فاران: فارس نیوز ایجنسی،کے بین الاقوامی شعبہ نے اپنے ایک تجزیہ میں اس بات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
حالیہ علاقائی تبدیلیاں، خاص طور پر شام کی سابق حکومت کا زوال، جسے کچھ لوگ مزاحمتی محور کے تمام گروہوں کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیتے ہیں، فلسطین کے مقبوضہ شمالی علاقے میں جنگ بندی، اور غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کی افواہوں کے ساتھ صہیونی حکومت کو یہ یقین دلا رہی ہیں کہ اس نے اپنے تمام علاقائی دشمنوں پر “اسٹریٹجک فتح” حاصل کر لی ہے۔ اب صہیونی حکام اس فتح کے دعوے کو “نئے مشرق وسطیٰ” کے قیام کے ذریعے استعمال کرنے کے خواہاں ہیں، جس کا وعدہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور دائیں بازو کی حکومت کے دیگر سخت گیر ارکان کر رہے ہیں۔
“احمد عبدالرحمن”، المیادین نیٹ ورک کے سیاسی و عسکری تجزیہ کار، ہیں انہوں نے اس حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
نیتن یاہو، اسرائیل کاتز اور دیگر حکام کی غیر حقیقی اور خودپسندانہ بیانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دو اسرائیلی صحافیوں کے حالیہ مضامین پر نظر ڈالتے ہیں، جو اسرائیلی معاشرے میں غالب احساسات کی عکاسی کرتے ہیں، خواہ ان کی سیاسی وابستگی کچھ بھی ہو۔
آوی شیلون، “یدیعوت احرونوت” اخبار میں لکھتے ہے:
“شام کا سقوط، حزب اللہ کے خلاف شمال میں قائم جنگ بندی، اور غزہ میں کسی جزوی معاہدے کی افواہیں اسرائیل کو 7 اکتوبر کے بعد پہلی بار ‘اسٹریٹجک برتری’ کی پوزیشن میں لے آئی ہیں۔” شیلون مزید لکھتے ہے کہ ان عسکری کامیابیوں کو سیاسی فوائد میں تبدیل کیا جانا چاہیے، اور یہ عمل غزہ سے شروع ہونا چاہیے، جس میں حماس کی جگہ اسرائیل کے زیر کنٹرول فلسطینی قوت کو لایا جائے اور “امن مذاکرات” کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ لبنان میں، وہ حزب اللہ کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر لبنانی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کی بات کرتے ہے۔ شام کے بارے میں شیلون مشورہ دیتے ہے کہ اسرائیل شام کے رہنماؤں کو مسجد اقصیٰ میں نماز کی دعوت دے، تاکہ اسلامی دنیا کے ساتھ امن کی علامت پیش کی جا سکے۔
آوی اشکنازی، “معاریو” اخبار میں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی “سخت گیر پولیس” قرار دیتے ہیں۔ اشکنازی لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے شام میں اپنی کارروائی کے دوران 48 گھنٹوں میں شامی فوج کی 80 فیصد عسکری صلاحیت ختم کر دی۔
احمد عبدالرحمن لکھتے ہیں:
یہ سب اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والے مضامین کا محض ایک حصہ ہے، جو اسرائیل کے سیاسی، عسکری اور عوامی حلقوں میں بے مثال خوشی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے اثرات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگرچہ مزاحمتی محور کو شام میں شدید نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ محور اب بھی خطے میں ایک مضبوط اور مؤثر قوت کے طور پر موجود ہے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
مزاحمتی اتحاد کی یکجہتی برقرار ہے۔
شمالی فلسطین میں جنگ بندی کے باوجود اور شام میں رابطہ ٹوٹنے کے بعد بھی، مزاحمت کے مختلف گروہ غزہ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمن اور عراق کے حالیہ حملے اس بات کی واضح علامت ہیں کہ مزاحمت اب بھی فعال ہے۔ حزب اللہ، جس کے بارے میں صہیونی ریاست دعویٰ کرتی ہے کہ وہ شکست کھا چکی ہے، بدستور متحد اور مضبوط ہے۔
فلسطین میں مزاحمت جاری ہے
فلسطین، جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی پہلی صف میں ہے، مغربی کنارے اور غزہ میں بدستور اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ جبالیہ کیمپ میں دو ماہ کے دوران اسرائیلی فوج کے نقصانات اس مزاحمت کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اسرائیل کو درپیش داخلی اور خارجی بحران
صہیونی ریاست، جو “اسٹریٹجک فتح” کا دعویٰ کر رہی ہے، اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے دوچار ہے، جن میں معاشرتی ٹوٹ پھوٹ، اقتصادی کمزوری، اور فوج کی تنزلی شامل ہیں۔
احمد عبدالرحمن اختتاماً لکھتے ہیں:
“جو کچھ میڈیا میں بیان کیا جا رہا ہے، وہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے۔ اسرائیل کی مبینہ اسٹریٹجک فتح، درحقیقت خطے کی موجودہ حقیقت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور نہ ہی اسے اسرائیل اور امریکہ کے تسلط کی طرف لے جائے گی۔”
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں