صہیونی ریاست نے امریکی بموں سے فلسطینیوں کی لاشوں کو کیسے پگھلا کر باقیات کو ختم کیا؟

فلسطینیوں کی لاشوں کو پگھلانے اور بخارات بنانے کا انسانیت سوز جرم صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں امریکی بموں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں سے ایک ہے۔

فاران: فلسطینیوں کی لاشوں کو پگھلانے اور بخارات بنانے کا انسانیت سوز جرم صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں امریکی بموں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں سے ایک ہے۔

فارس پلس گروپ: انسانی تصور سے پرے ایک منظر میں صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا یہ وہ ہتھیار ہیں جو اس کے اتحادیوں نے اس حکومت کو فراہم کیے تھے۔ ایسے جن ہتھیاروں نے فلسطینیوں کی لاشوں کو راکھ اور دھوئیں میں تبدیل کر دیا، وہ نہ صرف بے دردی سے مارے گئے بلکہ ان کے جسموں کو پگھلا کر بخارات بنا دیا گیا، گویا صیہونی حکومت خوفزدہ ہے اور چاہتی ہے کہ ان کی لاشیں بھی مقبوضہ فلسطین میں نہ رہیں۔ حتی ان کا وجود زمین کے ساتھ ذہن کی یادوں تک سے صاف ہو جائے اور کہیں کوئی نشانی نہ ملے۔ یہ وہ جرائم ہیں جو بچوں اور بڑوں، مرد و زن میں فرق نہیں کرتے یہ جرائم انسانیت کے دامن پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ کوئی بھی چیز، حتیٰ کہ بین الاقوامی قوانین، عالمی برادری کے ریت و رواج اور اخلاقی اقدار بھی صیہونی حکومت کو بھیانک جرائم سے روک نہیں سکتے ۔

فلسطینی ذرائع کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کی جانب سے ممنوعہ اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے تقریباً 3 ہزار فلسطینیوں کی لاشیں پگھل کر بخارات میں تبدیل ہو گئیں اور اس جرم میں استعمال ہونے والے بموں میں زیادہ تر امریکی بم شامل ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے قبل ہفتوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینی اور بین الاقوامی ذرائع سے متعدد رپورٹیں شائع کی گئی تھیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ صیہونی حکومت اس جنگ میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرتی رہی ہے جو جسم کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ ایسے مہلک ہتھیار ہیں جن سے جسم پگھلتا ہے اور بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔
اس سلسلے میں ان رپورٹوں میں تاکید کی گئی ہے کہ غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے ان بموں کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کی لاشیں مکمل طور پر پگھل کر بخارات میں تبدیل ہو گئیں۔

تقریباً 3 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں کا پگھل کر بخارات میں تبدیل

غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے قیام اور انسانی بنیادوں پر مقدمات کی پیروی شروع ہونے کے بعد، غزہ پٹی کی شہری دفاع کی تنظیم کے ترجمان “محمود باصل” نے اعلان کیا کہ ان شہداء کی تعداد جن کے جسم پگھل گئے اور بخارات بن گئے ان کی تعداد تقریبا 842۔2ہے جنکا صیہونی حکومت کے حملے کے بعد کوئی سراغ نہیں مل سکا، غزہ شہر کے وسط میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں محمود بصل نے کہا کہ غزہ کے شہری دفاع کی ٹیمیں شہداء کی لاشوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ملبوں کے نیچےیا گلیوں میں انکی تلاش جاری ہے، لیکن وسیع پیمانے پر تباہی اور ضروری آلات کی کمی کی وجہ سے، یہ ٹیمیں ابھی تک اس میدان میں زیادہ پیش رفت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں، انہوں نے مزید کہا: “غزہ کے شہری دفاع کی ٹیمیں اب تک 38 ہزار سے زائد لاشوں کو نکالنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور 97 ہزار سے زائد زخمیوں کو انہوں نے بچایا ہے۔” انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ عرب اور بین الاقوامی شہری دفاع کی ٹیموں کو محصور غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ دس ہزار سے زائد شہداء کی لاشیں تلاش کرنے میں مدد ملے، جو ابھی تک موجود ہیں اور ملبوں کے نیچے ہیں دبی ہوئی ہیں ۔


امریکی ممنوعہ بموں سے غزہ میں لاشوں کے بخارات بننے کی تفصیلات

شہداء کی لاشوں کے پگھلنے اور بخارات بننے کے خطرناک واقعہ کے بارے میں “الاعلام الفلسطینی” مرکز کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ میں شہریوں کو قتل کرنے کے لیے ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی لاشیں مکمل طور پر پگھل کر بخارات بن جاتی ہیں، جس کے بعد کوئی جسم کا اثر نہیں بچتا ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے نامعلوم بموں کے استعمال کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں ہزاروں شہداء کی لاشیں پگھل گئیں۔ لاشوں کو پگھلا دینے والے بموں کا دھماکہ بہت زیادہ گرمی پیدا کرتا ہے اور انسانی جسم کو بہت چھوٹے ذرات میں تبدیل کر دیتا ہے جسے آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا، اس کو دیکھنے کے لئے دوربینوں اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے اس سلسلے میں غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش نے کہا: “صیہونی حکومت اس کا استعمال کرتی ہے۔ یہ ایسے نامعلوم ہتھیار تھے جوخاص طور پر غزہ کی پٹی کے شمال میں لاشوں کو مکمل طور پر پگھلا کر بخارات بنا دیتے تھے، جس کی وجہ سے بہت سے فلسطینیوں کی لاشیں غائب ہو جاتی تھیں اور ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا تھا۔” صہیونی جن ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں، ان میں انتہائی طاقتور دھماکہ خیز بم ہوتے ہیں جو خوفناک اور بھیانک آوازیں نکالتے ہیں، جس سے دھماکے کے 200 سے 300 میٹر کے اندر موجود کوئی بھی شخص بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔” ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے۔ اور اس بات کے ثبوت بھی فراہم ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں امریکی ساختہ Mark84 (MK84) بم استعمال کیے ہیں جو انسانی حقوق کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں

غزہ میں صہیونیوں کے زیر استعمال ممنوعہ ہتھیار

ابھی تک، انسانی جسم کے پگھلنے یا بخارات میں تبدیل ہونے والے اجسام کے درجہ حرارت کے بارے میں کوئی سائنسی طور پر تصدیق شدہ جواب تو نہیں ہے، لیکن عام طور پر آخری رسومات کے لیے ضروری درجہ حرارت 800 سے 1000 ڈگری سیلسیس کے درمیان ہوتا ہے۔ صنعتی شمشان بھٹیوں میں شدید گرمی انسانی جسم کو کیمیائی اجزا ء بشمول گیس، راکھ اور معدنی باقیات میں گلا دیتی ہے۔
کچھ اعداد و شمار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 1500 سے 3000 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت انسانی جسم کو بخارات بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے، خاص طور پر جب کسی دھماکے کی وجہ سے ہونے والے زبردست دباؤ کے ساتھ مل کر ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں لاشوں کے بخارات بننے میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکا مطلب ہے صہیونی ریاست نے ایسے اسلحوں کا دھڑلے سے استعمال کیا ہے جس سے بعض مقامات پر ٹارگٹ ایریا کا درجہ حرارت 1500 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو گیا ہے جس کے ساتھ جسم پر بہت شدید دباؤ قائم ہوا اور انسانی جسم پگھل کر بخار میں تبدیل ہو گیا ، اس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے پاس تھرمل پریشر Thermobaric Bombs بموں کا ذخیرہ ہو اسکا بہت قوی امکان ہے انہیں ویکیوم بم (Thermobaric Bombs کو غزہ کے لوگوں کے جسموں کو بخارات بنانے کے لیے استعمال کیے گیا ہے۔

Thermobaric Bombs اور ویکیوم بم کیا ہیں ؟

ویکیوم بم، جسے ایروسول بم یا فیول ایئر بم بھی کہا جاتا ہے، ایک قسم کا تھرمل پریشر یا “پیزو الیکٹرک” ہتھیار ہے، جو دو یونانی الفاظ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے حرارت اور دباؤ۔ یہ بم دھماکا کرنے کے لیے بنیادی طور پر ہوا میں موجود آکسیجن پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ یہ روایتی ہتھیاروں کے برعکس جو ایندھن اور آکسیڈائزنگ پر مشتمل ہوتے ہیں، یہ دو مراحل میں کام کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں، وہ علاقے میں ایندھن کا ایک بڑا بادل بناتے ہیں، اور دوسرے مرحلے میں، وہ پیدا ہونے والے بادل کو بھڑکاتے ہیں، جو کہ دھماکے کے بعد ایک خلا پیدا کرتا ہے جو علاقے کی تمام آکسیجن کو استعمال کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام جاندار پہلے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے فنا ہو جائیں گے اور پھر سانس لینے کی وجہ سے ان کے جسم کی تمام اندرونی بافتیں دھماکے سے پیدا ہونے والی گیس کی وجہ سے تباہ ہو جائیں گی۔ 30
ماہرین کا کہنا ہے اس طرح کے زیادہ تر بموں کو صہیونی ریاست نے غزہ کی عام آبادی کو مٹانے کے لئے استعمال کیا ہے
30 اپریل 2024 کو غزہ میں شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو زیادہ سے زیادہ نقصانات پہنچانے اور عام لوگوں زخمی کرنے کی غرض سے صہیونی ریاست کی جانب سے استعمال ہونے والے بموں والے ادارے نے اسرائیل کی جانب کے سلسلہ سے تحقیق کرنے والے یورپ اور مشرق وسطی کے انسانی حقوق کے ایک ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس کے لئے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی بین الاقوامی تحقیقات ہونا چاہیئے چونکہ ان ممنوعہ ہتھیاروں میں ایسے تھرمو بارک بم بھی شامل ہیں جن کا درجہ حرارت 2500 ڈگری تک ہے۔ سیلسیس اور جسم کے اندرونی بافتوں کے شدید طور پر جلنے کا سبب بنتا ہے۔

سفید فاسفورس بم

خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ پگھلی ہوئی اور بخارات بنی ہوئی لاشیں فاسفورس بموں کے استعمال کی وجہ سے ہیں بھی ہیں ، جن کا استعمال صیہونی حکومت نے نہ صرف غزہ میں کیا بلکہ لبنان میں بھی انکا استعمال کیا ہے یہ بم شدید جلنے کا باعث بنتے ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں اور انتہائی دردناک موت کا سبب بنتے ہیں ۔” فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ “صلاح عبدالعاطی” نے کہا کہ صیہونی حکومت کی طرف سے ان ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ . انہوں نے بین الاقوامی برادری سے صہیونی ریاست کے حکام اور ان ہتھیاروں کے درآمد کنندگان کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی فلسطینیوں کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات اور ان جرائم کو جنگی جرائم کے طور پر چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔