رجب طیب اردگان کے متضاد رویے

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی صدر سے رجب طیب اردگان کی ملاقات کا ترکی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ ملاقات محض سیاسی ڈرامہ تھا۔ اگرچہ رجب طیب اردگان نے اس ملاقات میں فلسطینیوں اور مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور دوبارہ دو ریاستی راہ حل پر زور دیا تھا لیکن سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حتی اسرائیلی حکمرانوں کی جانب سے دو ریاستی راہ حل قبول کر لئے جانے کی صورت میں بھی فلسطینی اسے بہترین راہ حل نہیں سمجھتے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ترکی میں جب انصاف اور ترقی پارٹی تشکیل پائی تو اسے ملکی اور علاقائی سطح پر نیا باب قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں انقرہ کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی رونما ہوئی۔ ترقی و انصاف پارٹی کی بنیاد بعض ایسے اصولوں پر استوار تھی جو ترکی قوم اور رائے عامہ کیلئے قابل قبول تھے اور تقریباً سب کی نظر میں مقبول واقع ہوئے تھے۔ اس پارٹی نے اپنی سرگرمیوں کی بنیاد ان اصولوں کو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یوں ترک عوام کی اکثریت ترقی و انصاف پارٹی پر اعتماد قائم کر چکی تھی۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں ترقی و انصاف پارٹی کی محبوبیت معنی خیز انداز میں کم ہوتی چلی گئی اور آج اس حد تک کم ہو چکی ہے جس کی مثال گذشتہ 18 برس میں نہیں ملتی۔

البتہ ترقی و انصاف پارٹی کے سیاسی رہنماوں اور پالیسی میکرز نے ہر گز عوام میں کم ہوتی ہوئی محبوبیت کے بارے میں کوئی مناسب وضاحت پیش نہیں کی۔ ہو سکتا ہے وہ اس کی حقیقی وجہ جاننا ہی نہیں چاہتے جو ان کے غلط رویوں اور خارجہ پالیسی میں مسلسل یو ٹرن لینے پر مشتمل ہے۔ انہی رویوں اور اقدامات کے باعث پارٹی کے اندر اختلافات رونما ہوئے اور پارٹی کے بعض مرکزی رہنماوں نے سیاست کو خیرباد کہہ دینے کو ترجیح دی۔ رجب طیب اردگان اور ان کی پارٹی کی بنیادی خصوصیت بہت زیادہ یو ٹرن لینا، غیر سنجیدہ اور متزلزل رویے اختیار کرنا اور بیرونی سیاسی ایشوز کو ملک کی اندرونی سیاست کیلئے استعمال کرنا ہے۔ وہ علاقائی اور عالمی سطح کے مسائل کو اپنی انتخابی سیاست اور پارٹی مفادات کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں۔

ان میں سے ایک اہم ایشو مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور عالمی سطح پر فلسطین کے حامی مسلمانوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اس ایشو سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے مخالفین کی توجہ کیلئے بھی مسئلہ فلسطین کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر جب وہ ڈیوس میں منعقدہ اقتصادی اجلاس میں اس وقت کے اسرائیلی صدر شیمون پرز سے تلخ کلامی کے بعد واک آوٹ کر کے چلے گئے تو انہوں نے خود کو اسلامی دنیا کا ہیرو بنا کر ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح جب غزہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے اس کی جانب مرمرہ کشتی روانہ کی گئی تھی تو ترکی میں بعض فلسطینی گروہوں نے ان کی یہی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔

حقیقت یہ ہے کہ انقرہ نے شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کو مغرب سے سیاسی اور اقتصادی مراعات حاصل کرنے کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ترکی خود کو مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کا حامی ظاہر کر کے مغربی حکمرانوں پر دباو ڈالتا آیا ہے۔ شاید فلسطین کے بارے میں رجب طیب اردگان کی ابتدائی غلطیوں کی سیاسی توجیہات پیش کرنا ممکن ہو لیکن مختلف مواقع پر ان کی جانب سے ان غلطیوں پر اصرار سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں ترکی کی پالیسیاں زیادہ تر پارٹی مفادات کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ علاقائی سطح پر جاری سیاسی امور میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش نیز شام، لیبیا اور دیگر ممالک میں اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ رجب طیب اردگان کیلئے خارجہ پالیسی میں اصول اور حکمت عملی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

رجب طیب اردگان شام سے متعلق اپنی غلط پالیسیوں اور عراق میں مداخلت کا تاوان ابھی تک ادا کر رہے ہیں۔ ترکی کی موجودہ اقتصادی صورتحال بھی اسی دوغلے پن اور سیاست میں کسی اصول کا پابند نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ لہذا ترکی کی کرنسی لیر کی قیمت گرتی جا رہی ہے اور ترک عوام کی معیشت روز بروز سخت ہوتی جا رہی ہے۔ ہر روز انصاف و ترقی پارٹی کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن رجب طیب اردگان بدستور اپنی پارٹی کی کامیابی کا راز ملک سے باہر تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرتزوگ سے ان کی ملاقات بھی اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی رجب طیب اردگان کی اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی صدر سے رجب طیب اردگان کی ملاقات کا ترکی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ ملاقات محض سیاسی ڈرامہ تھا۔ اگرچہ رجب طیب اردگان نے اس ملاقات میں فلسطینیوں اور مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور دوبارہ دو ریاستی راہ حل پر زور دیا تھا لیکن سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حتی اسرائیلی حکمرانوں کی جانب سے دو ریاستی راہ حل قبول کر لئے جانے کی صورت میں بھی فلسطینی اسے بہترین راہ حل نہیں سمجھتے۔ ترک حکمران سیاسی مجبوریوں کے باعث غاصب صہیونی حکمرانوں سے قربتیں بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں اس کا کوئی فائدہ نصیب نہیں ہو گا۔