شام کے حوالے سے تجزیاتی غلطی (روز نامہ کیہان کا کالم)

 مزاحمت سے ایک ٹھکانہ چھیننا اور پھر اسے وسعت دینا ایک 46 سالہ کوشش کی کہانی ہے، لیکن بعض لوگ تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر باقی معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کے حالات کو بھی اسی بنیاد پر بیان کرتے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مزاحمت سے ایک ٹھکانہ چھیننا اور پھر اسے وسعت دینا ایک 46 سالہ کوشش کی کہانی ہے، لیکن بعض لوگ تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر باقی معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کے حالات کو بھی اسی بنیاد پر بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اوقات میں ایسے بے شمار تجزیے دیکھنے کو ملے جو ایک واقعے کے نتائج کو دیگر واقعات پر منطبق کرتے ہیں، اور آج ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک غلط تطبیق تھی۔

موجودہ حالات میں، ہم نے خطے میں ایک مزاحمتی حکومت کے سقوط کا مشاہدہ کیا ہے اور اعتراف کرنا چاہیے کہ دشمنوں نے مزاحمت کے محاذ سے ایک اہم ٹھکانہ چھین لیا ہے۔ لیکن یہ سوچنا غلط ہوگا کہ خطے کی صورتحال اور تبدیلیاں مزاحمت پر مخالفین کی مکمل فتح کی جانب گامزن ہیں۔ گزشتہ 46 سال کی تبدیلیوں کا جائزہ اس سوچ کی غلطی کو واضح کرتا ہے۔

1982ء میں، خرمشہر کو ایرانی افواج کے ہاتھوں آزاد کرانے کے تقریباً دو ہفتے بعد، صیہونی ریاست نے لبنان میں داخلی جھگڑوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر حملہ کیا اور لبنان کے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا جو زیادہ تر شیعہ آبادی پر مشتمل تھے۔ اسرائیلی فوج کے اس فوری حملے اور لبنان کی شدید فوجی کمزوری نے یہ تصور پیدا کیا کہ لبنان پر قبضہ مستقل ہوگا۔ اس وقت عرب اور غیر عرب میڈیا میں کئی تجزیے سامنے آئے جو اسرائیلی فوج کے شام پر جلد حملے کی پیش گوئی کرتے تھے۔ لیکن ان تمام تجزیوں کے برخلاف، چار سال بعد، 1986ء میں اسرائیلی فوج نے بیروت اور اس کے شمالی و مشرقی علاقوں سے پیچھے ہٹ کر اپنی پہلی پسپائی کا اعلان کیا۔ اس وقت شہید سید حسن نصراللہ، حزب اللہ کے بیروت کے علاقے کے عسکری کمانڈر تھے۔
ایک اور واقعہ میڈرڈ مذاکرات اور اوسلو معاہدہ تھا جو 1993ء میں ہوا۔ اس وقت مغربی، عرب، روسی، چینی، اسرائیلی اور فلسطینی تنظیم آزادی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کا ظاہری مقصد فلسطین کے مسئلے کا حتمی حل اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعہ کا تصفیہ تھا، لیکن اس کا پس منظر اسرائیل کو مستحکم کرنا اور فلسطین کو خطے کے معادلے سے خارج کرنا تھا۔ اس وقت ماحول اتنا اس اوسلو معاہدے کے حق میں تھا کہ کچھ علاقائی دوست ہمارے حکام سے کہتے تھے، “مسئلہ ختم ہو چکا ہے اور ایک عالمی معاہدے کو نظرانداز کرنا پاگل پن ہے۔” لیکن اس کے برخلاف جو توقع کی جارہی تھی، مذاکرات اور معاہدہ، دراصل اوسلو پلان، مسئلے کا حل نہیں نکال سکا اور 2000ء کی انتفاضہ تک پہنچا، جس میں دونوں طرفوں کے درمیان عسکری لڑائی نے مصالحت کی جگہ لے لی اور فلسطینی تنظیم آزادی کے بجائے نئی جہادی تنظیموں نے قیادت سنبھال لی۔ یہ اس وقت ہوا جب، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، اوسلو کے اہداف کے حصول کے لیے تمام یورپی، امریکی، عربی، اسرائیلی، روسی، چینی حکومتیں، اقوام متحدہ اور فلسطین کی سب سے بڑی تنظیم بھی متفق تھی۔
ایک اور واقعہ 2003 کے آخر یا 2003 کے بہار کے آغاز میں عراق کی امریکی اور برطانوی افواج کے ذریعے فوجی تسلط تھا۔ اس معاملے میں تمام تجزیے اور تصورات یہ تھے کہ ایران کا کام ختم ہوگیا ہے، اس لیے ایران یا تو اپنی تمام داخلی اور خارجی پالیسیوں کو بدل دے گا، یا پھر افغانستان اور عراق کی حکومتوں کی طرح مٹ جائے گا۔ اس وقت تک ” مزاحمتی محاذ” موجود نہیں تھا اور شام، سوڈان اور حزب اللہ کے ایران کے ساتھ تعلقات تھے۔ ماحول اتنا غلیظ تھا کہ ایران کے وقت کے وزارت خارجہ کے ایک نائب وزیر نے ایک عجیب قدم اٹھاتے ہوئے سوئس سفارتخانے کے ذریعے، جو ایران میں امریکہ کے مفادات کا محافظ تھا، امریکہ کے وزارت خارجہ کو ایک فیکس بھیجا جس میں کہا گیا “ایران اپنے تمام اختلافات امریکہ کے ساتھ اس طرح حل کرنے کے لیے تیار ہے کہ جس سے امریکہ خوش ہو جائے۔” اسی ماحول میں ایران کی پارلیمنٹ کے 123 ارکان نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے رہبرانقلاب اسلامی سے ایران کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کیا! اسی دوران برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بصرہ میں تعینات برطانوی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا “جو کچھ افغانستان اور عراق میں ہوا، وہ ایران کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرے۔” لیکن اس کے برخلاف جو توقع کی جارہی تھی، صورتحال کچھ اور ہی سامنے آئی اور امریکہ تین سال بعد عراق میں اپنےفوجی قبضےکے بعد فوجی جمود کا شکار ہوگیا اور عراق سے نکلنے کی آوازیں بلند ہو گئیں، اور 2007 میں جارج بش نے عراق کے وقت کے وزیراعظم نوری المالکی کے ساتھ عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کا معاہدہ کیا اور دو سال بعد عراق سے انخلا کا عمل شروع کیا۔ اس سے پہلے، عراق پر امریکی حملے کی پہلی سالگرہ پر، یعنی عراق کی عراقی کونسل کے قیام پر امریکی رضا مندی، امریکہ کی بند راہوں کے پہلے اشارے کے طور پر ظاہر ہوئی تھی۔
امریکہ کے عراق اور افغانستان میں فوجی منصوبے کی ناکامی کے بعد عربی بغاوتوں نے جنم لیا، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ وابستہ روایتی عرب حکومتوں کو ہدف بنایا اور پانچ عرب ممالک میں صورتحال میں تبدیلی کا باعث بنی۔ مغربی ممالک نے ان بغاوتوں کا رخ موڑنے کی کوشش کی، اور اس مقصد کے لیے مختلف تکفیری گروہ تشکیل دیے گئے جنہوں نے تیزی سے علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ گروہ علانیہ اور خفیہ طور پر امریکہ، کچھ یورپی ممالک، ترکی اور زیادہ تر خلیج فارس کے عرب ممالک کی حمایت حاصل کر رہے تھے، لیکن یہ منصوبہ زیادہ دیر تک کامیاب نہ رہا اور 2018 تک عملاً اس پر قابو پا لیا گیا۔ تکفیری گروپوں کے منصوبے کی ناکامی نے مزاحمتی تحریکوں اور محور مزاحمت کو مزید تقویت دی۔
ان تبدیلیوں کے بعد، مغربی ممالک نے ابراہم معاہدہ تیار کیا جو کہ تعلقات کی معمول پر لانے کی کوششوں پر مبنی تھا۔ان تبدیلیوں کے بعد، مغربی ممالک نے ابراہم معاہدہ پیش کیا جو عربی-اسرائیلی تعلقات کو معمول پر لانے پر مبنی تھا اور کچھ عرب ممالک کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ اس وقت جب اوسلو معاہدے کا ماحول دوبارہ بنا، بہت سے لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اب اسرائیل ہی ہے جو خطے کے مستقبل کا تعین کرے گا اور مزاحمتی تحریکوں جیسے “محور مزاحمت” کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ لیکن جلد ہی یہ منصوبہ بھی رک گیا اور یہ عمل سوڈان اور مراکش کے متزلزل الحاق کے بعد ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد، دنیا فلسطینیوں کے غزہ میں حیرت انگیز آپریشن “طوفان الاقصیٰ” سے آگاہ ہوئی۔ فلسطینیوں کا یہ اقدام اتنا مؤثر تھا کہ اس نے خطے کا منظر بدل دیا۔ اسرائیل، جو اس سے پہلے خود کو خطے کا “حاکم” سمجھتا تھا، اچانک اس مقام پر آ گیا جہاں وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل موت اور زندگی کے درمیان میں ہے۔ اسرائیل کے سخت ردعمل اور غزہ پر جنگ کے آغاز کے ساتھ، دنیا اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی، مغربی حکومتوں نے 1967 کے سرحدوں میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی تاکہ صہیونی رژیم کے وحشیانہ حملوں سے پیدا ہونے والے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ بین الاقوامی عدالت نے اسرائیل کے رہنماؤں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ عربی-اسرائیلی تعلقات ٹوٹ گئے اور دنیا بھر میں مزاحمت کو واحد ممکنہ آپشن کے طور پر سراہا گیا۔ اس طرح یہاں ایک بار پھر صورتحال بدل گئی۔اس منظر کے بعد، امریکہ، اسرائیل اور ترکی نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی؛ یہ حکمت عملی دمشق میں حکومت کی تبدیلی تھی۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران شام کی داخلی صورتحال ایسی تھی کہ ایک چھوٹے سے محاذ کی تشکیل بھی سیاسی حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی تھی، لیکن امریکیوں اور اسرائیلیوں نے اپنے خدشات کی بنا پر حکومت کی تبدیلی کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ تاہم، خطے میں حالات کو سنبھالنے میں شدید مشکلات نے انہیں اس حکمت عملی کی ضرورت پر مجبور کر دیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے گذشتہ مرداد (اگست) میں اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: “اگر مشرق وسطیٰ تبدیل نہ ہوا تو ایران اس کے مستقبل کا نقشہ کھینچ دے گا۔” یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے تھے کہ ان کے مطابق ایسی کوئی کارروائی ہونی چاہیے جس سے سب لوگ مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کو محسوس کریں اور اس راستے میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہو جائیں۔

یہ علامتی اقدام “شام میں سیاسی نظام کی تبدیلی” تھا۔ اس موقع پر اسرائیل نے اپنی پچھلی سیکیورٹی خدشات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے شام کے کچھ حصوں پر فوجی کارروائی اور قبضے کا آغاز کیا۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق، دمشق میں ایک روایتی حکومت کا سقوط، جب کہ اس کی متبادل حکومت کی نوعیت مبہم اور خطرناک ہو، ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ غاصب رژیم کو کبھی بھی تکفیری گروہوں جیسے “تحریر الشام” سے کوئی تشویش نہیں رہی، جیسا کہ اس گروہ کے حالیہ بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لہٰذا اسرائیل، امریکہ، ترکی اور عرب خطے کی تشویش کچھ اور ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے علاوہ کون سی چیز اسرائیل کو خطرہ دے سکتی ہے؟ یہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ حزب اللہ لبنان، حشد الشعبی عراق یا انصار اللہ یمن جیسے عوامی مزاحمتی گروہ کا شام میں وجود و بروز ہے۔
https://kayhan.ir/fa/news/302222