رفح میں صہیونی فوج کی تازہ درندگی ، امداد کے متلاشی نہتے فلسطینیوں پر بمباری، درجنوں شہید اور زخمی

قابض اسرائیل نے آج اتوار کے روز غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ایک اور لرزہ خیز خونریزی کو جنم دے دیا، جب امداد کے متلاشی نہتے شہریوں پر گولیاں اور گولے برسا دیے گئے۔ یہ المناک واقعہ امریکی سرپرستی میں قائم امدادی مرکز کے قریب پیش آیا، جہاں سینکڑوں فلسطینی روٹی کے چند نوالوں کی امید لیے جمع ہوئے تھے۔

فاران: قابض اسرائیل نے آج اتوار کے روز غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ایک اور لرزہ خیز خونریزی کو جنم دے دیا، جب امداد کے متلاشی نہتے شہریوں پر گولیاں اور گولے برسا دیے گئے۔ یہ المناک واقعہ امریکی سرپرستی میں قائم امدادی مرکز کے قریب پیش آیا، جہاں سینکڑوں فلسطینی روٹی کے چند نوالوں کی امید لیے جمع ہوئے تھے۔

نامہ نگار کے مطابق فجر کی اولین ساعتوں میں ہزاروں فلسطینی شہری رفح کے مغرب میں واقع تل السلطان کے علاقے میں ایک امدادی مقام پر پہنچے تھے، جہاں امریکہ اور قابض اسرائیل کی نگرانی میں مبینہ طور پر امداد تقسیم کی جا رہی تھی۔ ابھی لوگ قطاروں میں ہی کھڑے تھے کہ صہیونی ڈرونز نے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے فوراً بعد اسرائیلی توپ خانے نے علاقے کو گولہ باری سے لرزا دیا، جس سے زمین خون میں نہا گئی۔

حکومتی میڈیا دفتر نے اس بربریت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں 26 افراد شہید اور 115 سے زائد زخمی ہوئے، لیکن چند گھنٹوں میں شہادتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر گئی، جب کہ زخمیوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی۔

دوسری جانب وسطی غزہ کے النصیرات علاقے میں واقع “ہسپتالِ عودہ” نے اطلاع دی ہے کہ وہاں ایک شہید اور 26 زخمیوں کو لایا گیا، جن میں تین بچے، ایک نوجوان لڑکی اور تین خواتین شامل ہیں۔ یہ سب افراد اس وقت زخمی ہوئے جب اسرائیلی ڈرونز نے امداد لینے والے شہریوں پر گولیاں برسائیں۔

حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ قابض اسرائیل جان بوجھ کر امدادی مراکز کو اجتماعی قتل کے مراکز میں تبدیل کر رہا ہے۔ غزہ کے بےبس، بھوکے اور پیاسے شہریوں کو پہلے تو مہینوں سے بھوک کے شکنجے میں جکڑا گیا، اور اب جب وہ زندگی بچانے کے لیے چند ریزے لینے آتے ہیں تو ان پر بارود برسایا جاتا ہے۔ صرف ایک ہفتے میں ایسے مقامات پر شہداء کی تعداد 39 اور زخمیوں کی تعداد 220 سے زائد ہو چکی ہے۔

قابض اسرائیل اور اس کے امریکی آقا اس انسانیت سوز جرم کے مکمل ذمہ دار ہیں، جو “انسانی امداد” کی آڑ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلا رہے ہیں۔ امداد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، فاقہ زدہ شہریوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے اور انہیں جان کا سودا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، تمام سرحدی راستے بغیر کسی شرط کے کھولے جائیں اور ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے جو ان ہولناک جرائم کو دستاویزی شکل دے۔

حکومتی میڈیا دفتر نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے امدادی راستوں کو بند کر کے 24 لاکھ فلسطینیوں کو دانستہ طور پر قحط کا شکار بنایا ہے۔ تین ماہ سے جاری اس بندش نے غزہ کو ایک قید خانہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں نہ دوا پہنچتی ہے، نہ خوراک۔

اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں بنائی گئی تنظیم “غزہ فاؤنڈیشن فار ہیومینٹیرین ریلیف” کے ذریعے 27 مئی سے امداد کی تقسیم کا ایک نیا مگر دھوکہ دہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی منظوری سے محروم ہے۔ امدادی مقامات کو جان بوجھ کر غزہ کے ان علاقوں میں رکھا گیا ہے جہاں شہریوں کی بھاری تعداد موجود ہے، اور جہاں گولیوں کا برسنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ امداد نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس کے حصول پر بھی موت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے امریکہ کی مکمل پشت پناہی میں جو قیامت برپا کی ہے، اس میں اب تک 1 لاکھ 78 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ 11 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں فلسطینی اپنے ہی وطن میں دربدر ہو چکے ہیں۔

یہ سب کچھ صرف اور صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی آواز کو دبایا جا سکے، ان کی زمین پر قبضہ مضبوط کیا جا سکے، اور ایک پورے قوم کو تاریخ کے اندھیرے میں دفن کیا جا سکے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مظلوموں کے لہو کی صدا رائیگاں نہیں جاتی۔