سعودیوں کی دوہری پالیسی ایران کے ساتھ دشمنی یہودی ریاست کے ساتھ دوستی!
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی وزیر خارجہ نے ابوظہبی میں منعقدہ “عالمی سیاست” کانفرنس کے موقع پر کہا: “اگر ایران جوہری ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرے، تو یہ پیش گوئی ممکن نہ ہوگی کہ کیا ہوگا! ہم علاقے میں بہت خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں”۔
فیصل بن فرحان نے کہا: ایران کی جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی صورت میں خلیج فارس کی عرب ریاستیں اپنی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات عمل میں لائیں گی۔
سعودی وزیر خارجہ کی یہ دھمکی ایسے حال میں سامنے آئی ہے کہ ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے خلاف سعودیہ بحرین اور امارات کا موقف ان کے اپنے مفاد میں نہیں بلکہ امریکی-صہیونی مفاد میں ہے؛ اور اس موقف سے عربی، اسلامی، حتی کہ سعودی مفادات پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوتا کیونکہ ایران اور اس کا ایٹمی پروگرام کبھی بھی ان ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی بادشاہت اس طرح کا موقف اپنا کر صرف اور صرف یہ جتانا چاہتا ہے کہ وہ امریکہ اور یہودی ریاست کی قابل قدر خدمت کر رہی ہے؛ چنانچہ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر ایران جوہری اسلحہ حاصل کر لے تو خطہ جوہری ہتھیاروں کی مسابقت کی طرف بڑھے گا، چنانچہ بہت زیادہ دیر ہونے سے پہلے ہی، دنیا کے ممالک کو چاہئے کہ ایران کو روک لے۔
سعودی ریاست نے – مفت خدمات فراہم کرکے – ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ میں امریکہ اور غاصب یہودی ریاست کے کردار کا ایک حصہ اپنے ذمے لیا ہے؛ اور سعودیوں کا مقصد یہ ہے کہ ایران جوہری مذاکرات میں امریکہ کو رعایتیں دینے پر مجبور کرے اور یہ رعایتیں بالکل وہی ہیں جن کا مطالبہ یہودی ریاست کرتی آئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سعودی حکمران ایران کے اتنے شدید دشمن کیوں ہیں، حتی کہ ان کی دشمنی اسرائیل اور یہودیوں اور امریکیوں سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے؟ امریکیوں اور صہیونیوں کی دشمنی کا سبب بالکل واضح ہے لیکن سعودیوں کی شدید دشمنی نے سیاسی تجزیہ نگاروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے؛ کیونکہ سعودی ریاست بڑی آسانی سے، اچھی ہمسائیگی اور احترام باہمی کے اصول کے مطابق، ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے؛ اور بے شمار مشترکہ مفادات کی بنا پر دو ملکوں اور خطے کے مفاد میں، سفارتی تعلقات کو فروغ دے سکتی ہے۔
جو نکتہ سعودی بھول گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ایران تا ابد جزیرہ نمائے عرب کا ہمسایہ رہے گا، جبکہ امریکہ اس خطے کا ایک جزو نہیں ہے۔ اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام گھناؤنے واقعات کا بانی مبانی ہے؛ یہودی ریاست نے عرب مسلم ملک پر قبضہ جما رکھا ہے، اور ایک عارضی، جعلی اور دہشت گرد ریاست ہے، جسے علاقے کے عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے، جس کا اہم ترین ثبوت قطر میں ہونے والے 2022ع عالمی فٹبال کپ کے دوران رونما ہونے والے واقعات ہیں۔
کوئی بھی منصف تجزیہ کار اس حقیقت کا منکر نہیں ہو سکتا کہ ایران کے ساتھ سعودی دشمنی بنیادی طور پر امریکی-یہودی ضرورت پر استوار ہے؛ اور سعودیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کسی بھی موقع پر یا پھر بے موقع و بے جا، ایران کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرکے انہیں خوشنود کرتے رہیں۔
سعودی حکمران اپنے کھوکھلے دعؤوں کے باوجود، بخوبی جانتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے درپے نہیں ہے، اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کرتا رہا ہے اور ایجنسی نے 15 سے زائد رپورٹوں میں ایران کی صداقت کی تصدیق کی ہے؛ اور بے شمار معائنہ کار ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرتے رہے ہیں۔ ادھر سعودی وزیر خارجہ کے دعوے کے باوجود، سعودی حکمران یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ حتی اس ملک کو روایتی بہت سے روایتی ہتھیار بھی رکھنے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ [سعودی عرب میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کی صورت میں] یہ ہتھیار جعلی یہودی ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں؛ چنانچہ بات گھوم پھر کر اسی نقطے پر پہنچتی ہے کہ ایران کو دی گئی بن فرحان کی دھمکی صرف اور صرف امریکی اور صہیونی ہدایت سے مطابقت رکھتی ہے اور ان ہی دو شیاطین نے سعودیوں کو اپنے عالمی کھیل میں کو اتنا ہی کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
دریں اثنا ایران کی پرامن جوہری توانائی کے حصول، اور دوسری طرف سے یہودی ریاستوں کے ایٹمی ہتھیاروں کے سلسلے میں سعودیوں کی دوہری پالیسی، بہت قابل غور ہے۔ عجب ہے کہ سعودی، بحرینی اور اماراتی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہودی ریاست کے اسلحہ خانے میں 200 ایٹم بم موجود ہیں، اور یہ ریاست عربوں کی دشمن نمبر 1 ہے، لیکن وہ ان ہتھیاروں سے ہرگز ہرگز فکرمند نہیں ہیں! لیکن ایران کے پرامن اقدامات اور پرامن ایٹمی توانائی ان کے مبینہ طور پر خطرے کا احساس دلاتی ہے! سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور امارات کی دوہری پالیسیوں کا سبب ان ممالک پر مسلط کردہ امریکی-صہیونی تصورات ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے اصل دشمن “جعلی یہودی ریاست” کو دشمن ہوتے ہوئے بھی، دشمن گرداننے کی ہمت نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں