شہید حسن نصراللہ کے دیرینہ ساتھی: میدانِ جہاد سے شہادت تک – سید ہاشم صفی الدین رضوان اللہ تعالی علیہ

سید ہاشم صفی الدین، جو ظاہری طور پر اپنے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے شہید سید حسن نصراللہ سے مشابہت رکھتے تھے، کئی سالوں سے ان کے ممکنہ جانشین کے طور پر عوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سید ہاشم صفی الدین، جو ظاہری طور پر اپنے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے شہید سید حسن نصراللہ سے مشابہت رکھتے تھے، کئی سالوں سے ان کے ممکنہ جانشین کے طور پر عوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔

وہ سید شہداءِ مقاومت کے دیرینہ ساتھی تھے اور اپنی شہادت کے وقت حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
سید ہاشم صفی الدین، جن کا نام 16 سال قبل ممکنہ جانشین کے طور پر سامنے آیا تھا، 4 اکتوبر 2024 (13 مهر 1403 شمسی) کو صیہونی فضائی حملے میں بیروت میں شہید ہو گئے۔

خاندانی پس منظر

سید ہاشم صفی الدین، سید حسن نصراللہ کے چچا زاد بھائی تھے۔
ان کے بھائی عبداللہ صفی الدین حزب اللہ کے ایران میں نمائندہ کے طور پر سرگرم ہیں، جبکہ ان کے بیٹے رضا صفی الدین، شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کی صاحبزادی زینب سلیمانی کے شوہر ہیں۔

ابتدائی زندگی

سید ہاشم صفی الدین 1964 (1343 شمسی) میں جنوبی لبنان کے ایک مشہور اور بااثر خاندان میں پیدا ہوئے۔
1983 میں، وہ دینی علوم کی تعلیم کے لیے قم روانہ ہوئے، اس سے قبل انہوں نے سید محمدعلی امین کی بیٹی سے شادی کی، جو لبنان کی اعلیٰ اسلامی شیعہ کونسل کے رکن تھے۔
انہوں نے نجف کے دینی مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کی، اور بعد میں سید حسن نصراللہ کی دعوت پر لبنان واپس آئے تاکہ حزب اللہ کے تنظیمی ڈھانچے میں اہم کردار ادا کریں۔
قم میں تعلیم کے دوران، امام خمینی کی پیش کردہ ولایتِ فقیہ کی سیاسی نظریے سے متاثر ہوئے اور اپنی ایک کتاب میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

حزب اللہ میں شمولیت

1982 میں حزب اللہ کی بنیاد کے ساتھ ہی وہ اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ ایران میں دینی علوم کی تکمیل کے بعد، 1992 میں حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ بن گئے۔
وہ حزب اللہ کے 7 رکنی مشاورتی کونسل کے رکن بھی تھے اور کئی اہم امور کی نگرانی کرتے تھے۔
1994 میں، سید حسن نصراللہ نے انہیں بیروت ریجن کا سربراہ مقرر کیا، اور 1995 میں انہوں نے مجلس جہاد کی صدارت سنبھالی، جو حزب اللہ کی فوجی کارروائیوں کی ذمہ دار تھی۔
1998 میں، وہ ایگزیکٹو کونسل کے صدر بنے، جو حزب اللہ کی تمام انتظامی اور مالی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے۔

حزب اللہ میں دوسرا بڑا مقام

سید ہاشم صفی الدین، حزب اللہ کے قیادت کے ڈھانچے میں دوسرا اہم ترین مقام رکھتے تھے اور آخر دم تک حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
یہی نہیں، بلکہ انہیں حزب اللہ کی کئی اہم کارروائیوں کے مغز متفکر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

سرشناس جہادی خاندان

سید ہاشم صفی الدین نہ صرف حزب اللہ میں سرگرم تھے بلکہ 2017 (1396 شمسی) سے لبنان میں ایک غیر منافع بخش تنظیم “انجمن عائلی صفی الدین” کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔
یہ انجمن خاندان صفی الدین کے افراد پر مشتمل تھی اور اس کا مقصد خاندانی ضروریات کو پورا کرنا، باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا، مستحق خاندان کے افراد کی مالی معاونت اور ان کی تعلیم میں مدد فراہم کرنا تھا۔
دستیاب معلومات کے مطابق، خاندان صفی الدین لبنان کے بااثر سماجی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سید محمد صفی الدین 1960 اور 1970 کی دہائی میں اس علاقے کے معروف سیاسی نمائندے رہے ہیں۔

تعلیم اور نظریاتی پس منظر

سید ہاشم صفی الدین نے قم میں دینی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے، ایک مذہبی گھرانے کی بیٹی سے رشتہ کیا بعد ازاں، انہوں نے سید محمد علی امین کی بیٹی سے شادی کی، جو لبنان کی اسلامی شیعہ کونسل کی شرعی کمیٹی کے رکن تھے۔
قم میں قیام کے دوران، ان کے سیاسی نظریات میں بڑی تبدیلی آئی اور وہ نظریۂ ولایت فقیہ کے ایک مضبوط حامی بن گئے۔
اپنی تحریروں میں، انہوں نے قم کے مذہبی علماء کے تجربات اور لبنان میں شیعہ سیاسی تفکر پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق:
“لبنان میں اسلامی شیعہ فکری رجحانات عمومی طور پر نجف کی تعلیمات کی طرف زیادہ مائل تھے اور قم کے اثرات نسبتاً کم تھے۔ لیکن امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اسلامی فکر کے لیے ایک عظیم فتح تھی۔”

مزاحمت کا ذہین منصوبہ ساز

16 سال پہلے ہی ان کا نام حزب اللہ میں سید حسن نصراللہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جانے لگا تھا۔ لیکن حزب اللہ اور لبنانی مزاحمتی قیادت نے یہ فیصلہ کافی پہلے کر لیا تھا۔
2011 میں حزب اللہ کے ایک سابق اہلکار نے انکشاف کیا تھا کہ:
“سید حسن نصراللہ کے 1992 میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بننے کے تقریباً دو سال بعد ہی، 1994 میں، سید ہاشم صفی الدین کو قم سے بیروت بلایا گیا تاکہ وہ حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ بنیں اور تمام تنظیمی و انتظامی معاملات کی ذمہ داری سنبھالیں۔”

لبنان کی سیاست میں، وہ کافی عرصے تک ایک غیر معروف شخصیت رہے۔ لیکن جب سید حسن نصراللہ کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اقدامات سخت کیے گئے، تو سید ہاشم صفی الدین اکثر ان کی نمائندگی کرتے ہوئے حزب اللہ کے تقریبات، خاص طور پر شہداء کے جنازوں میں شرکت کرنے لگے۔
ان کے جہادی تجربے، حکمت اور فیصلہ سازی کی مہارت کی وجہ سے انہیں مزاحمت کا ذہین منصوبہ ساز (مغز متفکر مقاومت) کہا جاتا تھا۔
حزب اللہ کے معروف شہید عماد مغنیہ، جو 2008 میں دمشق میں شہید ہوئے، تین شخصیات کو انتہائی اہم قرار دیتے تھے:

سید حسن نصراللہ

نبیل قاووق

سید ہاشم صفی الدین

یہی وجہ تھی کہ وہ حزب اللہ کے اندر ایک انتہائی اہم مقام رکھتے تھے اور ان کی شہادت، مزاحمت کے لیے ایک بڑا نقصان تصور کی جا رہی ہے۔

پابندیاں اور شہادت

سید ہاشم صفی الدین کو 2008 میں امریکی حکومت نے پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
جون 2023 (خرداد 1402) میں لبنان میں ان کی شہادت کی خبریں گردش کرنے لگیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ تاہم، 6 اکتوبر 2024 (6 مهر 1403) کو اسرائیلی فوج کے لبنان پر حملے کے بعد میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ان حملوں کا اصل ہدف سید ہاشم صفی الدین تھے۔
4 اکتوبر 2024 (13 مهر 1403) کو صیہونیوں کے فضائی حملے میں، بیروت کے ضاحیہ علاقے میں، سید ہاشم صفی الدین شہید ہو گئے۔

حزب اللہ کا شہادت پر بیان

حزب اللہ لبنان نے شیخ سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے بیان جاری کیا:
“ہم شہداء پرور امت، مزاحمت اور کامیابی پر یقین رکھنے والی غیور قوم کو یہ خبر دیتے ہیں کہ قدس کے راستے کے عظیم شہید، حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ، شیخ سید ہاشم صفی الدین، جام شہادت نوش کر گئے۔”
بیان میں مزید کہا گیا:
“سید ہاشم، اپنے بھائی اور حزب اللہ کے سب سے عظیم شہید، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ سے جا ملے۔ وہ سید حسن نصراللہ کے لیے ویسے ہی تھے جیسے حضرت عباس (ع) امام حسین (ع) کے لیے تھے۔ وہ شہید نصراللہ کے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور آزمودہ ساتھی تھے، جو ہر مصیبت اور آزمائش میں ان کا سہارا بنے۔”
“سید ہاشم صفی الدین نے اپنی پوری زندگی حزب اللہ، اسلامی مزاحمت اور اس کے معاشرے کی خدمت میں گزاری۔ برسوں تک، انہوں نے انتہائی ذمہ داری، قابلیت اور ہنر مندی کے ساتھ حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل، اس کے اداروں اور شعبوں کو سنبھالا۔ وہ مجاہدین کے قریب، عوامی حامیوں کے قریب، اور شہداء کے خاندانوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے، یہاں تک کہ خدا نے انہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کر کے کربلا کے شہداء کے قافلے میں شامل کر دیا۔”
لبنانی اسلامی مزاحمت نے اس شہادت پرامام زمانہ (عج)، رہبر معظم انقلاب، اور تمام مجاہدین و حامیانِ مزاحمت کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ:
“ہم اس عظیم شہید کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ ہم مزاحمت اور جہاد کی راہ کو آزادی اور فتح کے حصول تک جاری رکھیں گے۔”