فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی کمانڈ روم نے صیہونیت کے ساتھ ہم آہنگی اور ترکی کی معاونت کے ذریعے فی الحال بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹاکر، بظاہر اپنی پچھلی شکست کا بدلہ لے لیا ہے اور وہ شام پر حاکم ہوگیا۔ لیکن کیا یہ کہانی کا اختتام ہوگا؟ شاید ہی کوئی تجزیہ کار ایسا ہو جو شام کے لیے ایک روشن مستقبل کی پیشگوئی کرسکے، کیونکہ اس ملک کا مستقبل نہ صرف مبہم بلکہ کئی قسم کی پیچیدگیوں میں گھرا ہوا ہے۔
اس تحریر میں شام کے ممکنہ مستقبل کے آپشنز کو زیرِ بحث لانے کا ارادہ نہیں بلکہ ایک سوال کا جواب دینے پر توجہ مرکوز ہے: کیا امریکہ شام میں اپنے مقاصد حاصل کرسکے گا؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے کئی بار مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مخالف سیاسی نظاموں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختلف بہانوں جیسے کمیونزم کے خلاف لڑائی، جغرافیائی سیاسی حریفوں سے مقابلہ، مہلک ہتھیاروں کی روک تھام، دہشت گردی سے جنگ، اور جمہوریت کے فروغ کے نام پر امریکہ نے مختلف حربے استعمال کیے ہیں۔
ان میں فوجی بغاوتوں کی حمایت، اپوزیشن گروپوں کو کھلی اور خفیہ فوجی امداد، حملہ اور ملک پر قبضہ، اپوزیشن فورسز کو فضائی مدد، اور پابندیاں شامل ہیں۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جب امریکی حکمران کسی نظام کو گرانے کے لیے پختہ ارادہ کرتے ہیں تو وہ دھوکہ دہی سے اس نظام کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ دلکش اور مقبول الفاظ جیسے جمہوریت، دہشت گردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق، اور اس جیسے دیگر نعروں کا استعمال کرتے ہیں، کامیابی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور جلد بازی میں فتح کا اعلان کردیتے ہیں۔
اور اب اس سوال کا جواب کہ کیا امریکہ شام میں اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا یا نہیں؟ میں اسے ایک تجربہ کار امریکی عہدیدار پر چھوڑتا ہوں؛ وہ شخص جس نے تقریباً تین دہائیوں تک مغربی ایشیا میں امریکی پالیسیوں کی نگرانی کی اور اس اہم خطے میں اپنے ملک کے مقاصد کے حصول کی کوشش کی۔ فلپ گورڈن، جو وائٹ ہاؤس کے سابق رابطہ کاربرائے مشرق وسطیٰ ہیں، نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ” طولانی کھیل میں شکست”۔ اس کتاب میں وہ امریکی حکمرانوں کے غیر ہم آہنگ سیاسی نظاموں کو گرانے کے مقاصد کی حمایت کرنے کے باوجود امریکی حکمت عملیوں اور ان کے نتائج کو چیلنج کرتے اور انہیں ناکام قرار دیتے ہیں۔
گورڈن عراق، لیبیا، افغانستان اور شام میں امریکی پالیسیوں اور مداخلتوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان سوالات کا جواب دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں حکومتوں کی تبدیلی اتنی مشکل کیوں ہے؟ کیوں یہ ہمیشہ توقع سے زیادہ مشکل اور مہنگی ثابت ہوتی ہے اور اس کے سنگین نتائج کیوں برآمد ہوتے ہیں؟ کیوں امریکی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ “ہم اسے صحیح طریقے سے کر سکتے ہیں” اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اس بار صورتحال مختلف ہوگی؟ کیا ایسی مسلسل ناکام پالیسی کے لیے کوئی متبادل حقیقت پسندانہ راستہ موجود ہے؟
گورڈن ان سوالات کے جوابات امریکہ کی مغربی ایشیا میں پچھلے ستر سال کی کوششوں کا تجزیہ کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب کے آخری حصے میں، گورڈن اپنے تجزیے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“وہ تمام واقعات جن میں حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ بنایا گیا، ایک دوسرے سے مختلف تھے، لیکن ان میں کئی اہم مماثلتیں بھی موجود تھیں۔ ہر معاملے میں، موجودہ حکومت کو گرانے اور اس کی جگہ ایک بہتر حکومت لانے کی کوشش توقع سے کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہوئی۔ یہ نہ تو استحکام لے کر آئی اور نہ ہی اس کے نتائج ایسے نکلے جن کی خواہش کی جا رہی تھی۔ اس کے برعکس، ان کے غیر متوقع اور منفی اثرات ظاہر ہوئے۔”
مصنف وضاحت کرتے ہیں:
“جب ہم 1953 سے لے کر اب تک مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی قیادت میں حکومتوں کی تبدیلی کی کوششوں کو دیکھتے ہیں تو کوئی کامیاب مثال نہیں ملتی۔ بلکہ ان کے کئی اقدامات تباہ کن ناکامیوں سے دوچار ہوئے۔ یہ ہمیشہ توقع سے زیادہ مہنگے ثابت ہوئے، کم فوائد فراہم کیے، اور ان کے نتائج غیر متوقع اور ناقابل قابو رہے۔”
اس تجربہ کار امریکی پالیسی ساز کے خیالات کی روشنی میں، شام کا مستقبل، تمام ابہامات کے ساتھ، ایک ایسا مستقبل ہو سکتا ہے جو چیلنجوں، بھاری قیمت اور امریکہ کے لیے ناکامی سے بھرپور ہو۔ ایسا مستقبل جس میں امریکی حکمت عملی ایک بار پھر پچھتاوے اور حیرت کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس میں شامی نوجوانوں کا کردار کلیدی ہوگا۔
https://farsnews.ir/Fazaeli/1734775047425544276/
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں