فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بشار الاسد کی غیر متوقع برطرفی کے بعد شام کو اقتدار کی منتقلی کے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن گروہوں کی رقابت، اسد کے سابق جنرلز کا کردار، اور ترکی، روس اور امریکہ جیسی غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت، ملک کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہی ہیں۔ 13 سالہ جنگ کے تجربے اور عرب بہار کے تلخ سبق سے ظاہر ہوتا ہے کہ شامی عوام کو تنازعات کے خطرے اور تعمیر نو اور بقائے باہمی کے مواقع کے درمیان ایک پرامن راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
پاتریک کنگزلی، نیویارک ٹائمز کے مشرق وسطیٰ کے امور کے تجزیہ کار اور صحافی، لکھتے ہیں کہ 2011 میں جب مظاہرین نے شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے کی کوشش کی تو وہ عرب بہار کے نام سے مشہور تحریک کا حصہ تھے۔ یہ تحریک مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں آمرانہ حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹانے کے مقصد سے شروع ہوئی تھی۔ لیکن جہاں دوسرے ممالک میں اپوزیشن گروہوں نے تیزی سے کامیابیاں حاصل کیں، وہیں شام کے مظاہرے ایک ایسی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے جو 13 سال تک جاری رہی، لاکھوں افراد کی جانیں لے گئی، کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ملک مختلف حریف دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
نیویارک ٹائمز کے حوالے سے “فرارو” کی رپورٹ کے مطابق، اب بشار الاسد کی غیر متوقع برطرفی نے شامی عوام کو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے جو ایک دہائی قبل مصر، لیبیا، تیونس، اور یمن کے لوگوں کو ملا تھا—یہ چار ممالک وہ ہیں جہاں آمر زیادہ تیزی سے اقتدار سے ہٹائے گئے تھے۔ تاہم، جہاں یہ چار ممالک ابتدائی انقلابی کامیابیوں کی مثالیں فراہم کرتے ہیں، وہیں عرب بہار کے بعد ان کا تجربہ ایک سنگین تنبیہ بھی ہے۔ مصر اور تیونس میں، نئے رہنماؤں نے کثیر الجماعتی جمہوریتوں کے قیام کی کوششوں کو دبا دیا۔ لیبیا اور یمن میں، حریف ملیشیاؤں کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے ان ممالک کو خانہ جنگی اور تقسیم کی طرف دھکیل دیا۔
الیسٹر برٹ، برطانیہ سابق وزیر برائے مشرق وسطیٰ، کا کہنا ہے “وہ لوگ جو پچھلے 13 سالوں میں زندہ بچ گئے ہیں، ان کا حق بنتا ہے کہ وہ مستقبل کی فکر کرنے سے پہلے اس لمحے کا لطف اٹھائیں۔” وہ مزید کہتی ہیں: “ہم خطے کے 2011 کے بعد کے تجربات کو بخوبی جانتے ہیں۔ ہم بہترین نتائج کی امید کرتے ہیں، لیکن بدترین حالات کے لیے بھی تیار ہیں۔”
شام میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن: کیا ہیئت تحریر الشام عوام کا اعتماد جیت سکتی ہے؟
شام میں حالیہ تبدیلیوں نے اقتدار کی منتقلی کو انتہائی پیچیدہ اور کشیدہ بنا دیا ہے۔ اسلام پسند باغیوں کے اتحاد، ہیئت تحریر الشام، جس نے دمشق کی جانب تیزی سے پیش قدمی کی، اب کئی حریف اپوزیشن گروہوں میں سے ایک ہے جو بشار الاسد کے بعد شام کے نظم و نسق پر متفق ہونا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہیئت تحریر الشام فی الحال شام کا سب سے مؤثر گروہ ہے، لیکن اسے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ گروہ شمالی شام میں ترکی کی حمایت یافتہ اتحادیوں، مشرقی شام میں امریکہ کی حمایت یافتہ سیکولر کرد اتحاد، اور جنوبی شام میں مقامی باغی گروہوں سے مقابلہ کر رہا ہے۔
ہیئت تحریر الشام، جو کبھی القاعدہ سے وابستہ تھا، نے خود کو ایک معتدل تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو شام کی مختلف اقلیتوں بشمول مسیحیوں، دروزیوں اور علویوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ علوی وہ اقلیت ہے جو بشار الاسد کی بنیادی حمایت کا مرکز تھی۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ گروہ، جسے امریکہ ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھتا ہے، اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتا ہے تو خانہ جنگی مزید طول پکڑ سکتی ہے۔ اس صورت میں، مختلف اقلیتوں کی ملیشیائیں ممکنہ طور پر اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے دوبارہ مسلح ہو سکتی ہیں، جس سے تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
الیسٹر برٹ کا کہنا ہے: “آپ صرف لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ محفوظ ہیں؛ انہیں یہ یقین بھی دلانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہیئت تحریر الشام اور ان تمام افراد کا رویہ، جو اب آزاد کرائے گئے شہروں میں ہتھیاروں کے ساتھ ہیں، بہت اہم ہے۔”
مشرق وسطیٰ میں اقتدار کی منتقلی کے تلخ تجربات اور شام کا مستقبل
اسی دوران، ترکی، روس، اور امریکہ جیسے غیر ملکی طاقتیں، جنہوں نے شام کے تنازعات میں مختلف فریقوں کی حمایت کی، غالباً نئی صورت حال میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی۔ ان مداخلتوں سے شام کے اندرونی اختلافات طویل اور اقتدار کی منتقلی مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
بشار الاسد کے سابق جنرلز اور سیکورٹی سربراہوں کے ارادے بھی غیر واضح ہیں۔ یہ افراد نئے اقتدار کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جیسے کہ 2011-2012 میں دیگر ممالک میں ہوا۔ مثال کے طور پر، مصر میں حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد، فوجی رہنماؤں نے سیاسی منتقلی کے عمل پر قابو پایا۔ انہوں نے انتخابات کی اجازت دی، لیکن 2013
میں عوامی بغاوت کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا اور منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کر دیا۔ یہ تجربہ شام کے لیے بھی ایک تلخ سبق ہو سکتا ہے۔
لیبیا میں، معمر قذافی کی برطرفی کے بعد انتخابات ہوئے، لیکن تین سال بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی نے ملک کو حریف دھڑوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ تیونس، جو ایک عرصے تک عرب بہار کے کامیاب ترین مثال سمجھا جاتا تھا، 2021 میں دوبارہ فرد واحد کی حکومت کی طرف لوٹ آیا جب صدر قیس سعید نے اپنے اختیارات کو وسعت دی اور انتخابی اداروں پر قابو پا لیا۔
شام کا مستقبل اور اپوزیشن گروہوں کی رقابت
شام کے داخلی پیچیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے، کچھ کا خیال ہے کہ بشار الاسد کی برطرفی سے جنگ کے 13 سالہ زخم مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ مختلف اپوزیشن گروہوں کے تنوع اور ان کے درمیان علاقوں پر کنٹرول کی کشمکش، نئے تنازعات کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ تاہم، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شامی عوام کا جنگ کا طویل تجربہ انہیں پرامن حل کی طرف راغب کرے گا۔
صنم وکیل، چیٹم ہاؤس لندن میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی سربراہ، کہتی ہیں: “شام میں سالوں کی جنگ اور تکالیف کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ عوام نے بشار الاسد کے بعد کی صورت حال کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی کی ہے۔” وہ مزید کہتی ہیں: “یہی چیز شام کے اس لمحے کو خاص بناتی ہے۔ ان سالوں میں بہت تجربات ہوئے، تنظیمیں بنائی گئیں اور مختلف سرگرمیاں کی گئیں۔ تاہم، بہت سے شامی اب یہ کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خوشی منانا چاہتے ہیں”۔ اسکے بعد کیا حالات ہونگے وقت طے کرے گا۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں