صہیونی ریاست کا مغربی کنارے میں منصوبہ صہیونی آبادکاری میں توسیع کے ساتھ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطینیی بستیوں کے رہائشی ڈھانچوں کو تبدیل کرنے کی کوشش محض غزہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ نیتن یاہو کی ان پالیسیوں میں شامل ہے جو وہ غزہ میں ناکامی کے بعد مغربی کنارے میں نافذ کرنے کے دپے ہیں۔
کسی سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ امریکہ، صہیونی ریاست کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ کئی تجزیے جو یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا، وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ امریکہ کے خصوصی ایلچی کو جو تل ابیب بھیجا گیا تھا، اسے اپنی ذمہ داری ہر حال میں مکمل کرنے کا حکم ملا تھا، اور اس کی تمام کوششیں صہیونی ریاست کے مفادات میں تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد، نیتن یاہو اس نتیجے پر پہنچے کہ “یہودی طاقت” پارٹی کے نمائندے، ایتامار بن گویر، اور مذہبی صیہونیت کے نمائندے، بزلل اسموتریچ کی “تجاویز” پر مزید عمل کرنا، ان ان کے لیے کوئی سیاسی یا عسکری کا سبب نہیں۔
یہی عوامل تھے جن کی وجہ سے لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نے ٹرمپ کے ایلچی کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور ان کے مطالبات کو قبول کر لیا، اور بن گویر کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔ بن گویر، جو قومی سلامتی کے وزیر تھے، اس فیصلے کے بعد اپنی پارٹی کے وزیروں کے ساتھ کابینہ سے مستعفی ہو گیے۔
البتہ، بن گویر کا استعفیٰ نیتن یاہو کے اقتدار کے خاتمے کا سبب نہیں بنا، کیونکہ ان کی کابینہ اب بھی 62 نشستوں کے ساتھ کنسیٹ میں اکثریت رکھتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسموتریچ نے استعفیٰ نہیں دیا، اور یہی وہ فیصلہ تھا جسے اسرائیلی دائیں بازو کے سیاستدانوں، بشمول بن گویر اور اس کی پارٹی، نے “اسموتریچ کی جانب سے پیٹھ میں خنجر گھونپنے” کے مترادف قرار دیا۔
لیک ہونے والی معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے “اسٹیون وِٹکاف”، جو ٹرمپ کے نمائندے تھے، اور نیتن یاہو کے درمیان جو بات چیت ہوئی، اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ٹرمپ نے وٹکاف کو حکم دیا تھا کہ وہ اسرائیلی حکام کو غزہ میں جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کرے۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ صدارتی انتخابات سے پہلے بین الاقوامی برادری کے سامنے یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ دوسروں کو اپنے احکامات پر چلانے کی غیر معمولی طاقت رکھتےہیں۔
عملی طور پر، ٹرمپ نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور 15 جنوری 2025 کو ہونے والی اپنی آخری پریس کانفرنس میں، جو کہ امریکہ کے 46ویں صدر کی حیثیت سے ان کی آخری سرکاری کانفرنس تھی، بائیڈن کا مذاق اڑایا۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی بات چیت کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ اس میں امریکہ کی جانب سے اسرائیلی قیادت کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں، بشمول مغربی کنارے، میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی حمایت کریں گے ۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا کہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو مزید وسعت دی جائے، اور اس میں خلیج فارس کے بڑے ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
یہ وہ ممالک تھے جن کے ساتھ اگر “طوفان الاقصیٰ” آپریشن نہ ہوا ہوتا تو وہ کئی مہینے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو مکمل کر چکے ہوتے۔
*مغربی کنارے کا مستقبل*:
آنے والے دنوں میں، صیہونی حکومت واشنگٹن کے اس اقدام کی منتظر ہے جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو 2000 پاؤنڈ وزنی بموں کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کرے گی۔ یہ فیصلہ دراصل ٹرمپ کے اس حکم کی تکمیل ہوگا جس کے تحت انہوں نے اپنے پیشرو کی جانب سے اسرائیلی آبادکاروں پر عائد پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ یہ وہی آبادکار ہیں جو مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر پرتشدد حملوں میں ملوث پائے گئے تھے۔
یہ اقدام نیتن یاہو کے لیے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ اپنے انتہا پسند دائیں بازو کے اتحادیوں کو خوش کر سکتے ہیں، جو غزہ میں جنگ بندی کو اسرائیل کی “شرمناک شکست” قرار دیتے ہیں۔
جنوری کے آغاز میں، نیتن یاہو نے مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمتی کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے فوجی کارروائیوں کے ایک سلسلے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتہا پسند صیہونی گروہوں کی حمایت میں بھی اضافہ کر دیا تاکہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ یہ گروہ فلسطینیوں پر حملے کریں اور ان کی املاک پر قبضہ بڑھا سکیں۔
مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاری اور نئی بستیاں بنانے کی رفتار دسمبر 2022 میں نیتن یاہو کی انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تیزی سے بڑھ چکی ہے۔ 2023 میں، اسرائیلی اعلیٰ منصوبہ بندی اور تعمیراتی کونسل نے 12 ہزار سے زائد نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔ اس کے علاوہ، 2024 میں مزید 10 ہزار رہائشی یونٹس بنانے کا منصوبہ بھی طے کیا گیا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی کمیٹی:
* *مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری میں تیزی*
فلسطینی مزاحمتی کمیٹی برائے آبادکاری کے مطابق، 7 اکتوبر سے سال 2024 کے آخر تک، اسرائیلی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 29 عارضی رہائشی بستیاں قائم کیں، جن میں سے 8 صرف الخلیل میں بنائی گئیں۔ ان آبادکاروں نے ان علاقوں میں سڑکیں بھی تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں تاکہ نہ صرف اپنی نقل و حرکت کو آسان بنائیں بلکہ ان نئی بستیوں کو آپس میں جوڑ سکیں۔
یہ واضح ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی آبادی کے ڈیموگرافک ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش، اور ساتھ ہی اسرائیلی بستیوں کی توسیع، نیتن یاہو کی ان پالیسیوں کا حصہ ہے جو انہوں نے غزہ میں شکست کے بعد انتہا پسند صیہونیوں کے غصے کو کم کرنے کے لیے اپنائی ہیں۔
یہ معاملہ صیہونی رہنما بزلل اسموتریچ کے بار بار دیے گئے ان بیانات کی یاد دلاتا ہے جن میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ سال 2025، “یہودا و سامرہ” (مغربی کنارہ) پر اسرائیل کی مکمل حاکمیت کا سال ہوگا۔ اس دعوے کے عملی مظاہرے کے طور پر، اسموتریچ نے گزشتہ ماہ مغربی کنارے میں مزید 24 دونم فلسطینی اراضی کو ضبط کر کے یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کو مزید آگے بڑھایا۔
اسموتریچ کے بیانات، درحقیقت، تل ابیب کی سرکاری پالیسی سے کوئی مختلف نہیں ہیں، کیونکہ اسرائیلی حکومت ہمیشہ مغربی کنارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے کام کرتی رہی ہے۔ ان پالیسیوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ مغربی کنارے کے مزید علاقوں کو اسرائیل میں ضم کیا جائے، یہودی بستیاں بڑھائی جائیں، اور اردن کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر کو مکمل کیا جائے۔
مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ: ایک پرانا منصوبہ نئے نام کے ساتھ
مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ایک پرانا صیہونی منصوبہ ہے جسے اسرائیلی حکومت وقتاً فوقتاً مختلف ناموں اور “اپنی سیکیورٹی کے تحفظ” کے بہانے نافذ کرتی رہی ہے۔
اسی پالیسی کے تحت، گزشتہ سال مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، خاص طور پر جنین، طولکرم اور نابلس کے شہروں میں۔
گرمیوں 2024 میں، اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے شمالی حصے میں ایک وسیع فوجی آپریشن شروع کیا۔ یہ آپریشن 2002 کے بعد سے اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی کارروائی سمجھی جاتی ہے، جس میں 1000 سے زائد اسرائیلی فوجی شریک تھے۔ اس کارروائی میں 39 فلسطینی شہید اور 112 زخمی ہوئے۔
یہ کارروائیاں سال بھر جاری رہیں، اور 2024 کے آخر میں، اسرائیلی فوج نے نابلس میں بلاطہ مہاجر کیمپ پر حملہ کیا۔ اسی دوران، رام اللہ کے شمال میں الجلزون کیمپ، طولکرم اور بیت لحم کے کئی محلوں میں بھی اسرائیلی فوج کی جارحیت دیکھی گئی، جہاں فلسطینیوں کے خلاف اسی طرح کے فوجی حملے کیے گئے۔
*مغربی کنارے میں استحکام*
: غزہ میں جنگ بندی کی ایک اہم شرط
اسرائیل اور غزہ کی مزاحمتی تحریکوں، بشمول حماس، کے درمیان طے پانے والی جنگ بندی کا معاہدہ، جو 19 جنوری سے نافذ ہوا، اب تک نسبتاً مستحکم رہا ہے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات شامل ہیں، جن میں قیدیوں کا تبادلہ اور اسرائیلی فوج کی غزہ کے بعض علاقوں سے پسپائی شامل ہے۔
تاہم، جنگ بندی کے باوجود، اس کے تسلسل پر سوالات اٹھ رہے ہیں، خاص طور پر انتہا پسند دائیں بازو کے دباؤ اور اسموتریچ کی جانب سے دھمکی کے پیش نظر، جس نے کہا ہے کہ اگر 6 ہفتے بعد جنگ دوبارہ شروع نہ کی گئی اور جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام پر معاہدے کو آگے بڑھایا گیا، تو وہ نیتن یاہو کی کابینہ سے علیحدہ ہو جائں گے
توقع کی جا رہی ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا تاکہ نیتن یاہو کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا موقع ملے۔ ان میں داخلی دباؤ کو کم کرنا، خاص طور پر اسرائیلی قیدیوں کے اہلخانہ کا دباؤ، اور امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحادیوں کو مطمئن کرنا شامل ہے۔ تاہم، جنگ بندی کے آئندہ مراحل کئی چیلنجوں کا شکار ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے ابھی کوئی واضح ٹائم لائن طے نہیں کی گئی۔
ٹرمپ نے امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی پریس کانفرنس میں غزہ میں جنگ بندی کے تسلسل پر شک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف، نیتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے عہد کیا ہے کہ وہ غزہ کو دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ بننے نہیں دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فیلادلفیا محور پر اسرائیلی فوج کی موجودگی برقرار رکھنے اور غزہ کی سرحد پر 700 میٹر سے 1 کلومیٹر تک کا بفر زون بنانے پر زور دے سکتے ہیں۔
*مغربی کنارے کی صورتحال اور غزہ میں جنگ بندی کے درمیان گہرا تعلق *
مغربی کنارے میں عدم استحکام اور غزہ میں جنگ بندی کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ ان دونوں علاقوں کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال ایک دوسرے سے جغرافیائی اور سیاسی طور پر جُڑی ہوئی ہے۔ اس تعلق کو درج ذیل نکات سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
🔺 اسرائیلی نقطہ نظر
اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کو ایک مشترکہ سیکیورٹی فائل کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگر مغربی کنارے میں کشیدگی بڑھتی ہے، تو اس کے اثرات غزہ پر بھی پڑتے ہیں، اور اسی طرح اگر غزہ میں کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اثرات مغربی کنارے پر بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
اکثر اوقات اسرائیل دونوں میں سے کسی ایک علاقے میں دباؤ بڑھا کر دوسرے علاقے میں مزاحمت کو کمزور کرنے کی حکمت عملی اپناتا ہے۔
🔺 فلسطینی مزاحمتی حکمت عملی
فلسطینی مزاحمتی گروہ غزہ اور مغربی کنارے میں ایک غیر مستقیم مگر مضبوط رابطے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
غزہ کو ایک دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں کشیدگی بڑھانے سے روکا جا سکے، خاص طور پر اگر بیت المقدس میں اسرائیلی جارحیت یا مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں بڑھ جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر کا آپریشن نہ صرف مسجد الاقصی کی بے حرمتی کا انتقام بلکہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے خلاف ایک ردعمل تھا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروہ پورے مقبوضہ علاقوں میں آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔
🔺 فلسطینی عوامی رائے
مغربی کنارے میں اگر کوئی بڑا واقعہ جیسے اسرائیلی فوج کے چھاپے، گرفتاری کی مہم، یا آبادکاروں کے حملے پیش آتے ہیں تو یہ غزہ میں عوامی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں مزاحمتی گروہوں پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف ردعمل دیں۔ اس طرح، اسرائیل کے اقدامات اور فلسطینی ردعمل کے درمیان ایک تسلسل برقرار رہتا ہے۔
غزہ کے فلسطینیوں کی جنگ بندی برقرار رکھنے کی امید
غزہ کے فلسطینی امید رکھتے ہیں کہ جنگ بندی جاری رہے تاکہ 15 ماہ کی زبردست مزاحمت، ہزاروں شہداء، زخمیوں اور لاپتہ افراد کی قربانیوں کے بعد وہ کچھ سکون حاصل کر سکیں۔
تاہم، وہ یہ ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ غزہ میں سکون مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت اور فوجی کارروائیوں کی قیمت پر حاصل ہو۔
اگر غزہ میں مزاحمتی گروہ یہ محسوس کریں کہ مغربی کنارے کے فلسطینی دباؤ اور خطرے میں ہیں، تو وہ خاموش نہیں رہیں گے اور اسرائیل کو جنگ بندی ختم کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں۔
قاہرہ اور دوحہ بطور ثالث کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل یقینی بنائی جائے، مگر ان تمام کوششوں پر مغربی کنارے کے حالات براہ راست اثر ڈال رہے ہیں۔
اگر مغربی کنارے میں حالات مزید کشیدہ ہوئے اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات کے باعث عوامی احتجاج بڑھے، تو اس سے جنگ بندی معاہدے کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں، مغربی کنارے میں کشیدگی میں اضافہ جنگ بندی کو مزید چیلنجز میں ڈال دے گا اور اسرائیل پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ مغربی کنارے میں اپنی توسیعی پالیسیوں اور جارحیت کو روکے۔
https://farsnews.ir/zafarani/1737689194%D8%BA%D8%B2%D9%87
تبصرہ کریں