سعودی عرب، اسرائیل امن معاہدے کے قریب

اس صورتحال میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ جلد طے پانے کا امکان اس لیے بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگلے ماہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں امریکی صدر جوبائیڈن سعودی عرب بھی جائیں گے اور ممکنہ طور پر اس اہم معاملے پر بات چیت کریں گے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بعض عرب ممالک کی جانب سے گذشتہ چند سالوں کے دوران صیہونی ناجائز ریاست (اسرائیل) کیساتھ تعلقات کی بحالی اور بعض کی جانب سے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی کوششیں تسلسل کیساتھ جاری ہیں، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے ایک آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں، جو کسی بھی عرب ملک کے ساتھ اسرائیل کا پہلا بڑا تجارتی معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ کئی ماہ پر مشتمل مذاکرات کے بعد ایک تقریب میں طے پایا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی جانب سے بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات کی ’’بظاہر‘‘ بحالی کی خبریں اور خواہشات متعدد مرتبہ منظرعام پر آچکی ہیں، تاہم اب تک سعودی حکام ایسے کسی بھی امکان کی تردید کرتے آئے ہیں۔ سابق سعودی انٹیلی جنس چیف اور کئی برسوں تک واشنگٹن میں سعودی سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان نے آج سے دو سال قبل سرکاری سعودی ٹی وی چینل پر اپنے ایک انٹرویو کے دوران واضح طور پر یہ اشارہ دیا تھا کہ سعودی حکام اسرائیل کیساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔

اب ایک مرتبہ پھر خود کو مسلم امہ کا ’’ٹھیکدار‘‘ سمجھنے والے سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کیساتھ امن معاہدے کی سرگوشیاں سنی جا رہی ہیں، اس حوالے سے امریکہ اور بعض دیگر عرب ممالک کے تعاون کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ دیگر عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد اب امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے کرانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ بعض دیگر عرب ممالک بھی سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ صیہونی وزیر خارجہ یائر لیپید نے آرمی ریڈیو پر گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی ہمارے مفاد میں ہے، معاہدہ ابراہیمی کا طویل المدتی ہدف یہ بھی تھا کہ خلیجی ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد سعودی عرب کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا جائے۔ سعودی عرب سے معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لیے ہم امریکا اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور یہ مشترکہ کاوشیں جلد ہی کسی مثبت نتیجے تک پہنچ جائیں گی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سعودی عرب سے معاہدہ طے پانا اتنا آسان نہیں جتنا دوسرے عرب ممالک کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا، کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے سکیورٹی مفادات میں اتفاق میں وقت لگے گا۔ یاد رہے کہ دو سال قبل اسرائیل کیساتھ تعلقات کی خبریں نشر کروانے پر امت مسلمہ کا سخت ردعمل ظاہر ہونے کے بعد سعودی حکام بیک فٹ پر چلے گئے تھے۔ اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل بحیرہ احمر میں واقع دو جزائر ’’تیران اور صنافیر‘‘ کی ملکیت سعودی عرب کو دینے کو تیار ہے، سعودی عرب 80 کی دہائی سے ان جزائر کی ملکیت کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ ستر کی دہائی کے آخر میں ان جزائر کی ملکیت سعودی عرب کو منتقلی کے لیے مصری پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ نے منظوری دے دی تھی، لیکن 1979ء کے اسرائیل مصر امن معاہدے کی وجہ سے اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے، کیونکہ اس معاہدے کے تحت جزائر کی منتقلی کے لیے اب اسرائیل کی رضامندی بھی ضروری ہے۔

اس صورتحال میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ جلد طے پانے کا امکان اس لیے بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگلے ماہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں امریکی صدر جوبائیڈن سعودی عرب بھی جائیں گے اور ممکنہ طور پر اس اہم معاملے پر بات چیت کریں گے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سب سے پہلے 1979ء میں مصر اور پھر 1994ء میں اردن نے بحال کیے تھے تاہم 2020ء میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہد ابراہیمی کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد گذشتہ ایک برس میں اسرائیلی وفد بشمول وزیر خارجہ سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے نہ تو واضح طور پر تردید سامنے آئی ہے اور نہ ہی تصدیق کی گئی ہے، تاہم سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل سے فلسطین امن معاہدے پر عمل درآمد کا بارہا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

ایسے حالات میں سعودی عرب اس امر کا حامی ہے کہ پہلے فلسطینی قیادت صیہونی حکام کیساتھ رابطے کرکے کسی معاہدے پر پہنچے اور پھر ریاض اسرائیل کیساتھ تعلقات کی بحالی کا باقاعدہ اعلان کرے۔ مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال، خاص طور پر یمن جنگ، مقاومتی قوتوں کی مضبوطی اور خطہ سے امریکی مداخلت میں کمی کے تناظر میں سعودی عرب کی عین کوشش ہے کہ اسرائیل کیساتھ ملکر ایران اور اس کے اتحادیوں کو کمزور کیا جائے، لہذا سعودی اور صیہونی حکام کا موجودہ صورتحال میں ایک دوسرے کے قریب آنا اور باقاعدہ امن معاہدہ تشکیل دینا ایک، دوسرے کے مفاد میں ہے۔ افغانستان اور عراق سے انخلاء کے بعد واشنگٹن کی بھی کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی صورت اپنے اتحادیوں (سعودی عرب اور اسرائیل) کو خطہ میں قدرت مند بنایا جائے اور وہ نتائج جو امریکہ خود حاصل نہیں کر پایا، وہ سعودیہ اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ کے ذریعے حاصل کئے جائیں۔