سابق صہیونی اٹارنی جنرل: اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے

- صہیونی ریاست نے کئی ملین فلسطینی باشندوں کو - ان کے بنیادی حقوق نیز ان کے شہری حقوق سے - محروم کر رکھا ہے اور یہ وہی آپارتھائیڈ نظام اور نسلی امتیاز پر مبنی نظام حکومت ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غاصب صہیونی ریاست کے سابق اٹارنی جنرل مائیکل بن یائیر (Michael Ben-Yair) نے تنظیمِ عفوِ بین الاقوامی یا ایمنسٹی انٹرنیشنل (Amnesty International) کی حالیہ رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ غاصب یہودی ریاست “اسرائیل” ایک نسل پرست ریاست ہے۔
بن یائیر نے آئرلینڈ کے اخبار دی-جرنل (thejournal) میں چھپے ہوئے مضمون میں لکھا: صہیونی ریاست “اسرائیل” کی بنیاد نسلی عصبیت (apartheid) پر رکھی گئی ہے۔
بن یائیر جو قبل ازیں غاصب صہیونی ریاست کے اٹارنی جنرل اور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہے ہیں، کہتے ہیں: بدقسمتی سے، میرے پاس یہ اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اسرائیلی ریاست ایک نسل پرست (آپارتھائیڈ) ریاست ہے۔
بن یائیر کے مضمون کے اہم نکات:
– میں گذشتہ ایک سال کے دوران ایسی بات چیت اور مذاکرات میں شرکت کرتا رہا ہوں جن میں زیر بحث موضوع یہ تھا کہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں قائم اسرائیلی ریاست بین الاقوامی قوانین کی رو سے آپارتھائیڈ ریاستوں کے زمرے میں آتی ہے اور میں بھی سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل کے طور پر اعتراف کرتا ہوں کہ مقبوضہ سرزمینوں میں اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں وسیع مظالم اور المناک تجاوزات روا رکھے جا رہے ہیں۔
– میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ “اسرائیل” میں اہم قانونی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے گذارا ہے اور صہیونی ریاست کا مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ – میرے اٹارنی جنرل شپ کے دوران اور اس کے بعد کا ایک بڑا گھمبیر مسئلہ رہا ہے، اور آج میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ مقبوضہ علاقوں پر اس ریاست کا تسلط بہت بڑا ظلم ہے جسے جلد از جلد ختم ہونا چاہئے اور اس غلطی کو درست کرنا چاہئے۔
– بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اسرائیل آج ایک آپارتھائیڈ اور نسل پرست ریاست ہے۔
– صہیونی ریاست نے سنہ 1967ع‍ سے، فلسطین پر اپنے قبضے کا جواز فراہم کرنے کے لئے، دعوی کیا ہے کہ یہ قبضہ وقتی اور ایک عبوری دور کے لئے ہے، اس وقت تک کہ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعے کے حل کے لئے کوئی راستہ تلاش کیا جائے، لیکن اس کے باوجود اس علاقے پر قبضے کے وقت سے اب تک پانچ دہائیاں گذر چکی ہیں اور صہیونی ریاست قبضے کے خاتمے کے مسئلے کو لائق توجہ ہی نہیں سمجھتی۔
– واحد نتیجہ جو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہے کہ اسرائیلی قبضہ ایک دائمی مسئلہ ہے اور یہ کہ ایک ریاست قائم کی گئی ہے جس میں دو قومیں (فلسطینی اور یہودی) غیر مساوی حقوق کے ساتھ جی رہی ہیں۔
– صہیونی ریاست نے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے چھ لاکھ پچاس ہزار یہودیوں کو مغربی پٹی اور القدس میں واقع ناجائز یہودی قصبوں اور نو آبادیوں میں بسا رکھا ہے؛ اور فلسطینی دیہی علاقوں کے پہلو بہ پہلو نو آبادیاں تعمیر کی ہیں اور یہی مسئلہ فلسطینی دیہاتوں، قصبوں اور کچھ شہروں کے درہم برہم ہونے اور فلسطینی آبادیوں کے درمیان فاصلوں کا سبب بنا ہؤا ہے اور یہ سب اس لئے ہے کہ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے تمام امکانات اور احتمالات مٹ کر رہ جائیں۔
– القدس میں فلسطینی شہریوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور صہیونی ریاست اس شہر کے یہودیانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
– ہمارا اعتراف ہے کہ صہیونی ریاست کی کوئی بھی حکومت – منجملہ موجودہ اتحادی حکومت – خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گی۔
– میں صہیونی ریاست کے غیر مناسب اور ناجائز اقدامات، جارحیتوں اور تجاوزات پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور اس ریاست کے کے “جمہوری حکومت ہونے” کے دعوے کی پر زور مذمت کرتا ہوں۔
– صہیونی ریاست نے کئی ملین فلسطینی باشندوں کو – ان کے بنیادی حقوق نیز ان کے شہری حقوق سے – محروم کر رکھا ہے اور یہ وہی آپارتھائیڈ نظام اور نسلی امتیاز پر مبنی نظام حکومت ہے۔
– موجودہ صورت حال کا جاری رہنا اخلاقی لحاظ سے غلط ہے اور ضروری اقدامات اٹھانے اور فلسیطین کے خلاف صہیونی ریاست کے نسلی امتیاز پر مبنی رویوں پر اس ریاست کی بازخواست کے حوالے سے عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی قابل قبول نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔