیونیوں کا حتمی ہدف صرف غزہ نہیں، بلکہ وہ مغربی کنارے پر بھی قبضے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت میں مغربی کنارے کو بھی ان کے حوالے کر دیں ۔اور وہ امید کرتے ہیں کہ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت میں یہ (مغربی کنارے) انہیں دے دیں گے، اور یہ بات یوں بھی قرین قیاس ہے کہ ٹرمپ مختلف مواقع پر اسرائیل کے چھوٹے ہونے اور فلسطینی اراضی لے کر اس کی توسیع کی ضرورت پر بات کر چکے ہیں۔
جو زبردستی لیا گیا، وہ سیاست سے واپس نہیں ملے گا
7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کے غرور کو بری طرح چکنا چور کر دیا اور اس کی دفاعی طاقت کے نظریے کو تباہ کر دیا۔ اس کے چند ہی گھنٹوں بعد، اسرائیلی فوج نے تین اہم اہداف کے ساتھ غزہ پر جنگ مسلط کر دی۔
اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے اہم ہدف یہ تھا کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے لیے پیدا ہونے والے خطرے کو ختم کیا جائے، اور اس مقصد کے تحت شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ایک بفر زون (حائل علاقہ) بنایا جائے تاکہ غزہ کے اطراف میں موجود صہیونی بستیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
تقریباً 480 دنوں کی جنگ کے دوران، اسرائیل نے ہر ممکن حربہ آزمایا تاکہ یہ مقصد حاصل کر سکے۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کیا، بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، 50,000 فلسطینیوں کو شہید کیا، 100,000 سے زیادہ کو زخمی کیا اور 2 ملین افراد کو بے گھر کر دیا— مگر اس کے باوجود وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔
اس تمام بربریت کے جواب میں فلسطینیوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ ان کے لیے خالی پیٹ اور ملبے کے نیچے مر جانا بھی غزہ چھوڑنے سے زیادہ بہتر تھا۔ جب بھی اسرائیلی فوج کسی علاقے کو “ویران اور ناقابلِ رہائش” قرار دے کر اسے خالی کروانے کا دعویٰ کرتی، تو وہی علاقہ چند دنوں میں فلسطینیوں کے جوش و جذبے سے پھر سے آباد ہوتا۔ وہ ملبے کے نیچے سے نکل کر ایک بار پھر وہاں زندگی بسانے کے لیے واپس آتے، چاہے اس کی قیمت ان کی جان ہی کے جانے کے برابر کیوں نہ ہو۔
اس کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ آیا، جس نے نیتن یاہو کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ صرف چند گھنٹے ہی کافی تھے کہ 480 دنوں کے اسرائیلی پروپیگنڈے کا پردہ فاش ہو گیا۔ ہزاروں فلسطینی مسلح جنگجوؤں کا فلسطینی عوام کی حمایت کے ساتھ غزہ سے نکلنا یہ واضح کر رہا تھا کہ شکست کس کی ہوئی ہے— اور جنکی ہوئی وہ فلسطینی تو ہرگز نہیں تھے۔
کیا ٹرمپ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں گے؟
اس وقت جب اسرائیلی حکومت اور عوام، چاہے وہ مخالف ہوں یا حامی، اور حتیٰ کہ اسرائیل کے اتحادی بھی اس بات پر قائل ہو چکے تھے کہ غزہ کی جنگ کے اہداف کو حاصل کرنا ناممکن ہے، اور فلسطینیوں کو غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکالنے اور بے گھر کرنے کا خواب بھی ناکامی سے دوچار ہو چکا تھا، ٹرمپ انتخابات میں کامیابی کے بعد “مسیحا” کے طور پر میدان میں آتے ہیں تاکہ شاید وہ صہیونیوں کے خوابوں کو سیاست اور مذاکرات کے ذریعے حقیقت میں بدل سکیں، حالانکہ یہ مشہور کہاوت کہ “جو چیز طاقت سے حاصل نہ ہو سکے، وہ بات چیت سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی”
غزہ کی جنگ کے آغاز سے ہی مصر اور اردن کا موقف فلسطینیوں کو منتقل کرنے کے بارے میں واضح تھا۔ دونوں ممالک نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی کبھی بھی اس تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ جنگ کے دوران، مصر اور اردن نے فلسطینیوں کی آمد کو روکنے کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دیں اور سیکیورٹی اقدامات کو مزید سخت کیا۔ اردن نے تو فلسطینیوں کے ساتھ اپنے محدود تعلقات بھی منقطع کر دیے تھے۔ اب ٹرمپ دونوں ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غزہ کے دو ملین فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کریں، حالانکہ انہوں نے ان کے واضح موقف کو نظرانداز کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نتن یاہو اور ٹرمپ کو قاہرہ اور امان کے موقف کی کوئی پرواہ نہیں ہے، لہٰذا مصر اور اردن کے پاس اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بصورت دیگر، تل ابیب اور واشنگٹن کے پاس ایسے دباؤ کے ذرائع ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ دونوں ممالک کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ کہ آیا فلسطینی 480 دن کی سخت مزاحمت کے باوجود ایسے منصوبے کو قبول کریں گے، اس پر بہت شک و شبہ ہے، کم از کم اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تقریب کے دوران فلسطینیوں کی مزاحمت کے حامیوں کے مناظر نے یہی بات ظاہر کی ہے۔ فی الحال ٹرمپ کی طرف سے اس منصوبے کے بارے میں سنجیدگی سے بات کرنا بہت جلدی ہوگا، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کی تکمیل کئی چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا کرے گی، اور یہ بھی کہ توقع نہیں کی جاتی کہ یہ منصوبہ عالمی سطح پر قبول کیا جائے گا، خاص طور پر کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ کو نئی بحرانوں سے دوچار کر سکتا ہے، جو کہ اس وقت ٹرمپ کی خواہش نہیں ہے۔
مزاحمتی گروپوں کے حوالے سے، تمام گروپوں نے اس منصوبے کو پختہ طور پر رد کیا ہے اور مشترکہ بیانیے کے ذریعے اس پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، اور صہیونی و امریکی فریق کو خبردار کیا ہے۔ 1948 میں فلسطینیوں کی نکبہ کے بعد سے مسئلہ فلسطین مختلف منصوبوں کے تحت فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا سامنا کرتا رہا ہے، اور اگر ماضی میں کچھ معاملات میں ایسے منصوبے کامیاب ہوئے، تو اب ان کے کامیاب ہونے کا امکان کم ہے۔ یقیناً، آج کا فلسطین 77 سال پہلے کا فلسطین نہیں ہے، اور 16 ماہ کی جنگ اس بات کی دلیل ہے۔
غزہ کے شمال میں اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کے لیے ہزاروں فلسطینیوں کا اجتماع، باوجود وسیع تباہی اور بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی کے، اور اس بات کی وارننگ کہ وہاں خطرات ابھی بھی موجود ہیں، یہ سوال اٹھاتا ہے کہ “کیا فلسطینی غزہ سے نکلنے اور دوبارہ بے گھر ہونے پر راضی ہو جائیں گے؟”
تبصرہ کریں