شہید شیخ احمد یاسین کی اٹھارہویں برسی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 18 برس قبل اسی دن حماس کے بانی رہنما احمد اسماعیل یاسین جو شیخ احمد یاسین کے نام سے معروف تھے، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کے اکثر قائدین اور رہنما شیخ احمد یاسین کو “مزاحمت کی علامت” قرار دیتے ہیں۔ ان کی برسی کی مناسبت سے حماس نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: “مزاحمت ہمارا اسٹریٹجک انتخاب ہے۔ حماس، شہداء کے راستے پر گامزن رہے گی اور مزاحمت کو اپنے اسٹریٹجک انتخاب کے طور پر ملت فلسطین کے غصب شدہ حقوق کی واپسی اور غاصب صہیونی رژیم کو فلسطینی سرزمین سے نکال باہر کرنے تک جاری رکھے گی۔” بیانیے میں مزید آیا ہے: “شہداء کا پرچم ہر گز سرنگون نہیں ہو گا جو قدس شریف اور مسجد اقصی کے دفاع میں شہید ہوئے ہیں۔”
شیخ احمد یاسین 1937ء میں غزہ کے جنوب میں واقع مجدل قصبے کے گاوں الجورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی تین برس کے ہی تھے کہ ان کے والد دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 1948ء میں صہیونی رژیم کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے بعد وہ غزہ چلے گئے۔ نوجوانی میں ہی وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر مفلوج ہو گئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے دوری اختیار نہیں کی۔ وہ غزہ کی مختلف مساجد میں خطابت کرتے اور درس و تدریس میں مصروف رہتے یہاں تک کہ غزہ کے معروف ترین خطیب اور معلم کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ 1983ء میں غاصب صہیونی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا اور فوجی عدالت میں کاروائی کے بعد انہیں 13 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
1985ء میں فلسطینیوں کے ہاتھوں قید ہونے والے دو صہیونی فوجیوں کے تبادلے میں شیخ احمد یاسین کو اسرائیلی جیل سے آزاد کروا لیا گیا۔ انہوں نے 1987ء میں بعض دیگر فلسطینی رہنماوں سے مل کر اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی بنیاد رکھی۔ اسی وقت سے غاصب صہیونی رژیم نے شیخ احمد یاسین پر نظر رکھنا شروع کر دی۔ اکتوبر 1991ء میں ایک صہیونی عدالت نے مختلف قسم کے جھوٹے الزامات نیز حماس کی تشکیل میں ان کے کردار کے مد نظر ان کیلئے عمر قید کی سزا جاری کر دی۔ آخرکار 22 مارچ 2004ء کے دن غاصب صہیونی رژیم کے فوجی ہیلی کاپٹروں نے نماز فجر کے وقت مسجد پر حملہ کر کے شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا۔ فلسطینیوں نے اب تک اپنے اس روحانی پیشوا کا نام زندہ رکھا ہوا ہے اور ہر سال ان کی برسی منائی جاتی ہے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شیخ احمد یاسین کی ٹارگٹ کلنگ کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی تنظیم حماس نے مقبوضہ فلسطین میں پہلا اور دوسرا انتفاضہ شروع ہونے میں انتہائی اہم اور مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح شیخ احمد یاسین مختلف شکلوں میں اسلامی مزاحمت کو فروغ دینے میں مصروف تھے۔ اسی وجہ سے غاصب صہیونی رژیم نے شیخ احمد یاسین کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف شیخ احمد یاسین فلسطین اور اسلامی مزاحمت کی علامت بن چکے تھے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف حصوں خاص طور پر مغربی کنارے میں غاصب صہیونی فورسز کے خلاف شہادت طلبانہ کاروائیوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور صہیونی حکام ان اقدامات میں شیخ احمد یاسین کے کردار سے بخوبی آگاہ تھے۔
غاصب صہیونی حکمران، شیخ احمد یاسین کی ٹارگٹ کلنگ کر کے دو بنیادی مقاصد حاصل کرنے کے درپے تھے۔ پہلا مقصد ان کی سربراہی میں جاری اسلامی مزاحمت کو روک کر ہمیشہ کیلئے ختم کرنا تھا۔ دوسرا مقصد شیخ احمد یاسین کو شہید کر کے مقبوضہ فلسطین میں اپنا کنٹرول اور اثرورسوخ بڑھانا تھا۔ اسی طرح وہ شیخ احمد یاسین کی سطح کا خطرہ ہمیشہ کیلئے اپنے سے دور کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے صہیونی صدر ایریل شیرون کیلئے شیخ احمد یاسین کی ٹارگٹ کلنگ اس قدر اہم تھی کہ اس نے بذات خود اس دہشت گردانہ اقدام کی نظارت اور سرپرستی انجام دی۔ شیخ احمد یاسین کی شہادت کے بعد صہیونی رژیم نے اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے میڈیا مہم چلائی اور عالمی رائے عامہ میں تل ابیب کو اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں چیمپیئن ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
اگرچہ صہیونی حکمران شیخ احمد یاسین کو قتل کرنے میں کامیاب رہے لیکن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا اصل مقصد اس مزاحمت کو ختم کرنا تھا جس کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی لیکن یہ مزاحمت نہ صرف باقی رہی بلکہ روز بروز پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی گئی۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس آج بھی پوری قوت سے میدان میں موجود ہے۔ صہیونی حکمران دوسرا مقصد بھی حاصل نہ کر پائے اور اسلامی مزاحمت روز بروز زور پکڑتی گئی۔ لہذا شیخ احمد یاسین کی شہادت ان کی جاودانگی کا باعث بن گئی اور فلسطینی قوم آج بھی انہیں مزاحمت کی علامت سمجھتی ہے۔
تبصرہ کریں