سید حسن نصر الله: بوڑھے بائڈن خستہ حال امریکہ کی ایک تصویر ہیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حزب لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے [بدھ 13 جولائی 2022ع کو] کلام اللہ مجید کی آیات کریمہ کی تلاوت کے بعد عید الضحیٰ کے حوالے سے مسلمانوں کو مبارکباد دی اور یمن کے اتحاد علماء کے سربراہ علامہ عبدالسلام کی وفات پر انصار اللہ یمن کے سیکریٹری جنرل سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی کو تعزیت پیش کی اور کہا: اس یمنی عالم دین نے اپنی پوری زندگی امت مسلمہ – خاص طور پر فلسطین، قدس شریف اور مسلمانوں کے قبلۂ اول “مسجد الاقصیٰ” کے دفاع میں بسر کی ہے۔
نام نہاد عظیم تر مشرق وسطیٰ کے منصوبے کی ناکامی
سید المقاومہ نے 2006ع میں “صادق الوعد” کے عنوان سے ہونے والی حزب اللہ کی کاروائی [اور 33 روزہ جنگ] کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 33 روزہ جنگ میں مقاومت [یعنی مزاحمت] کی ایک حصول یابی یہ تھی کہ عظیم تر مشرق وسطیٰ کے نام کا امریکی منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انھوں نے کہا: 11 ستمبر 2001ع کے واقعات کے بعد امریکہ نے ان واقعات کو افغانستان اور عراق پر قبضے کا بہانہ قرار دیا جس کے بعد اس امریکی منصوبے کا دوسرا قدم فلسطین اور لبنان میں مقاومت اسلامی کی بیخ کنی اور ایران کو تنہا کرنا تھا تاکہ جعلی اسرائیل مشرق وسطیٰ کا سید و سرور بن جائے لیکن اسلامی مقاومت اور مملکت لبنان کی استقامت نے جدید مشرق وسطیٰ پر کاری ضرب لگائی۔ البتہ یہ منصوبے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور انھوں نے بعدازاں اوباما کے دور میں عربی بہار (Arabic Spring) کی تحریکوں پر کھاتہ کھول دیا لیکن وہ منصوبہ بھی ناکام رہا۔
بوڑھے بائڈن خستہ حال بڈھے امریکی کی تصویر
سید حسن نصر اللہ نے امریکی صدر کے دورہ مغربی ایشیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکی صدر بائڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں شائع ہوئیں جن میں “عربی نیٹو” یا “مشرق وسطیٰ کی نیٹو” کے منصوبے کا تذکرہ کیا گیا۔ آج [بدھ 13 جولائی کو] بائڈن مقبوضہ فلسطین پہنچے اور اگلے چند دنوں میں واضح ہو ہی جائے گا کہ کیا عربی نیٹو کا افسانہ درست تھا یا نہیں؟
انھوں نے کہا: بہرحال 2022ع کا امریکہ 2003ع اور 2006ع کے امریکہ سے بالکل مختلف ہے، اور ایک عمر رسیدہ، نحیف اور ضعيف العمر صدر اس امریکہ کی عینی تصویر ہے جو بڑھاپے اور فرسودگی کے مرحلے میں داخل ہؤا ہے۔ عالمی سطح پر اس ملک کی موجودگی بہت زیادہ کمزور پڑ گئی ہے، 2022ع کے امریکہ کو بدترین افراط زر، اشیائے ضرورت کی قلت، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور معاشی اور سماجی جیسے مسائل کا سامنا ہے اور اس کی اندرونی سلامتی کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ امریکی صدر خطے کے دورے پر آئے ہیں تا کہ خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کو تیل اور گیس کی زیادہ سے زیادہ مقدار مغرب برآمد کرنے پر مجبور کرے۔
روس کے خلاف امریکی پراکسی جنگ!
انھوں نے مزید کہا: امریکہ روس کے خلاف بڑی جنگ میں کود گیا ہے۔ یہ ملک روس کے خلاف براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہؤا ہے بلکہ وہ اپنی جنگ یوکرین کے عوام اور حکومت کے توسط سے روس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ کے اسباب و محرکات میں سے ایک اہم سبب یورپیوں کے توسط سے روس کی گیس اور تیل پر پابندی لگوانا ہے۔ امریکہ نے یورپیوں کو تیل اور گیس کی فراہمی اپنے ذمے لی ہے۔ یورپ کے لئے وقت تنگ ہے کیونکہ موسم سرما کی آمد آمد ہے اور ان کو موسم گرما میں سردیوں کے لئے ایندھن جمع کرنے کی ضرورت ہے۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا: بائڈن خطے میں یہ دیکھنے آئے ہیں کہ خلیج فارس کی ساحلی عرب ریاستیں یورپ کی ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنی پیداوار میں کس حد تک اضافہ کر سکتے ہیں۔ ادھر صدر بائڈن نے برسر اقتدار آتے ہی اعلان کیا تھا کہ “میں ایک صہیونی ہوں، اور ایک صہیونی ہونے کے لئے یہودی ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ ایک صہیونی کے طور پر آج جو کچھ انھوں نے مقبوضہ فلسطین کے دورے میں “دو ریاستی حل” (Two-state solution) کے بارے میں کہا وہ تکلفانہ گفتگو (اور compliment of the season) کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا: بائڈن کہتے ہیں کہ انھوں نے [گویا] یمن کی جنگ بندی میں کردار ادا کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی یمن پر جارحیت کا خواہاں ہے؛ سعودیہ صرف ایک اوزار ہے۔ ہمیں قطر کا محاصرہ بھی یاد ہے جس کو امریکہ نے ایک رات میں توڑ دیا۔ بائڈن اگر یمن کی جنگ بندی میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت آسانی سے اس جنگ کو ختم اور یمن کا محاصرہ توڑ سکتے ہیں۔
صہیونی وزیر جنگ کو انتباہ
انھوں نے کہا: لبنان کی بحری سرحدوں کے بارے میں ہمارے اظہار خیال کے بعد، صہیونی دشمن کے وزراء نے دھمکیاں دیں اور بہت ساری باتیں کیں؛ جن میں ان کا وزیر جنگ بینی گانٹز بھی شامل تھا جس نے کہا کہ “ہم ایک بار پھر بیروت آئیں گے” (یعنی بیروت پر قبضہ کریں گے)۔ وہ بخوبی جانتا ہے وہ مقبوضہ سرزمینوں میں مقیم لوگوں سے بھی اور اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ گانٹز محصور غزہ کی طرف چند قدم اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ وہ اگر گذشتہ 20 یا 30 سال سے آج تک کے واقعات کا بغور مطالعہ کرے [تو ایسی ڈینگیں مارنے سے شاید باز آجائے] ہم اس کو مشورہ دیتے ہیں کہ 33 روزہ جنگ کو یاد کرے، خاص طور پر اس گھڑی کو یاد کرے جب صہیونی فوجی بنت جبیل کے علاقے میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے ایک گذرگاہ ہمارے مجاہدین کے لئے کھول دی کہ وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں؛ لیکن واقعہ اس کے برعکس ہؤا اور ہمارے مجاہدین نے شہر کے دفاع کا اہتمام کیا [اور صہیونیوں کو بھاگنا پڑا]۔
ان کا کہنا تھا: 33 روزہ جنگ کی عبرتوں اور اسباق میں سے جو کچھ ہمیں سیکھنا چاہئے، وہ یہ ہے کہ جنوبی لبنان کے عوام مقاومت کے میزبان ہیں اور اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مقاومت کی تنظیمات اور وسائل پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ مقاومت کا جذبہ عروج پر ہے اور علاقے کے عوام اور جغرافیہ اور سب سے اہم اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت، آغاز کار سے انجام کار تک، مقاومت کے ساتھ ہیں۔ مقاومت وہ واحد قوت ہے جو تیل اور گیس کے ذخائر میں اپنا حق وصول کرنے کے لئے لبنان کے پاس ہے۔
مقاومت لبنان کے حقوق لینے کے لئے
سید المقاومہ نے مزید کہا: ملک کے اندر کوئی ایک شخص بھی اس مسئلے کے خلاف نہیں ہے کہ تیل اور گیس لبنان کو درپیش بحرانوں سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ ہمارا ملک نہایت دشوار حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی بینک کی دی ہوئی رقم بھی ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے لبنان مزید مقروض ہوگا۔ مسئلے کا حل وہی سینکڑوں ارب ڈالر کی [قدرتی] دولت ہے جو ہمارے پاس ہے۔ لبنان مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے [صہیونیوں کے ہاتھوں] تیل اور گیس نکالنے میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے، اور اس کی یورپ تک رسائی میں بھی حائل ہو سکتا ہے۔ صہیونیوں کو جلدی ہے، صرف دو مہینے باقی ہیں کیونکہ غاصب حکمران ستمبر میں تیل اور گیس نکالنے کی بات کررہے ہیں۔ اگر ہم سرحدی خطوط کو جلد از جلد متعین نہ کریں تو مسئلہ دشوار ہوگا اور اس کے حل کے اخراجات بہت زیادہ ہونگے۔
انھوں نے کہا: لبنان کو بجلی کی اشد ضرورت ہے، لیکن امریکہ [شام کے خلاف امریکی پابندیوں کے قانون، قانون قیصر (Caesar Act)] سے آپ [لبنانیوں] کو مستثنیً کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور آپ مصر سے آنے والی گیس سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ ان کے وعدوں سے بھی ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ وہ کس کی خاطر سرحدوں کے تعین اور تیل نکالنے کے سلسلے میں آپ [لبنانیوں] کو برتری دیں گے؟ [امریکی سینئر مشیر برائے تحفظ توانائی] ایموس ہوکسٹائن (Amos Hochstein) نے حال ہی میں دو وجوہات کی بنا پر لبنان کا دورہ کیا۔ ایک یہ کہ امریکہ کو یورپ کے لئے تیل اور گیس کی ضرورت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مقاومت سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ بحر و بر اور فضا میں مقاومت کی طاقت سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ مقاومت اپنی دھمکیوں پر عمل کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔
تیل اور گیس دشمن کی کمزوری
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ دشمن کی کافی ساری کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کے ازالے کے لئے اس کو تیل اور گیس کی ضرورت ہے۔ لبنان اور مقاومت کی قوت کا نقطہ (forte) یہ ہے کہ وہ اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ لبنان اگر مذاکرات کرنا چاہے، تو اس کے پاس دباؤ کے خاص وسائل کی ضرورت ہے۔ مقاومت اس کا نقطۂ قوت اور دباؤ کا وسیلہ ہے۔ میں لبنانی حکام سے کہتا ہوں کہ مقاومت سے استفادہ کرو جو تمہارے پاس دشمن کے خلاف دباؤ بڑھانے کا واحد وسیلہ ہے۔ جب تم امریکیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہو تو ان سے کہہ دو کہ “لبنانی عوام کسی کے ساتھ مذاق نہیں کرتے اور انہیں قابو میں لانا ممکن نہیں ہے لہٰذا تم لبنانی عوام کے طبیعی اور فطری حقوق انہيں دے دو”۔
دشمن نے ڈرون طیاروں کا پیغام وصول کیا
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم نے کچھ ڈرون طیارے بھیجے، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ کسی بیرونی سمجھوتے کا نتیجہ ہے؛ میں پوچھتا ہوں کہ کون سا سمجھوتہ؟ ہم نے کسی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ہے، ہم کسی کو کوئی وعدہ بھی نہيں دے رہے ہیں۔ جو لوگ امریکیوں کو وعدے دیتے ہیں [کہ ہم اسرائیل کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے وغیرہ] تو وہ در حقیقت اپنے آپ کو بھی اور امریکیوں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں، اور مقاومت ان کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ مقاومت ڈرون طیارے بھیجتی ہے اور پھر کہتی [دعویٰ کرتی] ہے کہ “ہم ملک کی پشت پر ہیں”، ہم یقینا سرحدوں کے تعین میں اپنے ملک کی پشت پر ہیں اور اسے تقویت پہنچاتے ہیں؛ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم [ملک کے اندر] کسی کے ساتھ یا کسی کے خلاف ہیں۔ ہم دشمن پر دباؤ بڑھانے کے سلسلے میں کسی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے اور کسی کو وعدہ بھی نہیں دیتے۔ ہم نے مختلف سائزوں کے کچھ ڈرون طیارے بھجوائے کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ فوجی طیارے میزائل داغیں، بحری جہاز حرکت میں آئیں تا کہ اس خاص علاقے میں موجود لوگ جان لیں کہ یہ علاقہ غیر محفوظ ہے۔ صہیونی ریاست کی تاریخ میں پہلی بار، مقاومت نے ایک نشانے کی طرف تین ڈرون داغ دیئے۔
انھوں نے کہا: ہمارے پاس بڑی تعداد میں مختلف سائزوں کے مسلح ڈرون بھیجنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہمارے مختلف سائزوں کے ڈرون طیاروں نے دشمن کو یہ پیغام دیا کہ “ہم سنجیدہ ہیں اور یہ مسئلہ بنیادی ہے”؛ اور یہ صرف اس کا آغاز تھا۔ ہم دشمن کی طرف کے خطرے کے تناسب سے اپنے ہاں کے دستیاب آپشنز میں سے جو چاہیں، استعمال کرتے ہیں۔ یہ پیغام دشمن کو مل چکا ہے اور اس کا جواب یہ تھا کہ دشمن نے ہماری حکومت کے ساتھ بھی اور ہمارے ساتھ کچھ رابطہ کاریاں کیں اور میدان میں بھی دشمن کا رد عمل اس بات کا ثبوت تھا۔
انھوں نے کہا: ہم طاقت کے حوالے سے بحر و بر اور فضا میں مختلف النوع صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ یہ تمام آپشن میز پر ہیں اور جو کچھ بھی مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہوگا، مناسب موقع پر، اور مناسب حجم میں، بروئے کار لائیں گے۔ لبنان کو ایک تسدیدی قوت حاصل ہو اور اسے اس طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہمیں صرف سرحدوں کی بین الاقوامی تائید پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ جن کمپنیوں نے ہمارا تیل اور گیس نکالنے کی غرض سے کھدائی کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے انہیں متعلقہ علاقے میں واپس لانا چاہئے تاکہ ہمیں اس کا عملی ثمرہ مل جائے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں نفسیاتی جنگ نہیں لڑنا چاہتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ہمارے ملک کے لئے واحد راہ نجات ہے۔ ہم نے چاہا کہ ہم تمام لبنانی ایک متحدہ موقف کا اظہار کریں، اور اپنے اس موقف کو امریکیوں اور صہیونیوں تک پہنچا دیں؛ اور وہ موقف یہ ہے کہ اگر تم ہمارا حق نہیں دوگے اور کمپنیوں کو کام کی اجازت نہیں ہوگی تو کوئی بھی یہاں سے تیل اور گیس نہیں نکال سکے گا۔
سیدالمقاومہ نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کو تباہ کریں، لوگ قطاروں میں کھڑے رہیں، اور معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس کی شدت سے ایک دوسرے کو قتل کریں۔ لبنان میں خانہ جنگی ہمارے دشمن کی سب سے بڑی خواہش ہے۔۔۔ ہم دشمن سے کہتے ہیں کہ اپنی حدود سے قدم باہر نہ رکھیں، ایموس ہوکسٹائن اور امریکیوں سے بھی کہتے ہیں کہ لبنانیوں کو فریب دینے سے باز رہیں۔ ڈرون طیاروں کا پیغام واضح تھا۔ اس قاعدے کو اپنے ریکارڈ میں درج کرو: “کاریش (Karish gas field) اور کاریش کے بعد اس کے بعد دوسرے گیس اور آئل فیلڈز، اور تیل کے کنویں – جو فلسطین اور لبنان کی سرحدی پٹی کے قریب واقع ہیں، ہم ان سب پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی نگرانی کرتے ہیں، اگر تم یہ نہیں چاہتے کہ لبنان اپنے حقوق سے فائدہ اٹھائے، تو کوئی بھی یہاں سے تیل اور گیس نہیں نکال سکے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں