صہیونی ریاست کی معیشت پر غزہ کی جنگ کے اثرات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی حکومت نے آخر کار 15 ماہ کی بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنے کے بعد نیزغزہ میں جنگ کے مقاصد میں ناکامی کے بعد جنگ بندی قبول کر لی۔
بین الاقوامی اقتصادی خبر رساں ایجنسی فارس: غزہ جنگ کے 15 ماہ کے دوران، صہیونی ریاست اپنی تاریخ کی عدیم المثال صورتحال سے دوچار رہا، جو مختلف محاذوں سے حملوں اور دھمکیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ حملے اور خطرات چھ مختلف محاذوں صہیونی ریاست کو درپیش تھے ان میں لبنان، شام، یمن، عراق، ایران، فلسطین اور حتیٰ کہ خود مقبوضہ فلسطینی علاقے شامل ہیں، جس نے نہ صرف اسرائیل کی سلامتی پر دباؤ ڈالا بلکہ اس حکومت کی معیشت پر بھی شدید اثرات مرتب کیے اور بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔
در حقیقت، جنگ بندی نہ صرف فوجی مسائل اور متعدّد خطرات کی وجہ سے بلکہ جنگ کے مہنگے اخراجات، اسرائیلی باشندوں پر معیشتی دباؤ، سرمایہ کاروں کے انخلاء اور دیگر اندرونی بحرانوں کی وجہ سے ہوئی۔ غزہ کی جنگ نے دکھایا کہ موجودہ دور میں، متعدد محاذوں سے آنے والے خطرات اسرائیل کے لیے تیزی سے سیکیورٹی اور اقتصادی بحرانوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسرائیل، جو اس سے پہلے متعدد علاقائی خطرات کا سامنا کر چکا تھا اور دکھا چکا تھا کہ وہ ہر محاذ کو تنہا کنٹرول کر سکتا ہے، اس جنگ میں ایک نئی حقیقت سے دوچار ہوا کہ وہ بیک وقت کئی محاذوں سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کھو چکا ہے اور انجام کار داخلی اور اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہوا۔

اس ہفتے، کالکالیست نے کابینہ کی طرف سے اعلان کردہ اس بیان پر سوال اٹھایا ہے کہ 2024 میں اسرائیل کا مالی خسارہ 6.9 فیصد جی ڈی پی یا تقریباً 136 بلین شیکل (36.1 بلین ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ اس اخبار نے زور دیا کہ اسرائیل کی معیشت کی حقیقت زیادہ تلخ نظر آتی ہے، کیونکہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی خسارہ 7.2 فیصد جی ڈی پی یا تقریباً 142 بلین شیکل (37.7 بلین ڈالر) تک پہنچ چکا ہے۔ 2023 کے اختتام پر، صہیونی حکومت کی وزارت خزانہ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2024 کے بجٹ میں 4.9 فیصد جی ڈی پی کا خسارہ ہوگا، جو کہ 2023 میں 4.2 فیصد کے حقیقی خسارے کے مقابلے میں زیادہ ہوگا۔ کالکالیست نے لکھا: “جبکہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بزالل سموٹریچ 7 فیصد سے کم خسارے کی شرح کا جشن منا رہے ہیں، اسرائیلی عوام مہنگی زندگی اور سست اقتصادی ترقی سے پریشان ہیں۔” قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی اقتصادی ترقی کی شرح کو ایک سے زیادہ مرتبہ نظرثانی کی، خاص طور پر غزہ پٹی میں جنگ کے آغاز کے ساتھ، جو مزید کمی کو ظاہر کرتی تھی۔
لیکن 2024 کے دوران اسرائیل کا بجٹ خسارہ بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا اور فوجی کارروائیوں کی شدت کے ساتھ بتدریج بڑھتا گیا۔ ذیل میں ہم 2024 میں صہیونی حکومت کے بجٹ خسارے کی ماہانہ ترقی کا جائزہ لیں گے:
جنوری 2024: سال کے آغاز میں بجٹ خسارہ 4.5 فیصد تک پہنچ گیا۔
فروری: علاقائی کشیدگی سے نبٹنے کے لیے دفاعی اخراجات میں اضافے کے نتیجے میں 4.8 فیصد تک بڑھ گیا۔
مارچ: فوجی تیاریوں میں شدت کے ساتھ، بجٹ خسارہ 5.2 فیصد تک پہنچ گیا۔
اپریل: جاری سیکیورٹی خدشات (ایران کے “وعدہ صادق 1” آپریشن) کی وجہ سے بجٹ خسارہ 5.7 فیصد تک بڑھ گیا۔
مئی: کابینہ کی جانب سے اضافی اخراجات کے اقدامات کے نتیجے میں 6.1 فیصد تک بڑھ گیا۔
جون: خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ سالانہ ہدف تھا۔
جولائی: اسرائیل کا بجٹ خسارہ بڑھتا رہا اور 7.0 فیصد جی ڈی پی تک پہنچ گیا۔
اگست: بجٹ خسارہ سالانہ ہدف سے تجاوز کرتے ہوئے 7.5 فیصد تک پہنچ گیا۔
ستمبر: غزہ اور لبنان میں جنگ کی شدت کے نتیجے میں 103.4 بلین شیکل (28 بلین ڈالر) کے اخراجات کے ساتھ، بجٹ خسارہ 8.5 فیصد تک بڑھ گیا۔
اکتوبر: بجٹ خسارہ قدرے کم ہو کر 7.9 فیصد تک پہنچ گیا۔
نومبر: بجٹ خسارہ دوبارہ بڑھ کر 8.2 فیصد ہو گیا۔
دسمبر: بجٹ خسارہ 7.7 فیصد پر مستحکم ہوا (38 بلین ڈالر سے زیادہ)۔
اسرائیل کی وزارت خزانہ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک، اسرائیل کو 125 بلین شیکل (34.09 بلین ڈالر) کے براہ راست اخراجات برداشت کرنا پڑے ہیں۔ اس وزارت نے پچھلے پیر کو مزید کہا کہ دسمبر میں اسرائیل نے 19.2 بلین شیکل (5.2 بلین ڈالر) کا بجٹ خسارہ ریکارڈ کیا، جس میں غزہ اور لبنان میں جنگ کے بھاری اخراجات کی طرف اشارہ کیا گیا۔ بظاہر یہ جنگ کے وہ براہ راست اخراجات ہیں جن میں ان اثرات کو شامل نہیں کیا گیا جو جنگ نے اسرائیل کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ڈالے۔
صہیونی ریاست کے اقتصادی اخبار کالکالیست نے اشارہ کیا کہ 2024 کے اختتام تک غزہ کی پٹی میں جنگ کی لاگت تقریباً 250 بلین شیکل (67.57 بلین ڈالر) رہی۔ اس اخبار نے غزہ کی جنگ کے اخراجات کے بارے میں اسرائیل کے مرکزی بینک کے تخمینوں پر انحصار کیا اور وضاحت کی کہ یہ 66 بلین شیکل کی رقم “براہ راست سیکیورٹی اخراجات، بڑے غیر فوجی اخراجات، اور آمدنی کے نقصانات” پر مشتمل ہے، لیکن یہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔
غزہ اور دیگر محاذوں پر جنگ کی وجہ سے، اسرائیل میں سیاحت کو گزشتہ سال 2023 کے مقابلے میں 70 فیصد سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل کی سیاحت کی صنعت کورونا وائرس کی وبا سے پہلے کے عروج والے سال 2019 کے مقابلے میں 80 فیصد سے زیادہ گر گئی ہے۔ اسرائیل کے شماریاتی دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 کے پہلے 11 مہینوں میں آنے والے سیاحوں اور زائرین کی تعداد 885 ہزار تک کم ہو گئی، جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ پورے سال میں یہ تعداد 952 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
یہ اس وقت ہے جب 2023 کے پہلے 11 مہینوں میں، اسرائیل کا دورہ کرنے والے سیاحوں کی تعداد 2.95 ملین تک پہنچ گئی تھی، جبکہ پورے 2023 میں یہ تعداد تقریباً 3 ملین سیاحوں تک پہنچ گئی تھی۔ اسرائیلی معیشت اور تجارت کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر، 2024 میں اسرائیل میں تقریباً 60 ہزار چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیوں اور کاروباروں نے اپنے دروازے بند کر دیے، جو کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔
یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ جنگ کے نتیجے میں بہت سی سیاحتی کمپنیاں متاثر ہوئیں اور انہوں نے اپنے دروازے بند صہیونی ریاست پر بند کر دیے۔ لبنان کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے دوران سیاحوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہو گئی؛ اگست 2024 میں آنے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 304.1 ہزار تھی، جو ستمبر میں کم ہو کر تقریباً 89.7 ہزار سیاحوں تک پہنچ گئی۔ صہیونی حکومت کے شماریاتی دفتر کے مطابق، اکتوبر میں سیاحوں کی تعداد کم ہو کر 38.3 ہزار رہ گئی، جبکہ نومبر 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 52.8 ہزار سیاحوں تک پہنچ گئی۔
تایمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، کاروباری معلومات فراہم کرنے والی کمپنی Covis BDI نے جولائی 2024 میں ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے اثرات کے باعث 60 ہزار کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ Covis BDI کے سی ای او یوئل امیر نے اس وقت کہا تھا کہ اسرائیل کی معیشت کا کوئی بھی شعبہ جاری جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل میں کاروبار بہت پیچیدہ حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جنگ کے شدت اختیار کرنے کے خوف کے ساتھ ساتھ جنگ کے خاتمے کے وقت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال، اور مستقل چیلنجز جیسے کہ عملے کی کمی، طلب میں کمی، بڑھتی ہوئی مالی ضروریات، لاجسٹک مسائل، اور اخراجات میں اضافے کا سامنا ہے۔
اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں مسلسل کمی بھی سرمایہ کے فرار کا باعث بنی۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے اکتوبر میں وعدہ صادق 2 آپریشن کے بعد اسرائیل کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ کو “A+” سے کم کر کے “A” کر دیا، اور اس کی وجہ حزب اللہ لبنان کے ساتھ تنازعات کی شدت اور ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے خطرات میں اضافہ قرار دیا۔
غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز اور اسرائیل میں فلسطینی کارکنوں کو کام کرنے سے روکنے کے بعد، اسرائیل کا تعمیراتی شعبہ بھی مفلوج ہو گیا۔ اگست کے اعداد و شمار درج ذیل حقائق کو ظاہر کرتے ہیں:
تبصرہ کریں