سانحہ پشاور، حکمران اور مقتدر حلقے ذمہ دار

دوغلی پالیسی کا نتیجہ تو ایسے ہی بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی مساجد کی صفیں اور مدارس و مزار و دربار ہی ہونگے۔ خدا را اس ملک و ملت کے ساتھ اب یہ ظلم بند ہونا چاہیئے کہ قاتل نامعلوم ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی، دہشت گردی کے پیچھے افغانستان اور را ملوث ہیں۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، افغان طالبان اور تحریک طالبان الگ الگ ہیں، یہ دھوکہ دہی، یہ فریب اب ختم ہونا چاہیئے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ایک بار پھر سرزمین پشاور پر خون کی ہولی کھیلتے ہوئے بے گناہ نمازیوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے گئے۔ آج نماز جمعہ کی جماعت میں خدا کے حضور سر بسجود پیشانیوں کو ان کے اپنے ہی خون میں نہلا دیا گیا۔ ان کا قصور کیا تھا، یہ اس ملک کے محب وطن شہری تھے، یہ پرامن اور نہتے تھے، یہ اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل پیرا تھے، یہ خدا کے حضور اپنی عاجزی کا اظہار کرنے آئے تھے۔ یہ جائے امن یعنی خدا کے گھر مسجد میں آئے تھے، مسجدوں کو ان کے نمازیوں کے خون سے رنگین کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے، جسے خوارج نے شروع کیا تھا، مگر پاکستان میں اس کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوئی، جب نوے کی دہائی کے شروع میں بعض طاقتور حلقوں میں موجود افغان جہاد کے نام پر اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے نامور لوگوں نے فرقہ پرست دہشت گردوں پر دست شفقت رکھا اور انہیں پاکستان بھر میں کھلی چھوٹ دی گئی، اس شفقت کے نتیجے میں ہی پاکستان کے گلی کوچوں میں یہ نام نہاد جہادی اہل تشیع کا قتل عام کرتے، انہیں پولیس اگر پکڑ بھی لیتی تو یہ برملا اس کا اظہار کرتے کہ ہم نے قتل کیا ہے اور چھوٹ کر پھر کریں گے۔ آخر یہ کونسی قوت تھی، جو انہیں اس قدر یقین ہوتا تھا کہ وہ چھوٹ بھی جائیں گے اور دوبارہ اس کام کو جاری بھی رکھ سکیں گے۔؟

پہلی بار بہاولپور کی مسجد میں 1992ء میں نماز عید کے اجتماع میں نمازیوں کو شہید کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے کئی ایک شہروں کی مساجد میں نمازیوں کے خون سے مساجد کی صفیں رنگیں کی گئیں۔ جس شہر میں آج سانحہ رونما ہوا ہے، اسی شہر میں دو شیعہ جامع مساجد، امامیہ مسجد حیات آباد اور جامعہ عارف الحسینی شہید کی مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات میں بم دھماکے اور فائرنگ سے نمازیوں کو خون میں نہلایا جا چکا ہے۔ ایک بار تو فجر کی نماز پر حملہ آور جامعہ شہید عارف الحسینی میں داخل ہونے کے دوران سکیورٹی سٹاف کی جوابی فائرنگ سے مردار بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ پشاور میں ہی پاراچنار مرکز کے معروف ہوٹل پاک ہوٹل کو بھی ایک خودکش دھماکے میں نشانہ بنایا جا چکا ہے، جو اس مسجد کے بالکل نزدیک واقع ہے۔

اس وقت جب نوے کی دہائی میں دہشت گرد اہل تشیع کو قتل کرتے تھے تو ایک بھونڈا الزام جمہوری اسلامی ایران کے حوالے سے لگایا جاتا تھا کہ جب سے انقلاب ایران آیا ہے، ایسا لٹریچر پرنٹ ہو کر آرہا ہے، جس مین اصحاب (رض) کی توہین موجود ہوتی ہے، جس سے اصحاب کے چاہنے والوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ یہ ایران و سعودیہ کی پراکسیز ہیں، جو اپنی جنگ یا لڑائی پاکستان کی سرزمین کو مشق ستم بنا کر لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ بیانیہ تھا، جو ہماری سوسائٹی، مقتدر حلقوں، میڈیا اور سماج میں پھیلایا گیا تھا، جو سراسر جھوٹ، افتراء اور معاملے کو غلط رخ دینے کی نپی تلی سازش تھی۔ حقیقت اس وقت سامنے آگئی، جب کچھ ہی برسوں بعد اس تکفیری گروہ کے دہشت گردوں کو ملتان میں پکڑا گیا تو ان کے قبضے سے امریکن ایکسپریس بنکوں کے کارڈز، جو لمٹ لیس تھے۔ امریکی ڈالرز بڑی تعداد میں، امریکی بلینک ویزے اور جاسوسی کے آلات، جو اس وقت مارکیٹ میں نہیں ملتے تھے، ایس ایس پی اشرف مارتھ نے برآمد کئے تھے، جسے دھمکیوں کے بعد گجرانوالہ میں دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا۔

بعد ازاں یہی دہشت گرد چھوڑ دیئے گئے اور انہوں نے ملک بھر میں ناصرف اہل تشیع کا قتل عام کیا بلکہ اپنے ہی فرقہ و جامعات کے لوگوں کو اس بنا پر ہلاک کیا کہ انہوں نے ان کی متشدد سوچ اور انداز سے اختلاف کیا تھا۔ یہ باتیں آن ریکارڈ موجود ہیں، اس کے باوجود جان بوجھ کر کچھ لے پالکوں کے ذریعے آج بھی اس دہشت گردی کو ایران سے جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ہم دہشت گردی اور اس کے مقابل سامنے لائے جانے والے سرکاری و میڈیائی بیانیوں کا جائزہ لیں تو انہیں میں دہشت گردی کی جڑوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیشہ اصل مسائل اور جڑوں کو چھپانے کا کام کرتا رہا ہے، جس سے سامنے موجود دہشت گرد اور قاتلوں کو اوٹ فراہم کی جاتی ہے۔ کل تک یہ کہا جا رہا تھا کہ افغانستان میں پاکستان دشمن حکومت ہے، جس نے سترہ سے زیادہ سرحدی شہروں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی “را” کو کھل کھیلنے کیلئے قونصل خانے کی آڑ فراہم کی ہوئی ہے، جن کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی جا رہی ہے۔

یہ انڈین ایجنسی پاکستان میں تحریک طالبان اور داعش کی سرپرستی کر رہی ہے، یہی لوگ فرقہ وارانہ دھماکوں میں بھی ملوث ہیں، مگر گذشتہ اگست سے افغانستان میں افغان طالبان برسر اقتدار ہیں اور اصولی طور پر ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے یہ اڈے اب بند ہوچکے ہونگے۔ اب تو پاکستان میں دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں میں کمی آنی چاہیئے، مگر اس کے الٹ دیکھا جا رہا ہے کہ جب سے افغان طالبان بر سر اقتدار آئے ہیں، پاکستان میں دہشتگردی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے، جبکہ تحریک طالبان تو اب افغان طالبان کی مٹھی میں بند ہیں اور ان کے امیر کی بیعت میں ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہو رہا ہے کہ افغان طالبان کی مٹھی میں بند گروہ پاکستان کے امن کو تہ و بالا کرنے میں بھرپور حرکت میں ہے، اسے کھلا چھوڑا گیا ہے۔ ہم جو افغان طالبان کی آمد پہ بغلیں بجا رہے تھے، وہ کس لئے تھیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دھوکہ کھا رہے ہیں یا عام عوام کو دھوکہ میں رکھا جا رہا ہے کہ افغانستان میں ہمارے فیورٹ آنے کے بعد ہمارے لئے مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر لوگوں نے جو غلطی اسّی کی دہائی میں کی تھی، اس سے آج تک سبق نہیں سیکھا گیا۔ آج بھی ہم اسی پالیسی کا شکار ہیں، اس پالیسی کے باعث ہی ہم آج ایک بار پھر کے پی کے، بلوچستان اور پاکستان کے گلی کوچوں میں بے گناہوں کے خون کی ندیاں بہتی دیکھ سکتے ہیں۔ جھوٹ، مکر، فریب، دھوکہ، شخصی پسند و ناپسند، تعصب، تنگ نظری، تکفیری سوچ اور مائینڈ سیٹ کا اعلیٰ عہدوں پر فائیز ہونا، ہمارے لوگوں کی زندگیوں سے بار بار کھیلنے کا موجب ہے۔ جب تک ایسی سوچ اور فکر اعلیٰ اتھارٹیز میں موجود رہے گی، اس ملک میں بے گناہوں کے خون کی ندیاں بہتی رہیں گی، معصوم لوگ مساجدم، امام بارگاہوں، مزاروں، درباروں، بازاروں،اور سکیورٹی اداروں میں مارے جاتے رہیں گے۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ اگر عمارت کی پیلی اینٹ ٹیڑھی رکھ کر آسمان تک بھی عمارت تعمیر کی جائے تو یہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔

دہشت گردی کے روک کیلئے کتنے آپریشنز کئے گئے، اب تو ایک لمبی فہرست ان کے ناموں کی بن جاتی ہے۔ پیغام پاکستان فتویٰ میں ہزاروں نامور علماء، تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والوں سے دستخط لئے گئے۔ اس عنوان سے ملک بھر میں کانفرنسز، سیمینارز منعقد کروائے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان لانچ کیا گیا، نیکٹا بنایا گیا۔ رینجرز کو شہروں میں تعینات کیا گیا، فوجی عدالتیں بنائی گئیں، پھانسیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، سب سے بڑھ کر ہماری سکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوانوں اور آفیسرز نے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ اس کے باوجود دہشت گردی کا عفریت جب کوئی ڈوریاں ہلاتا ہے، سر اٹھا لیتا ہے۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں، جس شہر اور صوبے میں چاہتے ہیں، اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ابھی کل ہی کوئٹہ میں ایک شیعہ ہزارہ کی دکان میں دو شیعوں کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا اور اس کے بعد جب رش ہوا تو بلاسٹ کر دیا، جس میں کئی قیمتی جانیں چلی گئیں۔

سانحہ پشاور میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 54 شہادتیں ہوچکی ہیں۔ ان بے گناہوں کے خون موجودہ حکمرانون کے کندھوں پر ہیں اور ان پر جو دہشت گردوں کو کسی نہ کسی بہانے سے تحفظ فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی یہ کہہ کر کہ دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں، کبھی یہ کہہ کر کہ افغانستان میں را اور این ڈی ایس نے پاکستانی دہشت گرد گروہوں کیلئے تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں اور کبھی یہ کہہ کر کہ غیر ملکی دہشت گرد گروہ ملوث ہیں، کبھی ان دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا رہا ہے، کبھی انہیں جیلوں سے خاموشی سے رہا کرکے انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ سب ماضی کی حکومتوں میں بھی ہوتا آیا ہے اور موجودہ حکومت میں یہ سب کچھ ریاست مدینہ کے نام پہ ہو رہا ہے۔ یہ اس ملک اور ملت کیساتھ دشمنی اور وطن عزیز سے غداری کے برابر ہے، اس رویئے کو تبدیل کئے بنا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جب تک مقتدر قوتوں اور حکمرانوں میں واضح موقف رکھ کر آگے بڑھنے کا جذبہ سامنے نہیں آئیگا، یہ ہوتا رہیگا۔

دوغلی پالیسی کا نتیجہ تو ایسے ہی بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی مساجد کی صفیں اور مدارس و مزار و دربار ہی ہونگے۔ خدا را اس ملک و ملت کے ساتھ اب یہ ظلم بند ہونا چاہیئے کہ قاتل نامعلوم ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی، دہشت گردی کے پیچھے افغانستان اور را ملوث ہیں۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، افغان طالبان اور تحریک طالبان الگ الگ ہیں، یہ دھوکہ دہی، یہ فریب اب ختم ہونا چاہیئے۔ ہم بارہا یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ مکتب اہلبیت ؑ کے ماننے والوں کیلئے موت وہ بھی راہ خدا میں کٹنا، مرنا، خون میں نہانا ایک سعادت ہے۔ یہ کربلا کا پہلا سبق ہے، جو ہماری مائیں ہمیں گود میں ہی سکھا دیتی ہیں۔ ہم ان شہادتوں سے گھبراتے والے نہیں۔ ہاں ہم متعصب، تنگ نظر، ملک دشمنوں اور نام نہاد اسلام کے دعویداروں کو بے نقاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ سانحہ پشاور میں بے گناہ شہید ہونے والوں کا دکھ اتنا بڑا ہے کہ اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ دکھ ان سے پوچھو، جن کے گھروں سے تین تین جنازے اٹھے ہیں۔ان ماوں سے پوچھوں، جنہوں نے اپنے جگر پاروں کو نہلا کر، کپڑے پہنا کر اپنے ہاتھوں سے مقتل کی جانب روانہ کیا۔ ایک روگ لگ جاتا ہے، اپنے پیاروں کی جدائی کا۔ اللہ کریم بحق شہدائے کربلا شہدائے جامع مسجد پشاور کے درجات عالی فرما اور ورثاء کو صبر سے نواز، (آمین)۔