روایات کی روشنی میں مفھوم عزت

جس مفہوم کو روایات میں بیان کیا جا رہا ہے اسکا مکمل مصداق امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے چنانچہ امام حسین ع نے دشمن سے ایک شب کی مہلت مانگ کر بتایا کہ زندگی میں اگر کسی چیز کے لئے حسین کومہلت درکار ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

جس طرح قرآن کی بعض آیتیں بعض دیگر آیتوں کی تفسیر کرتی ہیں ویسے ہی روایات بھی ہیں قرآن کریم نے عزت کو اللہ کی ذات سے مخصوص بیان کیا ہے تو روایت میں اسکی تشریح یوں کی گئی ہے چنانچہ امیر الومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے یں : کل عزیزٍ بغیرہٖ ذلیل ؂’’ہرعزیز خداوند متعال کے علاوہ ذلیل ہے ۔
اس حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ جو خدا کے ساتھ ہے وہی حقیقی عزت کا مالک ہے لیکن اگرخداوند متعال اس کے ساتھ نہیں ہے اور لوگوں کے درمیان اسے عزت دار کہا جاتا ہے تو یہی عزت اس کے لئے ذلت ہے جیسا کہ ایک اور مقام پرامام علیؑ فرماتے ہیں: العزیز بغیراللہِ ذلیل’’ اللہ کے علاوہ عزیز اصل میں ذلیل ہے ۔عزت کی حقیقت بندگی پروردگار میں نہاں ہے انسان جتنا بندہ پروردگار ہوگا جتنا منزل اطاعت میں سر بلند ہوگا اتنا ہی اس کی شخصیت کا وقار ہوگا اتنا ہی آبرو مند ہوگا ‘‘اسی بنیاد پر امام حضرت علی ؑ اپنی مناجات میں فرماتے ہیں: الٰھی کفٰی لٖی عزاً ان اکون لک عبداً’’خدایا! میری عزت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں۔ ‘
روایات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں عوامل عزت:
۱۔ اطاعت و بندگی پروردگار :
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بہ نقلے امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والی حدیث میں اطاعت و بندگی پروردگار کو حصول عزت کا سبب قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : من اراد عزاً بلاعشیرۃ وغنی بلامالٍ وھیبۃ بلاسلطان فلینقل من ذل معصیۃ اللہ الی عز طاعتہٖ جوکوئی بھی ایسی عزت کا ارادہ کرے جو بغیر قبیلہ و خاندان کے حاصل ہو مال کے نہ ہوتے ہوئے بھی بے نیاز رہے اوربغیرسلطنت کے ھیبت حاصل کر لے تو وہ خداوندمتعال کی نافرمانی کی ذلت سے نکل کراُس کی اطاعت کی عزت میں آجائے چونکہ فقط اطاعت میں ہی عزت ہے۔ بہت ہی واضح اور روشن انداز میں جہاں حدیث یہ بیان کر رہی ہے کہ عزت طاعت الہی و بندگی میں ہے وہیں لوگ عزت کو این و آن کے یہاں سر جھکانے میں تلاش کرتے ہیں جبکہ در خدا کے علاوہ عزت کہیں نصیب نہیں ہونے والی نہیں اور اس حقیقت کو بھی حدیث نے یوں بیان کیا ہے : انی وضعت العز فی قیام اللیل والناس یطلبونها فی ابواب السلاطین فلم یجدوه ابدا; میں نے عزت کو رات یاد خدا میں قیام کرنے میں قرار دیا ہے جبکہ لوگ سلاطین کے دروازوں پر عزت ڈھونڈ رہے ہیں اور ہرگز انہیں یہ عزت کبھی ملنے والی نہیں ہے اسی لئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں جب طالب عزت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اذا طلبت العز فاطلبه بالطاعة ، جب بھی عزت کی تلاش ہو تو اسے طاعت الہی میں ڈھونڈو ۔
جس مفہوم کو روایات میں بیان کیا جا رہا ہے اسکا مکمل مصداق امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے چنانچہ امام حسین ع نے دشمن سے ایک شب کی مہلت مانگ کر بتایا کہ زندگی میں اگر کسی چیز کے لئے حسین کومہلت درکار ہے گرچہ وہ ایک دن ہی کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ طاعت رب ہے ، آپ نے جہاں ایک شب کی مہلت یہ کہہ کر لی :’’ لعلنا نصلی لربنا الیلة وندعوه ونستغفره، فهو یعلم انی کنت احب الصلاة له و تلاوة کتابه وکثرة الدعاء والاستغفار;‘‘ ، شاید کہ ہم اس شب میں اپنے رب کی نماز پڑھ سکیں ، اسے پکار سکیں ، اسکے حضور استغفار کر سلیں ، بیشک وہ جانتا ہے کہ میں نماز کو محبوب رکھتا ہوں ، تلاوت قرآن اور کثرت دعاء کو پسند کرتا ہوں ‘‘
وہیں میدان کارزار میں برستے تیروں کے سایے میں اول وقت نماز پڑھ کے بتایا کہ جو طاعت الہی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے وہ اتنا شکست نا پذٰیر ہو جاتاہے کہ تیروں کے سایہ میں بھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا اور دشمن اسے شہید تو کر دیتا ہے لیکن ہرانے میں ناکام رہتا ہے ۔ حد تو یہ ہے حسین علیہ السلام اس وقت بھی بندگی پروردگار سے غافل نہ رہے جب نشیب میں جسم اطہر تیروں سے چھلنی تھا زخموں پر زخم لگ رہے تھے اور نشیب سے ایک ہی آواز آ رہی تھی ’’ لا اله سواک یا غیاث المستغیثین ما لی رب سواک ولا معبود غیرک، صبرا علی حکمک ;
’’ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ائے فریاد کرنے والوں کی فریاد سننے والے ، تیرے علاوہ میرا کوئی رب نہیں ہے ، اور نہ تیرے علاوہ کوئی معبود ہے ، میں تیرے فیصلہ پر صابر وراضی ہوں ‘‘۔ امام حسین علیہ السلا م کا کردار اور آپ کے فرامین و ارشادات میں نمایاں طور پر آپکے عزتمندانہ طرز عمل کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ آپ کے اقوال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کے پیش نظر آپ عزت کو ذات خدا میں منحصر سمجھتے ہوئے اس با ت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ جسے بھی عزت چاہیے ہے اس کے لئیے ضروری ہے کہ کہ وہ خدا کی طرف رجوع کرے ۔
چنانچہ آپ خدا کے حضور مناجات کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :(یامن خصّ نفسہ بالسمووالرفعۃ واولیاۂُ بعزہ یعستزون)’’اے وہ ذلت جس کانفس بلندی اوررفعت کے ساتھ مخصوص ہے اوراس کے اولیاء اس کی عزت سے تمسک کی وجہ سے عزت پاتے ہیں۔‘‘ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : یا من دعوتہ ذلیلا فاعزنی ائے وہ کہ جسے میں ذلت کی حالت میں پکارا تو اس نے مجھے عزیز کر دیا انت الذی اعززت پروردگارا یہ تیری ہی ذات ہے جس نے مجھے عزت بخشی ۔آپکی اس گفتگو کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آپ اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کسی اور سرچشمہ سے عزت کی خواہش و آرزو بے سود و بے وجہ ہے کیونکہ مبدا و ماخذ عزت ذات پروردگار ہے ۔
اب جو لوگ مال و زر کو عزت کا وسیلہ سمجھتے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مال و دولت کے بل پر حاصل ہونے والی عزت اول تو عزت نہیں اور اگر وقتی طور پر مان بھی لیا جائے تو یہ وہ عزت ہے جو فانی و وقتی ہے اور مال و ثروت کے جاتے ہی یہ بھی چلی جائے گی
آپ سے منسوب یہ شعر اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے جہاں آپ فرماتے ہیں :
ایعتز الفتی بالمال زھوا
وما فیھا بفوت عن اعتزاز کیا ایک جوان مال و منال پر فخر کرتے ہوئے عزت کا طالب ہو سکتا ہے جبکہ مال کے ختم ہونے کے ساتھ اس کی عزت بھی ختم ہو جانے والی ہے آپکے مطابق دنیا اور جو کچھ اس کی رنگینیاں ہیں ان کی اسی بنیاد پر کوئی اہمیت نہیں کہ سب فانی و ختم ہو جانے والی ہیں
ھل الدنیا و ما فیھا جمیعا
سوی ظل یزول مع النھار
کیا دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ ایک سایہ کی طرح نہیں ہے جو دن کے ڈھلتے ہیں ختم ہو جانے والا ہے
دنیا اور اس کی حقیقت کو سمجھنے والا ہی یہ کہہ سکتا ہے
وما ان طبنا جبن
ہمارا شیوہ خوف کھانا نہیں ہے
بلکہ حیات عزت و ذلت کے مفہوم کو حیات و موت سے عبارت قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل عزت کے ساتھ موت ذلت کے ساتھ جینے سے بہتر ہے
اور اپنے اس بیان کی تشریح ایک دوسری جگہ یوں فرماتےہیں :
انی لا اری الموت الا سعادہ
والحیاۃ مع الظالمین الا برما

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری