“صہیونی ریاست کی Tnuva “تنووا” حکمت عملی اور لبنان کی جنگ میں “نیٹو” کا شرمناک کردار”

حکمت عملی Tnuva "تنووا" کے تحت اسرائیل صرف اپنی فوجی صلاحیتوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

فاران: حکمت عملی Tnuva “تنووا” کے تحت اسرائیل صرف اپنی فوجی صلاحیتوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
فارس پلس گروپ: حالیہ اسرائیلی رپورٹس میں جنگ “اولی البأس” (حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ) کی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ اسرائیل کی جامع حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کا مقصد خطے میں سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا تھا۔
یہ حکمت عملی پہلی بار اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ ، جنرل “آویو کوخاوی” نے “تنووا” (Tnuva) کے نام سے متعارف کرائی۔ اس کا مقصد ایک جدید فوجی قوت کی تشکیل ہے، جو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے مزاحمت کو روکنے اور مختلف حالات میں فوری اور مؤثر مداخلت کی صلاحیت رکھتی ہو۔
“تنووا”Tnuva حکمت عملی کے تحت، اسرائیل محض اپنی فوجی صلاحیتوں پر تکیہ نہیں کرتا، بلکہ امریکہ اور نیٹو سمیت بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ شراکت داری صرف اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، مشترکہ تربیت اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے جیسے وسیع تر شعبوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت، اسرائیل نیٹو سے فوجی، لاجسٹک اور انٹیلی جنس معاونت حاصل کر کے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرتا اور اپنی عسکری برتری کو برقرار رکھتا ہے۔
“تنووا”Tnuva حکمت عملی کے تحت نیٹو کی حمایت محض عارضی نہیں بلکہ ایک مستقل اسٹریٹجک تعلق ہے، جو مشترکہ مفادات اور مضبوط اتحاد کی عکاسی کرتا ہے، اور اسرائیل کو عالمی طاقتوں سے جوڑتا ہے۔
اس حکمت عملی کا پہلا عملی مظاہرہ لبنان میں جنگ “اولی البأس” کے دوران دیکھنے کو ملا، جہاں اسرائیل کی جانب سے استعمال کیے جانے والے امریکی اور یورپی (نیٹو) ہتھیاروں اور فوجی نظاموں کی حقیقت آشکار ہوئی۔

اسرائیل کے لیے بیرونی فوجی حمایت

اسرائیل کی جانب سے استعمال کیے گئے اہم ترین ہتھیاروں اور ان کے عملیاتی اہداف میں کردار کے علاوہ، اس مضمون میں اسرائیل اور نیٹو کے درمیان فوجی اور تکنیکی تعاون کی نوعیت کو بھی واضح کیا جائے گا، جو لبنان کی جنگ میں نمایاں ہوا۔
لبنان میں اسرائیل کی کارروائی، جسے “تیرهای شمال” (Northern Arrows) کا نام دیا گیا اور جو 23 ستمبر 2024 کو شروع ہوئی، اسرائیل کے بڑھتے ہوئے انحصار کو ظاہر کرتی ہے، جو جنگ میں براہ راست مادی، انسانی اور تکنیکی مدد پر کرتا ہے۔
اسٹریٹجک فوجی نقطہ نظر سے، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ اسرائیل اپنی سیکیورٹی اور سیاسی اہداف کے حصول کے لیے حزب اللہ کے خلاف زیادہ سے زیادہ آتشیں طاقت اور مغربی ٹیکنالوجی کی جدید صلاحیتوں پر انحصار کرتا ہے۔
شمالی محاذ پر پیچیدہ سیکیورٹی چیلنجوں کے پیش نظر، اسرائیل نے جدید ہتھیاروں اور فوجی نظاموں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فضائی حملوں اور “درست” حملوں پر انحصار کرتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل کا یہ طرزِ عمل کسی ٹیکٹیکی برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مجبوری کے طور پر اختیار کیا گیا، کیونکہ حزب اللہ کے باعث درپیش خطرات اور چیلنجز اس کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ایسے دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے جو گوریلا جنگی حکمت عملی اور شہری علاقوں میں استقرار پر انحصار کرتے ہیں، اسرائیل کو ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید فوجی ٹیکنالوجی ان خطرات کو ناکام بنانے اور ممکنہ نقصانات کو کم کرنے کا مؤثر ترین ہتھیار بن چکی ہے۔
اس کے علاوہ، جدید جنگی ٹیکنالوجی اسرائیل کو ایک اور اسٹریٹجک صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اگر روایتی زمینی افواج کی کارروائیاں ناکام ہو جائیں اور مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر سکیں، تو اسرائیل “ہائبرڈ ملٹری وارفیئر” یعنی جدید ٹیکنیکی جنگی حکمت عملی اپنا سکتا ہے، جس کا لبنان کی جنگ میں بھرپور استعمال کیا گیا۔

امریکہ کی شراکت اور حمایت

جنگ “اولی البأس” کے نتائج کا جائزہ لینے سے امریکہ کی معاونت درج ذیل نکات کی صورت میں واضح ہوتی ہے:
🔺 40 فیصد فضائی حملوں اور خصوصی آپریشنز میں براہ راست شرکت، نیز جنگی کارروائیوں کے انتظام و منصوبہ بندی میں مدد فراہم کرنا۔
● لاجسٹک سپورٹ، جس میں ایندھن کی فراہمی، مرمت اور دیکھ بھال، اور جنگ میں شریک طیاروں کی معاونت شامل ہے۔
● فضائی حملوں یا جاسوسی مشنز کے لیے اڈے فراہم کرنا۔
● انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کرنا، جیسے SIGINT (الیکٹرانک انٹیلیجنس)، ISR ●(جاسوسی، نگرانی اور شناختی آپریشنز) اور HUMINT (انسانی ذرائع سے معلومات) تاکہ ہدف بندی میں مدد دی جا سکے۔

● سفارتی تحفظ، جو براہ راست جنگ میں مداخلت کیے بغیر لبنان میں اسرائیلی فوجی آپریشنز کی حمایت فراہم کرتا ہے۔
● انسانی امداد، جس میں اسرائیل کو کسی بھی ممکنہ ضروری امداد کی ترسیل زمین، سمندر یا فضائی راستے سے شامل ہے۔
جنگ “اولی البأس” (ستمبر تا نومبر 2024) میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی اور جاسوسی طیارے تعینات کیے، تاکہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔
مثال کے طور پر، اسرائیل نے امریکی F-15I RAAM جنگی طیاروں کی مدد سے حزب اللہ کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کو نشانہ بنایا، جن میں شہید سید حسن نصراللہ، حاج علی کرکی، سید ہاشم صفی الدین اور ابراہیم عقیل سمیت متعدد کمانڈرز شامل تھے۔
ان جنگی طیاروں کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی اعلیٰ صلاحیتوں میں ہے، جو جدید میزائل اور اسمارٹ بموں کے استعمال میں مہارت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کے جنرل سکریٹری شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لیے بھی ان طیاروں کو استعمال کیا گیا۔

امریکہ کی مزید حمایت اور جنگی شراکت

اسرائیل نے اپنے فضائی حملوں میں F-16I Sufa جنگی طیاروں کا استعمال کیا، جو اس نے نبطیہ اور بیروت پر بار بار کیے گئے حملوں میں استعمال کیے۔ اسی طرح، امریکہ کے جدید ترین جنگی طیارے F-35I “Adir” (Mighty One)، جو اسرائیلی ورژن ہے، انتہائی حساس مشنز کے لیے استعمال کیے گئے، جن میں جنوبی بیروت کا ضاحیہ، اقلیم التفاح اور مشرقی بقاع شامل ہیں۔
امریکہ نے الیکٹرانک وارفیئر (EW) میں بھی بھرپور شرکت کی۔ مثال کے طور پر:
MQ-9 Reaper ڈرونز نے جاسوسی اور الیکٹرانک جنگی کارروائیاں سرانجام دیں اور بقاع، جبیل اور شمالی لیتانی میں اہداف پر درست حملے کیے۔
U-2S Dragon Lady طیاروں نے انتہائی بلند مقامات سے انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کیں۔
RQ-4 Global Hawk جاسوسی ڈرونز جنگ کے دوران تقریباً روزانہ لبنان کی فضاؤں میں پرواز کرتے رہے۔
EA-18G Growler طیاروں نے حزب اللہ کے ریڈار سسٹمز، کمیونیکیشن نیٹ ورکس اور دیگر الیکٹرانک سسٹمز کو ناکارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ حمایت صرف فضائی کارروائیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں جدید میزائل اور اسمارٹ بم بھی شامل تھے، جیسے:
🔸 GBU-39 Small Diameter Bomb (SDB)
🔸 JDAM (Joint Direct Attack Munition)
🔸 ہوا سے زمین اور زمین سے زمین مار کرنے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، جیسے “ہالیفر”
🔸 فضائی دفاعی نظام، جیسے “پاتریوٹ”
🔸 جدید ڈرونز، جیسے “ہرمیس 900”
🔸 بحری دفاعی نظام، جیسے “باراک 8”
🔸 دیگر لاجسٹک اور جنگی معاونت

نیٹو کی شراکت اور حمایت

یورپی نیٹو ممالک نے قبرص، امارات اور اردن میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو اسرائیل کے لیے لاجسٹک اور انٹیلیجنس مراکز کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کے لیے ایک مربوط فضائی معاونت کا نیٹ ورک بنایا۔
اگرچہ نیٹو نے سعودی عرب، کویت، عمان، قطر، مصر، ترکی اور یونان جیسے خطے کے دیگر ممالک میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو بھی اسرائیل کی مدد کے لیے استعمال کیا، لیکن عرب اور اسلامی ممالک کی ممکنہ ردعمل کی وجہ سے ان شراکت داریوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔
موجودہ معلومات کے مطابق، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی جیسے نیٹو کے یورپی رکن ممالک بھی لبنان کی جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شامل رہے، جو خطے کے سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسرائیل اور نیٹو کے درمیان گہرے تعاون اور ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔
🔹 زیادہ تر فضائی (جنگی، جاسوسی اور لاجسٹک) مشنز نیٹو نے قبرص، اردن اور امارات میں موجود فوجی اڈوں سے کیے۔
🔹 نیٹو نے ان آپریشنز کو زیادہ سے زیادہ خفیہ رکھنے کی کوشش کی، تاکہ عرب ممالک اور عالمی رائے عامہ میں تناؤ پیدا نہ ہو۔
نیٹو کی زیادہ تر شراکت جاسوسی مشنز پر مرکوز رہی، جن میں:
✅ نیٹو کے جاسوسی طیارے حزب اللہ کے میزائل ذخائر، سرنگوں اور ان کے مواصلاتی نظام کا پتہ لگانے میں استعمال ہوئے۔
✅ نیٹو نے حزب اللہ کے کھلے اور خفیہ مواصلاتی نظام کو شنود کرنے میں مدد فراہم کی۔
✅ نیٹو نے اسرائیل کو جنگی طیارے، سمارٹ میزائل، فضائی دفاعی نظام، ڈرونز، الیکٹرانک جنگی سسٹمز، جدید ریڈار اور انٹیلیجنس ٹیکنالوجی فراہم کی۔
یہ تمام معاونت اور نیٹو کی شراکت اسرائیل کو لبنان میں اپنی جنگی برتری برقرار رکھنے اور حزب اللہ کے خلاف اپنی کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانے میں مدد دینے کے لیے کی گئی۔

نیٹو کا مزید تعاون اور جنگی شراکت

🔹 برطانیہ نے اپنی Eurofighter Typhoon FGR4 جنگی طیاروں کے ذریعے لبنان کی سرحدوں کے قریب متعدد جاسوسی اور انٹیلیجنس مشنز انجام دیے۔ برطانوی F-35B Lightning طیاروں نے قبرص میں موجود فوجی اڈوں سے اسرائیل کی خفیہ فضائی حملوں میں شراکت کی۔ علاوہ ازیں، برطانیہ نے Sentinel R1 (ASTOR) طیاروں کے ذریعے حزب اللہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور RC-135W Rivet Joint طیاروں کے ذریعے

الیکٹرانک ڈیٹا اور انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کیں۔
🔹 فرانس نے اپنی Dassault Rafale جنگی طیاروں کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کے ساتھ مل کر قبرص سے مقبوضہ فلسطین کے جنوبی علاقوں تک مشترکہ پروازیں کیں۔ فرانسیسی Mirage 2000D طیارے جاسوسی اور فضائی معاونت کے مشنز میں استعمال کیے گئے، جبکہ ATL2 Atlantique 2 طیارے سمندری گشت اور الیکٹرانک انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے متعین کیے گئے۔
🔹 اٹلی نے اپنی Eurofighter Typhoon جنگی طیاروں کے ذریعے قبرص سے اسرائیل کو فضائی معاونت فراہم کی۔ F-35A Lightning II طیارے گشت کے لیے استعمال ہوئے، جبکہ MQ-1C Predator ڈرونز کو انٹیلیجنس اور نگرانی کے لیے اور P-72B طیاروں کو ملٹی رول میری ٹائم مشنز میں شامل کیا گیا۔
🔹 امریکہ اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر E-3 Sentry AWACS طیاروں کے ذریعے لبنان کی فضائی نگرانی کی، جبکہ اٹلی اور برطانیہ نے 767-KC طیاروں کے ذریعے مشترکہ فضائی ایندھن کی فراہمی انجام دی۔

اسرائیل کے اہم لاجسٹک اور دیگر تعاون کے مراکز

🔻 قبرص
برطانیہ کے Akrotiri اور Dhekelia فوجی اڈے اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے جنگی طیاروں کے لیے ٹیک آف اور لینڈنگ مراکز کے طور پر استعمال ہوئے۔ یہ اڈے فضائی ایندھن کی فراہمی، طیاروں کی مرمت، انٹیلیجنس جمع کرنے، حزب اللہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے، قبل از وقت وارننگ سسٹمز اور اسرائیلی حملوں کی کوآرڈینیشن کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔
🔻 اردن
رائٹرز اور واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹس کے مطابق، اردن نے المفرق فضائی اڈے کو ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر امریکہ اور نیٹو کے حوالے کیا، جہاں سے امریکی طیاروں کے لیے ایندھن بھرنے، ان کی دیکھ بھال اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر دباؤ کم کرنے جیسے امور سرانجام دیے گئے۔
🔻 امارات
الظفرہ فوجی اڈہ امریکی F-35 جنگی طیاروں کی میزبانی کرتا رہا۔ اسی اڈے سے امریکی افواج لبنان کے مواصلاتی نظام میں مداخلت اور جاسوسی پروازیں انجام دیتی رہیں۔
🔻 دیگر ممالک
مصر، سعودی عرب اور یونان نے بھی امریکہ، نیٹو اور اسرائیل کو براہ راست یا بالواسطہ اسی نوعیت کی فوجی اور لاجسٹک معاونت فراہم کی، تاکہ اسرائیل کی لبنان میں جنگی مہم کو مزید تقویت دی جا سکے۔

خلاصہ بیان

امریکہ اور نیٹو نے لبنان کی جنگ میں براہ راست فوجی مداخلت کی، جس میں فضائی حملے، خصوصی آپریشنز اور آپریشنل منصوبہ بندی شامل تھے۔

مغربی ممالک نے اسرائیل کو اہم لاجسٹک معاونت فراہم کی، جیسے ایندھن کی فراہمی، طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال، جبکہ اردن، امارات اور قبرص میں موجود فوجی اڈے اسرائیلی آپریشنز کے لیے استعمال کیے گئے۔

مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اعلیٰ سطح کی جاسوسی اور انٹیلیجنس معلومات فراہم کیں تاکہ اسرائیل کے ہدف بندی آپریشنز کی حمایت کی جا سکے۔

اسرائیل نے امریکی اور نیٹو کے جدید ترین جنگی سازوسامان کا بھرپور استعمال کیا، جن میں لڑاکا طیارے، اسمارٹ میزائل، گائیڈڈ بم، فضائی دفاعی نظام، اور جدید ترین بحری و زمینی سسٹمز شامل تھے۔

برطانیہ، فرانس اور اٹلی جیسے نیٹو ممالک نے اپنی جنگی اور جاسوسی طیارے، لاجسٹک سپورٹ اور فوجی اڈوں کے ذریعے اسرائیل کی مدد کی، خاص طور پر قبرص، امارات اور اردن میں موجود بیسز کو آپریشنز میں بروئے کار لایا گیا۔

اسرائیل اور نیٹو کے درمیان فوجی تعاون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان نہیں رہی، بلکہ یہ ایک وسیع پیمانے پر مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ جنگ میں تبدیل ہو گئی۔

“اولی البأس” جنگ اسرائیل کی مغربی فوجی اور تکنیکی مدد پر بڑھتی ہوئی انحصار کی ایک واضح مثال ہے، جس نے اس جنگ کو ایک اسٹریٹجک شراکت داری میں بدل دیا اور خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔