سعودی حکومت تارکین وطن مزدوروں کی روزی روٹی بند کرنے کے در پہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یمن کی قومی سالویشن حکومت نے خلیج فارس تعاون کونسل کی جانب سے اس مارچ میں سعودی دارالحکومت میں یمنی یمنی مذاکراتی کانفرنس کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے درست موقف اختیار کیا کیونکہ صنعا ریاض کے عزائم سے پوری طرح واقف ہے اور جانتا ہے کہ ریاض یمنی عوام کے خلاف جنگ، محاصرہ اور ان کے قتل کے نتائج کو قبول کرنے سے فرار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
صنعا کی جانب سے خلیج تعاون کونسل کی دعوت قبول کرنے سے انکار کی تصدیق اس وقت ہوئی جب میڈیا ذرائع نے انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے سعودی عرب میں مقیم تمام یمنیوں – اساتذہ، طلباء اور مزدوروں کو ملک سے نکال دیا ہے اور انہیں مکمل طور پر سعودی عرب چھوڑنے کی تنبیہ کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سعودی عرب میں سیکیورٹی فورسز ایک نسل پرستانہ ہیش ٹیگ بنا رہی ہیں جس کا عنوان تھا “یمنیوں کی بے دخلی ایک سلامتی اور قومی مطالبہ ہے” جو ایک ٹرینڈ بن گیا۔
سعودی عرب میں مقیم یمنیوں پر منظم جبر کی کوئی مثال نہیں ہے اگست 2021 میں، ریاض کے حکام نے جنوبی سعودی عرب میں یمنیوں کے روزگار کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ اسپتالوں اور یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے یمنی پروفیسروں اور ڈاکٹروں کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس سعودی فیصلے میں تمام یمنی شامل ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کو نہ صرف تحریک انصاراللہ سے نفرت ہے، بلکہ پورے یمن اور یمنیوں سے نفرت ہے۔
بدقسمتی سے سعودی عرب میں مقیم عرب محنت کشوں کی روزی روٹی منقطع کرنے کی پالیسی اپنی خارجہ پالیسی تعلقات میں ریاض کی حکمت عملی بن گئی ہے تاکہ اس طریقہ سے وہ مختلف حکومتوں پر دباؤ ڈال سکیں۔ جمال عبدالناصر کے دور میں سعودی حکومت نے مصریوں اور سوڈانیوں کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا، کل شامیوں، فلسطینیوں اور قطریوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا اور آج لبنانیوں اور یمنیوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا۔
یمنیوں کے خلاف ریاض کی معاندانہ پالیسی اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سعودی حکومت یمنی عوام کو فوجی طاقت کے ذریعے گھٹنے ٹیکنے میں ناکام رہی ہے اور اب مزدوروں کی روزی روٹی کاٹنے کی پالیسی کا حشر بھی “فوجی راہ حل” کی سرنوشت سے بہتر نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ یمنی شہریوں کے وقار کو پیسے اور طاقت کے زور پر تباہ نہیں کیا جا سکتا۔
تبصرہ کریں