فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شام کے عوام کو امید ہے کہ مسلح گروہ تحریر الشام کے کمانڈر الجولانی ملک کو آزادی اور جمہوریت کی طرف لے جائیں گے، ملک کے لیے ایک مضبوط فوج اور معیشت کی تعمیر کریں گے اور شام کی حیثیت کو برقرار رکھیں گے، جبکہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں اگلے چار سال تک صدارتی انتخابات نہیں ہوں گے۔
العالم کی رپورٹ کے مطابق، الیکٹرونک جریدے رائے الیوم نے خالد الجیوسی کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں شام کے داخلی مسائل، دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات اور مستقبل کے چیلنجوں کے تناظر میں صورتحال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے: “ایسا لگتا ہے کہ الجولانی میڈیا اور میڈیا انٹرویوز میں آنے کے شوقین ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس شخص کے پاس میڈیا کی خواندگی نہیں ہے، لیکن وہ اس کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے، لہذا وہ میڈیا میں اپنی مسلسل موجودگی کے ذریعے ایک حکومتی رہنما کے طور پر اپنا ایک نیا امیج بنانے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ مشن ایک مشکل اور وقت طلب کام ہے اور اس کے سامنے بہت سی رکاوٹیں ہیں۔
الجولانی اور سعودی عرب
دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی میڈیا نے الجولانی کی تعریف کرنا شروع کر دی ہے اور انہیں ان کا پیغام موصول ہوا ہے اور انہوں نے مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب شام میں استحکام کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اعلان کیا کہ شام کے بارے میں سعودی عرب کی پالیسیاں فخر کا باعث ہیں اور یہ شام کے مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گی۔ درحقیقت الجولانی سعودی عرب کی معاشی صورتحال کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور شام کی تعمیر نو کے لیے ان کی تمام امیدیں سعودی عرب پر منحصر ہیں۔
ریاض کے لئے چاپلوسی
سعودی عرب کے حوالے سے تازہ ترین بیان میں الجولانی نے ریاض میں اپنی پیدائش اور 7 سال کی عمر تک اس شہر میں قیام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دل شہر کے لیے گھبرایا ہوا ہے اور انہیں امید ہے کہ انہیں اس بار ریاض میں باضابطہ طور پر مدعو کیا جائے گا۔
اگرچہ شام میں سلامتی کی ضمانت دینے کے لئے نئی حکومت کی توانائی پر ابھی سوالیہ نشان ہے، الجولانی نے دعوی کیا ، “شام کی آزادی اگلے 50 سالوں تک خطے اور خلیج فارس کی سلامتی کی ضمانت دے گی۔
کیا شام میں صدارتی عہدہ خالی رہے گا؟
الجولانی نے اعلان کیا ہے کہ ملک کے نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں تقریبا تین سال لگیں گے اور انتخابات کے انعقاد میں چار سال لگ سکتے ہیں۔ اس سے ملک کی صورت حال کے بارے میں سوالات کھڑے ہو گئے ہیں، بشمول اس عرصے کے دوران شام کو کون چلائے گا۔ آئین کون لکھے گا؟ اور جب صدارتی انتخابات کی شرائط میں چار سال لگیں گے تو کیا اس دوران یہ عہدہ خالی رہے گا؟
الجولانی نے کہا کہ شام اس قانون کو دوبارہ لکھنے کے عمل میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “نیشنل ڈائیلاگ کانگریس” میں ملک کے تمام طبقات موجود ہوں گے اور اس کانگریس میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی اور ووٹنگ ہوگی۔
الجولانی مردوں کی ایک کابینہ
صدر بشار الاسد کی حکومت کے مخالفین نے عبوری حکومت میں تحریر الشام عناصر کی دوبارہ تقرری پر تنقید کی ہے۔ الجولانی کے مطابق آئین لکھنے میں تین سال اور صدارتی انتخابات کی تیاری میں چار سال لگیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اس مرحلے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ تقرریاں ناگزیر ہیں اور ہمارا کسی بھی طرح سے دوسروں کو ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’
انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس مرحلے پر عہدوں کا کوٹہ اقتدار کی منتقلی کے عمل کو تباہ کردے گا۔
الجولانی، ایران اور روس
الجولانی نے پہلے کے مقابلے میں نرم لہجے میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ تہران ‘علاقائی معاملات میں مداخلت’ اور عمومی طور پر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “بہت سے لوگ خطے میں ایران کے مثبت کردار کے منتظر ہیں۔
یقینا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ شام اور روس کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔ الجولانی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ روس نئے شام کے ساتھ تعلقات میں نامناسب رویہ اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ روس دنیا کا دوسرا طاقتور ترین ملک ہے اور یہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ دمشق کے روس کے ساتھ اسٹریٹجک مفادات ہیں۔
شام کا ٹوٹنا!
جہاں تک شام کے ٹوٹنے کے امکان کا تعلق ہے، الجولانی نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ حکومت شمال مشرقی شام میں بحران کو حل کرنے کے لئے شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور کرد ایس ڈی ایف کو سرکاری مسلح افواج میں ضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرد شام کے آبادیاتی تانے بانے کا لازمی حصہ ہیں اور ملک کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
کیا شامی عورت کی قسمت افغان عورت سے ملتی جلتی ہوگی؟
آئین کا مسودہ تیار ہونے اور انتخابات کے انعقاد ہونے تک کے چار سال شامی خواتین کے لیے تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ تحریر الشام گروپ اب ملک چلا رہا ہے اور اگرچہ الجولانی نے اس گروپ کو تحلیل کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن عبوری حکومت کے تمام ارکان اب تحریر الشام سے ہیں، اور عبوری حکومت میں واحد خاتون عائشہ الدبس ہیں، جو “خواتین کے امور کے دفتر کی سربراہ” ہیں۔ اور اس خاتون کی تازہ ترین تقریر نے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
الدبس نے کہا کہ شام کی نئی حکومت شامی خواتین کے وقار کے لیے موزوں حالات اور ماڈل بنانے کی کوشش کرے گی۔ ان بیانات نے ان حالات کی نوعیت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا شام میں خواتین کے لیے طالبان کے افغانستان جیسی صورتحال پیدا ہوگی؟۔ کیونکہ طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ خواتین کے حالات بہتر ہوں گے لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی عائد کر دی۔
خوف اور امیدیں
بہرحال، شامیوں کو ایک نئے شام کے بارے میں بہت زیادہ امیدیں ہیں، جبکہ تحریر الشام کے پس منظر کے پیش نظر حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بھی شدید خدشات ہیں۔ حکومت نے امن اور انتقام سے بچنے کے نعرے کے ساتھ اپنا کام شروع کیا ہے، حالانکہ ملک کے مختلف کونوں میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی اور شامی افواج کے ساتھ پرتشدد سلوک کے واقعات پیش آئے ہیں۔ تاہم الجولانی نے اس سخت رویے کو ‘بحران کی شدت’ کے مقابلے میں غیر اہم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ‘سابقہ حکومت نے شامی معاشرے میں وسیع پیمانے پر اختلافات چھوڑے ہیں’۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام مجرموں کو سزا دی جائے گی اور یہ ایک “اچھی بات” ہے، کہا کہ “پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شامی عوام پرامن ہیں۔” لیکن آنے والے دنوں میں سب کچھ واضح ہو جائے گا۔
مصنف : ترجمہ جعفری ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں