فاران تجزیاتی خبرنامہ: موجودہ شام کے تلخ واقعات اور المناک حالات، “اسرائیل کے سلسلہ سے طویل المدت حکمت عملی” کا حصہ ہیں، جس کی قیادت “یہودی بین الاقوامی عالمی تنظیم” کر رہی ہے۔
مهر نیوز ایجنسی شعبہ ثقافت و ادب نے ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ شام کے موجودہ بحران میں تین کلیدی غیرملکی کردار، یعنی ترکی، روس اور ایران نے، بشار الاسد (صدر شام) اور مخالف گروہوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک پر قابو پانے کے لیے دہشت گردوں کا استعمال ناقابلِ قبول ہے۔ یہ مطالبہ قطر میں “دوحہ فورم” کے اجلاس کے دوران کیا گیا، تاکہ شام میں جاری تنازعات کا خاتمہ کیا جا سکے اور ملک کی وحدت و یکجہتی کو برقرار رکھا جا سکے۔
اس حوالے سے، محمدتقی تقیپور، جو یہودیت اور صہیونیت کے محقق ہیں، نے “شام کا معمہ اور بحرانِ شناخت کا سیاہ سایہ” کے عنوان سے ایک یادداشت مهر نیوز ایجنسی کو فراہم کی، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
شام کے موجودہ تلخ حالات اور المناک تبدیلیاں، اس ملک میں عوام کی جانب سے حکومت اور اقتدار کی تبدیلی کا عمل نہیں ہیں بلکہ یہ “اسرائیل کی طویل المدت حکمت عملی” کا حصہ ہیں، جس کی قیادت “یہودی بین الاقوامی عالمی تنظیم” کر رہی ہے۔
یہ “حکمت عملی” اسرائیل کے ناجائز ریاست کے قیام کے فوراً بعد، ایک شخص “زاسلانی” (Zaslani) المعروف “ریوون شیلوح” (Reuven Shiloah) کی جانب سے ترتیب دی گئی، جو موساد کے پہلے سربراہ اور اس جاسوسی و انٹیلیجنس ایجنسی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ اس حکمت عملی کو “عالمی صہیونی تنظیم” کی ڈاکٹربن کے گرد گردش کرتی پالیسی کے تحت “ڈیوڈ بن گوریون” اسرائیل کے پہلے وزیرِ اعظم کی نگرانی میں عملی جامہ پہنایا گیا۔
موجودہ دستاویزات اور تاریخی شواہد کے مطابق، گزشتہ ۷۵ برسوں میں مغربی ایشیا سے لے کر افریقہ کے شاخ تک کے علاقے میں زیادہ تر جنگیں، آگ بھڑکانے اور سازشیں اسی حکمت عملی کے تحت شروع کی گئی ہیں۔
اس پرانے شیطانی منصوبے کے خطرے اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے “اسرائیل کی طویل المدت حکمت عملی” نامی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ کتاب ۱۳۸۳ شمسی میں “مؤسسه مطالعات و پژوهشهای سیاسی” کی جانب سے شائع کی گئی تھی اور اب تک پانچ مرتبہ دوبارہ شائع ہو چکی ہے۔
یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم ممالک، خاص طور پر ایران کے پالیسی ساز، ماہرینِ سیاست اور تجزیہ کار شناختی بحران کا شکار نہ ہوتے یا ان کی تاریخی یادداشت دھندلا نہ گئی ہوتی، تو وہ شام کے بحران کے مستقبل کی پیش بینی اور اس کے تجزیے میں اتنی بڑی غلطیاں نہ کرتے۔
ذہنی محدودیت اور فکری معادلات میں انحراف، شناخت کے سب سے بڑے موانع میں سے ہیں، جن کا نتیجہ واقعات کے تجزیے میں خطا، مستقبل کے حالات کی پیش بینی میں غلطی، اور اصل کرداروں اور سازشی عناصر کی شناخت میں ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیری ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں