شہادت پسند کاروائیاں اور صہیونی رژیم کی بے بسی

غاصب صہیونی رژیم کے خوف و ہراس کی دوسری بڑی وجہ شہادت پسند کاروائی کا مقابلہ کرنے میں صہیونی سکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔ شہادت پسند فلسطینی جوان پوری آزادی سے بنی براک شہر کے تین حصوں میں کاروائی انجام دینے میں کامیاب رہا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ بنی گانٹز چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے ناقص سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے شدید تنقید سے روبرو ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کے ردعمل میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی شہادت پسند کاروائیوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک شخص اچانک چاقو لے کر مزاحمتی کاروائی انجام دیتا ہے لہذا اس کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے۔ انٹرویو لینے والے اینکر پرسن نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا: حالیہ حملے صرف چاقو کے ذریعے انجام نہیں پائے بلکہ تازہ ترین دو کاروائیوں میں اسلحہ استعمال ہوا ہے اور ایسی کاروائی انجام دینے کیلئے پیچیدہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ اینکر پرسن نے الخضیرہ اور بنی براک میں انجام پانے والی کاروائیوں کی جانب اشارہ کیا۔

صہیونی وزیر جنگ بنی گانٹز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسرائیل انتہائی مشکل اور دردناک صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والے دن ہمارے لئے بہت مشکل ہوں گے۔ یاد رہے کچھ دن پہلے مغربی کنارے کے شمال میں جنین شہر کے قریب واقع گاوں “یعبد” میں اسرائیلی قید سے آزاد ہونے والے فلسطینی جوان ضیاء حمارشہ نے شہادت پسند کاروائی انجام دی جس میں ایک پولیس سمیت پانچ صہیونی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی میڈیا نے صہیونی حکمرانوں میں پائے جانے والے شدید خوف و ہراس کی خبر دیتے ہوئے اعلان کیا کہ تل ابیب ایک بار پھر بدامنی اور خوف کا شکار ہو چکا ہے۔ صہیونی میڈیا کے مطابق اس کاروائی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے 2002ء میں فلسطینیوں کی شہادت پسند کاروائیوں سے بچنے کیلئے یہودی بستیوں کے گرد دیوار تعمیر کر دی تھی۔ دوسری طرف صہیونی سکیورٹی حکام نے پورے مقبوضہ فلسطین میں ہائی ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اسی طرح صہیونی رژیم کے چیف آف آرمی اسٹاف ایویو کاخاوے نے مغربی کنارے میں مزید فوج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم حالیہ شہادت پسند کاروائی سے اس قدر ہراساں اور وحشت زدہ کیوں ہو گئی ہے؟ اور یہ کاروائی صہیونی رژیم کیلئے کیا پیغام لئے ہوئے ہے؟ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ صہیونی رژیم کے اس خوف و ہراس کی بڑی وجہ اس شہادت پسند کاروائی کا تل ابیب کے قریب انجام پانا ہے۔

غاصب صہیونی رژیم کے خوف و ہراس کی دوسری بڑی وجہ شہادت پسند کاروائی کا مقابلہ کرنے میں صہیونی سکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔ شہادت پسند فلسطینی جوان پوری آزادی سے بنی براک شہر کے تین حصوں میں کاروائی انجام دینے میں کامیاب رہا۔ صہیونی حکمرانوں کی وحشت کی سب سے اہم وجہ ان کا یہ خوف ہے کہ کہیں حالیہ شہادت پسند کاروائی مقبوضہ فلسطین کے اندر مزید مزاحمتی کاروائیوں کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو جائے۔ ان کی نظر میں ایسی شہادت پسند کاروائیاں مقبوضہ فلسطین کے اندر ایک نیا انتفاضہ جنم دے سکتا ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کا اعتراف نیفتالی بینت نے بھی کیا اور اسے “مہلک عرب دہشت گردانہ لہر” کا نام دیا تھا۔ اب تک صہیونی حکام کئی بار مقبوضہ فلسطین میں مقیم فلسطینیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

مقبوضہ فلسطین میں مقیم فلسطینیوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بھی صہیونی حکمرانوں کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ عنقریب مقبوضہ فلسطین میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمت نے غاصب صہیونی رژیم کو شدید اندرونی چیلنجز سے روبرو کر دیا ہے۔ مختلف مواقع پر ابھر کر سامنے آنے والے ان چیلنجز نے ثابت کر دیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں مقیم فلسطینی شہریوں اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کے درمیان اتحاد تشکیل پا چکا ہے اور وہ امت واحدہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ لہذا ہر اہم موقع پر وہ ایکدوسرے کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ ماہ پہلے قدس شریف میں شیخ جراح محلے پر صہیونی فورسز کی جارحیت کے جواب میں غزہ سے حماس نے اسرائیل پر میزائل حملے انجام دیے تھے۔

غزہ کی پٹی سے مقبوضہ فلسطین میں واقع یہودی بستیوں کی جانب آگ لگانے والے غبارے اور پتنگ بھی چھوڑے جاتے ہیں جنہوں نے صہیونیوں کو انتہائی خوفزدہ کر رکھا ہے۔ بعض مواقع پر تو ان غباروں اور پتنگوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر آگ بھی جل اٹھی تھی۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اس وقت شدید تذبذب کا شکار ہے۔ ایک طرف اس کے گرد اسلامی مزاحمتی کاروائیوں کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جنگ شروع کرنے سے بھی عاجز ہے۔ سکیورٹی ماہرین اسے صہیونی رژیم کیلئے شدید ترین چیلنج قرار دے رہے ہیں اور عنقریب اس رژیم کے زوال اور خاتمے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔