شام کے دہشت گرد یا امریکی کٹھپتلیاں

شام میں اس نئی سیکیورٹی فورس میں شامل دہشت گرد، جو 20 مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں، الجولانی حکومت کے لیے سیکیورٹی بازو بن چکے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے فوجی افسران کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی فوج شام میں ایک اہم خفیہ سفارتی کردار ادا کر رہی ہے اور جنگجو گروہوں اور [تحریر الشام کے دہشت گردوں] کی نئی حکومت کے درمیان معاہدے کرانے میں ثالثی کر رہی ہے۔ درحقیقت، امریکہ شام میں تکفیری دہشت گردوں کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔
امریکہ کئی سالوں سے اپنی مفادات کے تحت دنیا بھر میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا آیا ہے، چاہے وہ 1980 کی دہائی کا افغانستان ہو یا حالیہ بحران کے دوران شام۔ شام میں، امریکہ نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر دہشت گرد گروہوں جیسے کہ جبہۃ النصرہ (جو بعد میں ہیئت تحریر الشام کہلایا) اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی حمایت کی۔ اس کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام، تباہی اور نسل کشی پھیلی۔ ایک وقت ایسا تھا جب امریکہ ان دہشت گرد گروہوں کو “معتدل باغی” کہہ کر ان کی حمایت کرتا تھا اور اپنے اتحادیوں جیسے ترکی، سعودی عرب اور قطر کے ذریعے انہیں مالی اور عسکری مدد فراہم کرتا تھا۔ تاہم، نہ تو اس سے شامی حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا، بلکہ اس کی بجائے ان دہشت گردانہ گروہوں کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں جیسے کہ شیعہ، علوی اور مسیحیوں کے قتل عام جیسے بھیانک واقعات رونما ہوئے۔ آخرکار، یہ منحوس سازش کامیاب ہوئی، مرکزی حکومت گر گئی اور شام دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
حالیہ برسوں میں، بعض امریکی سیاسی شخصیات نے بھی ان حقائق کو تسلیم کیا ہے، اگرچہ مخصوص نقطہ نظر کے ساتھ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب جی۔ ڈی۔ ونس نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکہ کی مداخلت پسند پالیسیوں کے نتائج کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:
“جب امریکہ ان نام نہاد اسلامی باغیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا، جیسا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا کی خواہش تھی کہ وہ ایک ملک (شام) پر قبضہ کریں، تو وہ مذہبی اقلیتیں، خاص طور پر مسیحی تھے، جو تباہ ہوئے۔ ہم دوبارہ یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ ایک اور مسیحی کمیونٹی زمین سے مٹ جائے!… عراق پر ہمارے حملے کے نتیجے میں، ہم نے دنیا کی ایک بڑی تاریخی مسیحی برادری کو تباہ کر دیا، اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ دوبارہ ہو۔ یقینی طور پر ہم شام میں فوج نہیں بھیجیں گے، لیکن سفارتی اور اقتصادی لحاظ سے ان گروہوں کی حفاظت کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔”
اگرچہ ان الفاظ میں کچھ سچائی ہے، مگر ان میں ایک محدود نقطہ نظر بھی جھلکتا ہے۔ ونس یہ نہیں بتاتے کہ امریکہ کی دہشت گردوں کی حمایت کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان، خاص طور پر شیعہ تھے، چاہے وہ عراق ہو، شام ہو یا یمن۔ شام کے ساحلی علاقوں میں شیعہ نسل کشی، اہل بیت اطہار علیھم السلام کے مزارات پر بم دھماکے، اور لاکھوں مسلمانوں کی جبری ہجرت، سبھی واشنگٹن کی جنگجویانہ پالیسیوں اور تکفیری گروہوں کی کھلی یا چھپی حمایت کا نتیجہ ہیں۔ ونس کے الفاظ کچھ اور طریقے سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ بعد میں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں واضح ہوتا ہے کہ امریکہ شام میں دہشت گردوں کی حکمرانی مستحکم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ: شام میں امریکہ کا کردار

امریکی فوجی افسران کا کہنا ہے کہ امریکی فوج شام میں ایک اہم اور خفیہ سفارتی کردار ادا کر رہی ہے اور وہ باغی گروہوں اور نئی حکومت کے درمیان مذاکرات کی ثالثی کر رہی ہے۔ ایسنا کے مطابق، وال اسٹریٹ جرنل نے ان ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ شام میں موجود امریکی افواج، جو داعش کی واپسی کو روکنے کے بہانے تعینات ہیں، ایک ایسا معاہدہ کروانے میں مصروف ہیں جس کے ذریعے دمشق کی نئی حکومت اور امریکہ کے حمایت یافتہ کرد جنگجو، جو شمال مشرقی شام کا کنٹرول رکھتے ہیں، قریب لائے جا سکیں۔
امریکی افسران نے جنوبی مشرقی شام میں التنف فوجی اڈے کے قریب آزاد شامی فوج نامی ایک اور باغی گروہ کو بھی ترغیب دی کہ وہ ان سابقہ باغیوں کے ساتھ امن معاہدہ کریں، جنہوں نے اسد حکومت کو ختم کیا تھا اور اب خود حکومت چلا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ دہشت گرد حکمرانی کو مضبوط کرنے اور دہشت گردوں کو قانونی حیثیت دلانے کے مترادف ہے! یہ واضح کرتا ہے کہ دراصل واشنگٹن شام میں کرائے کے دہشت گردوں کے ذریعے اپنا کھیل رچا رہا ہے۔

امریکہ پوری طاقت سے دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے

امریکی سینٹرل کمانڈ، جو مشرق وسطیٰ [مغربی ایشیا] میں امریکی فوجی کارروائیوں کی ذمہ دار ہے، نے شام میں مذاکرات میں امریکہ کے کردار پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ شامی حکومت اور کردوں کی زیرقیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز نے بھی امریکہ کے کردار پر رائے دینے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ شامی سرکاری میڈیا نے کہا کہ یہ معاہدہ ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے شام کے نئے حکمرانوں کے بارے میں غیرجانبدار رویہ اختیار کیا ہے، جن میں سے بیشتر کا تعلق ہیئت تحریر الشام سے ہے، جو کہ ماضی میں القاعدہ سے وابستہ رہا ہے۔ امریکی حکومت نے ان سے کہا ہے کہ وہ ایک جامع حکومت تشکیل دیں، تاہم کچھ اعلیٰ حکام ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی نیت پر شک کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکہ دہشت گردوں کی مکمل حمایت میں مصروف

عراقی ماہر اقتصادیات رشید الحمدانی کا کہنا ہے کہ:
“ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرقیادت نئی امریکی حکومت اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی تمام تر معاشی اور فوجی صلاحیتوں کو شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور ان کے لیے وسائل فراہم کرنے پر مرکوز کر رہی ہے۔”
عراقی ویب سائٹ المعلومہ سے بات کرتے ہوئے، الحمدانی نے وضاحت کی کہ ٹرمپ کی پالیسی کا بنیادی مقصد ابومحمد الجولانی کو دمشق پر قابض کرنا اور دہشت گرد گروہوں کو مالی اور فوجی مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ براہ راست اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کر رہا ہے اور ان پر لگنے والے الزامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ خاص طور پر اس وقت واضح ہو گیا جب امریکہ نے پہلے ابومحمد الجولانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو 10 ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن بعد میں جب کچھ امریکی سفارت کاروں نے دمشق کا دورہ کیا، تو واشنگٹن نے اعلان کیا کہ وہ احمد الشرع، جو ابومحمد الجولانی کے نام سے مشہور ہے، کی گرفتاری پر رکھا گیا انعام واپس لے رہا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس: شام ایک پراکسی جنگ کا میدان بن گیا ہے

اس سے پہلے، اسی اخبار میں آپ نے پڑھا تھا کہ:
“وہ لوگ جو شام کے حالات کو گہرائی سے سمجھ رہے تھے، وہ نہ صرف ان دہشت گردوں کے سیاہ ماضی پر تشویش میں مبتلا تھے، جنہیں شام کا کنٹرول دیا جا رہا تھا، بلکہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے متضاد مفادات پر بھی فکر مند تھے، کیونکہ یہ سب مل کر شام کی سرزمین کو اپنی جنگ کا میدان بنا دیں گے۔ اس جنگ میں سب سے غیر اہم چیز شامی عوام کی جان و مال اور زندگی ہو گی۔”
اب ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی اسی حقیقت کی تصدیق کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھا ہے:
“اسرائیل کو شام میں ترکی کی فوجی موجودگی میں اضافے کے امکان پر تشویش ہے۔ اسرائیل ایک تقسیم شدہ شام کو ترجیح دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ، ترکی کے برعکس، جو ایک مستحکم اور مضبوط شام کی حمایت کرتا ہے، اس تقسیم سے اسرائیل کی سلامتی میں اضافہ ہوگا۔ اسرائیل ترکی کے ساتھ تعاون کر کے شام میں کسی ممکنہ فوجی تصادم کے خطرے کو کم کرنے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔”
ایسوسی ایٹڈ پریس نے واشنگٹن کے بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے حوالے سے مزید لکھا:
“شام ترکی اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔”
یہ خبر رساں ادارہ مزید لکھتا ہے:
“ترکی اور اسرائیل کے درمیان شام کے مستقبل کے حوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے، خاص طور پر اسد حکومت کے بعد کے منظرنامے پر۔ اسرائیل کو شام میں ترکی کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی پر تشویش ہے۔ 2016 کے بعد سے، ترکی نے شمالی شام میں ایک فوجی آپریشن شروع کیا تاکہ ان کرد ملیشیاؤں کو پیچھے دھکیلا جا سکے، جو پی کے کے سے وابستہ ہیں۔ ترکی نے فوجی اڈے قائم کر کے اور اسد مخالف گروہوں کے ساتھ اتحاد بنا کر شمالی شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔”

لاپتہ فوجی!

شورش زدہ شام سے ایک اور خبر یہ ہے کہ باخبر ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ تقریباً 2,000 شامی فوجی، جو بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے دوران عراق فرار ہو گئے تھے، چند ہفتے گزرنے کے بعد رضاکارانہ طور پر شام واپس آ گئے۔
تاہم، الجولانی کی دہشت گرد حکومت سے وابستہ عناصر نے عراقی سرحد سے ان فوجیوں کو تحویل میں لے لیا اور وعدہ کیا کہ انہیں محفوظ طریقے سے ان کے گھروں تک پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک ان میں سے نصف فوجی اپنے گھروں کو نہیں پہنچے!
جیسا کہ نیوز اینجسی “مہر” نے رپورٹ کیا، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان شامی فوجیوں کا انجام ابھی تک غیر واضح ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں الجولانی حکومت کے حراستی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ان فوجیوں کے اہلِ خانہ بھی شام پر قابض دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائیوں کے خوف سے خاموش ہیں، تاہم وہ اپنی تشویش بین الاقوامی تنظیموں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

20 ممالک کے دہشت گردوں پر مشتمل سیکیورٹی ڈھانچہ!

یہ اطلاعات کہ شورش زدہ شام مکمل انتشار کا شکار ہو چکا ہے اور غیر ملکی دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، مسلسل منظر عام پر آ رہی ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق، الجولانی کی دہشت گرد حکومت نے ایک نیا سیکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے، جس میں 20 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد شامل ہیں!

یہ اقدام کسی بھی اسلامی یا عرب ملک میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
شام میں اس نئی سیکیورٹی فورس میں شامل دہشت گرد، جو 20 مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں، الجولانی حکومت کے لیے سیکیورٹی بازو بن چکے ہیں۔
ان غیر ملکی دہشت گردوں میں آذربائیجان، چیچنیا، ازبکستان اور دیگر کئی ایشیائی ممالک کے شدت پسند شامل ہیں، جو الجولانی حکومت کے سیکیورٹی ادارے میں اہم ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں!
یہ دہشت گرد گزشتہ چند دنوں میں شام میں بڑے پیمانے پر خونریزی میں ملوث رہے ہیں، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شام کی سرزمین مکمل طور پر غیر ملکی شدت پسندوں کے کنٹرول میں آ چکی ہے، اور اس کے اثرات بہت خوفناک اور وسیع پیمانے پر پھیل رہے ہیں۔