فاران : خطے کے دوستوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ آگ بھڑکانے میں کسی بھی قسم کی مدد فوری طور پر انہی کے خلاف پلٹے گی۔ انہیں چاہیے کہ غیروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔
مہر نیوز ایجنسی کےبین الاقوامی شعبہ کے لئے لکھے گئے اپنے ایک خصوصی کالم میں ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے لکھا ہے:
امریکہ اور اسرائیل نے کئی سالوں کی کوششوں اور سازشوں کے بعد شام جیسے اہم مخالف صیہونیت مرکز کو بدامنی کا شکار کر دیا۔ شام حافظ الاسد اور بشار الاسد کے دور میں صیہونیت کے خلاف جدوجہد میں ایک اہم ملک رہا ہے۔ انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے فلسطین کے مقصد سے پہلی غداری کی۔
فلسطین کا معاملہ صلیبی جنگوں کے ۶۹۰ ہجری کے بعد دوبارہ زندہ ہوا۔ صلیبی جنگیں پاپ اربن دوم کے ۱۰۹۵ عیسوی میں دیے گئے فتوے سے شروع ہوئیں اور کیتھولک عیسائیوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا۔ سعدی شیرازی نے اپنی تحریروں میں صلیبیوں کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کا ذکر کیا ہے۔
موجودہ دور میں، نئی صلیبی جنگوں کو عیسائی انتہا پسندوں اور صیہونیت نے ترتیب دیا۔ تھیوڈور ہرزل نے ۱۸۹۷ میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں منعقدہ کانفرنس میں صیہونیت کے نظریے کو پیش کیا اور ۱۹۱۶ میں سائیکس-پیکو معاہدہ کے تحت فرانس اور برطانیہ نے عثمانی سلطنت کی سرزمین تقسیم کی۔ بالفور، برطانیہ کے وزیر خارجہ، نے ۱۹۱۷ میں فلسطین کو یہودیوں کا مستقبل کا وطن قرار دیا۔
۱۹۱۸ سے ۱۹۳۹ کے درمیان، مشرقی یورپ اور کبھی کبھار مغربی یورپ، لاطینی امریکہ اور ایشیا سے لاکھوں یہودی فلسطین ہجرت کر گئے۔ ہالی ووڈ نے فلم “Exodus” بنائی جس میں یہودیوں کو مظلوم دکھایا گیا جو فلسطین لوٹ رہے ہیں۔ ایران کے بڑے علماء، جیسے امام خمینی (رح) اور آیت اللہ طالقانی رح نے اپنی جدو جہد میں اسرائیل کے خلاف واضح مؤقف اختیار کیا۔
مغربی طاقتیں، جیسے برطانیہ نے برصغیر میں اور ہالینڈ نے جنوب مشرقی ایشیا میں تجارتی کمپنیاں قائم کیں اور پھر انہیں ہڑپ لیا۔ مغربی طاقتوں، خاص طور پر اینگلو سیکسنز، کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا پر غالب آئیں۔ برطانوی عثمانی سلطنت کا سامنا نہ کر سکے اور وہاں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
یہودیوں کا ایک گروہ سلطان عبدالحمید کے دور میں ان کے پاس آیا اور فلسطین خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ سلطان عبدالحمید نے تاریخی الفاظ کہے کہ ہم نے نہیں دیکھا کہ زندہ انسان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ اس دوران، انہوں نے دو راستے اپنائے؛ جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو روکنا اور پھر یہودی قیدیوں کے خوفناک مناظر دکھانا۔
۱۹۱۸ سے دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک، برطانویوں نے تیاری کی اور امریکیوں نے ان کی مدد کی۔ اسلامی سرزمین کے وسط میں یہودیوں کا قیام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں کے اتحاد کو روکنے کے لیے تھا۔ ایران کے علماء، جیسے امام خمینی (رح) اور آیت اللہ طالقانی، نے اسرائیل کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور واضح جدوجہد کی، اور سید مجتبی نواب صفوی نے بھی مصر کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف تقریریں کیں اور فتح تحریک کے قیام میں مؤثر کردار ادا کیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد مختلف ممالک نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ مصر میں جمال عبد الناصر نے عرب اتحاد اور فلسطین کی آزادی کے لیے کوششیں کیں اور قاہرہ میں عرب لیگ قائم کی۔ اس کے برعکس، اسلامی کانفرنس تنظیم اسرائیل کے خلاف جنگ کے مخالفین کی تنظیم بن گئی۔ اردن کے شاہ حسین نے بھی بظاہر اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، لیکن درحقیقت فلسطینیوں کو جنگی قوت کے طور پر استعمال کیا۔
جمال عبد الناصر کی اچانک موت، تنظیم اسلامی کانفرنس کی بے عملی اور دباؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ میشل عفلق، جو ایک مسیحی شامی تھے، انہوں نے شام اور عراق میں بعث پارٹی قائم کی جس کا مقصد اسلام کو ختم کرنا تھا۔ شام میں حافظ الاسد نے اقتدار سنبھالا اور عراق میں صدام حسین نے اقتدار حاصل کیا۔ صدام کا ایران پر حملہ عفلق کی موجودگی کا پہلا منفی اثر تھا۔
عراق میں امریکیوں کی موجودگی نے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے قیام کی راہ ہموار کی۔ عراقی عوام نے ایران کی مدد سے داعش کو شکست دی، لیکن امریکہ اب بھی عراق میں موجود ہے۔ لبنان نے ایران اور حزب اللہ کی حمایت سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی، اور یمن نے حوثیوں کی طاقت سے سعودی عرب اور وهابیت کا مقابلہ کیا۔ ترکی نے بھی امریکی افواج کی موجودگی میں اہم کردار ادا کیا اور ادلب میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی۔
حماس اور اس کے اتحادیوں کے اسرائیل پر حملے اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد، صرف حزب اللہ نے فلسطینیوں کی مدد کی۔ مزاحمتی محور کے ممالک، جیسے ایران، عراق، شام، اور یمن نے بھی فلسطینیوں کی حمایت کی۔ ترکی نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی، اور اسرائیل نے شام کے کچھ حصے پر قبضہ کیا۔ مغربی ممالک نے ان اقدامات کی توثیق کی۔ خطے کے دوستوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ آگ بھڑکانے میں کسی بھی قسم کی مدد فوری طور پر انہی کے خلاف پلٹے گی اور انہیں چاہیے کہ غیروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہیں ۔
ڈاکٹر علی اکبر ولایتی، رہبر انقلاب اسلامی کے بین الاقوامی امور کے مشیر
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں