صہیونی ریاست  کے خلاف مصر کی جنگی آمادگی

قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے اور اس کی مضبوطی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، اور صیہونی حلقوں نے اسرائیلی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے اور اس کی مضبوطی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، اور صیہونی حلقوں نے اسرائیلی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔

اسرائیل اور مصر کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی

فارس پلس گروپ کے مطابق، 23 اکتوبر 2023 کو آپریشن “طوفان الاقصی” کے بعد غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک، مصر اور اسرائیل کے تعلقات میں متعدد بار تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔

اس حالیہ کشیدگی کا تعلق اس وقت سے ہے جب چند ہفتے قبل امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے مصر اور اردن منتقل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، اور صہیونی  حکومت نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا۔

اردن اور مصر دونوں نے سیکیورٹی، سماجی، اقتصادی اور آبادیاتی خدشات کے پیش نظر اس منصوبے کی مخالفت کی، خاص طور پر مصر نے، کیونکہ اس کی غزہ کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے اور وہ اس منصوبے کے نفاذ کے لیے پہلا ہدف بن سکتا ہے۔

مصر کی اس مخالفت کا اظہار صرف مصری حکام کے بیانات اور سرکاری مؤقف تک محدود نہیں رہا، بلکہ مصری فوج نے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ غزہ کے فلسطینیوں کو صحرائے سینا کی طرف زبردستی منتقل کرنے کی کسی بھی ممکنہ کوشش کا مقابلہ کیا جا سکے۔

صحرائے سینا میں مصر کی فوجی موجودگی میں اضافہ— صہیونی ریاست میں شدید ردعمل

مصر کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کے اقدام نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ردعمل کو جنم دیا ہے۔

صیہونی میڈیا کے بعض حلقوں نے اس فوجی اقدام کو قاہرہ کی جانب سے تل ابیب کے خلاف اعلانِ جنگ اور دوسری طرف “کیمپ ڈیوڈ” معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل اور مصر کے درمیان ممکنہ فوجی تصادم کے مختلف امکانات پر بات کی اور صیہونی قیادت کو اس حوالے سے خبردار کیا ہے۔

فوجی تصادم کے امکان پر اسرائیل میں ہنگامی تیاریاں

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران، عبرانی زبان کے میڈیا نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا:

“مصر کی فوجی دھمکی کا سامنا کرنے کے لیے فوری تیاری کی ضرورت ہے”۔

عبرانی ویب سائٹ “nziv” نے اس رپورٹ میں اسرائیلی فوج پر زور دیا کہ وہ مصر کے ساتھ ممکنہ جنگ کے لیے تیار ہو جائے اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فوجی، سفارتی اور مالیاتی محاذ قائم کرے۔

یہ رپورٹ معمولی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ اسرائیل میں پائے جانے والے اس بڑھتے ہوئے خدشے کی عکاسی کر رہی تھی جو مصر کی جانب سے صحرائے سینا میں فوجی قوت میں اضافے کے بعد پیدا ہوا ہے۔

اگرچہ قاہرہ نے سرکاری سطح پر کسی بھی فوجی تصادم کے ارادے کا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن مصری میڈیا نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اسرائیل کو کسی بھی قسم کی کشیدگی بڑھانے کے نتائج سے خبردار کیا اور اسرائیل کے لیے کسی بھی قسم کے سیکیورٹی خطرے کے الزامات کو مسترد کر دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے:

کیا واقعی مصر اور اسرائیل کے درمیان فوجی تصادم کا خطرہ موجود ہے؟

یا یہ محض میڈیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے جس کے پیچھے کچھ سیاسی مقاصد کارفرما ہیں؟

عبرانی ویب سائٹ “nziv” کی رپورٹ— اسرائیل اور مصر کے درمیان ممکنہ جنگ کا تجزیہ

عبرانی ویب سائٹ “nziv” کی رپورٹ میں مصر کی فوجی طاقت، اس کی بڑھتی ہوئی جنگی صلاحیت، اور گزشتہ 20 سالوں کے دوران مصری فوج کی مسلسل تربیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس کا مقصد اپنی جنگی مہارت کو برقرار رکھنا اور اسے مزید بہتر بنانا ہے۔

اس رپورٹ میں ایک اہم سوال اٹھایا گیا ہے:

“اگر مصر اسرائیل پر اچانک حملہ کر دے تو تل ابیب کیسے ردعمل دے گا؟ اسرائیلی فوج کس طرح مصری اسپیشل فورسز کے ممکنہ ہیلی برن آپریشن یا مصر کی جانب سے اسرائیل کے اسٹریٹیجک مراکز اور فوجی اڈوں پر وسیع پیمانے پر میزائل حملوں کا مقابلہ کرے گی؟”

 صہیونی ریاست کی پیشگیرانہ جنگی حکمت عملی

رپورٹ میں “بیدار باش ہارون” نامی ایک اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے، جو ایک ممکنہ پیشگیرانہ حملے کا منصوبہ ہے تاکہ اسرائیل کو فوجی برتری حاصل رہے اور کسی بھی جنگ کی صورت میں مصر کو ابتدائی مراحل میں ہی کمزور کیا جا سکے۔

مصر اور اسرائیل کی حکمت عملی خاموشی اور عسکری تیاریاں

قاہرہ نے ان بیانات پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا، لیکن اس نے عملی طور پر اپنی فوجی تیاریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

مصر کے وزیر دفاع عبدالمجید صقر نے صحرائے سینا میں تعینات جنگی یونٹس کا معائنہ کیا اور اس دوران اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ممکنہ کشیدگی کا سامنا کرنے کے لیے مکمل تیاری پر زور دیا۔

دوسری جانب، تل ابیب نے بھی قاہرہ کی طرح خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس سے یہ امکان مزید مضبوط ہو گیا ہے کہ جنگ کا آپشن فی الحال دونوں فریقوں کے میز پر نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، موجودہ تناؤ زیادہ تر “میڈیا وار” کا حصہ ہے، جو قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کے ردعمل میں پیدا ہوا

میڈیا تناؤ اور مصنوعی ذہانت— جنگ کے نئے ہتھیار

یہ اشتعال انگیز بیانات صرف اسرائیلی فوجی اور سیاست دانوں تک محدود نہیں رہے بلکہ میڈیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت تک پھیل چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے صارفین نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مصر اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگی تصادم کے خیالی منظرنامے تخلیق کیے۔

اسرائیلی میڈیا نے ایک خطرناک منظرنامہ پیش کرتے ہوئے مصر کے جنوب میں اسوان ڈیم پر بمباری کی تصویری جھلکیاں شائع کیں اور دعویٰ کیا کہ اس کا نتیجہ ایک بے مثال انسانی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جواباً، مصری صارفین نے بھی اسی نوعیت کی تخلیقی جنگی حکمت عملی اپنائی۔ معروف مصری یوٹیوبر “احمد مبارک” نے ایک ویڈیو سیمولیشن جاری کی، جس میں مصری ساختہ “نصر 9000” بم کے ذریعے اسرائیلی دیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملے کا منظر دکھایا گیا۔

یہ ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت پر مبنی جنگ اگرچہ ورچوئل دنیا میں لڑی گئی، لیکن اس کے سیاسی پیغامات واضح تھے۔ دونوں فریقین اپنی تصوراتِ جنگی حکمت عملی کو نفسیاتی بازدارندگی اور میڈیا دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

کیا واقعی مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ قریب ہے؟

اگرچہ مصری اور اسرائیلی میڈیا کے درمیان سخت بیان بازی جاری ہے، لیکن اصل حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست فوجی تصادم کا امکان کم ہے۔

اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

 امن معاہدے کی پاسداری

اسرائیل کی جانب سے مصر کے صحرائے سینا میں فوجی اقدامات کو خلاف ورزی قرار دینے کے باوجود، امن معاہدہ “کمپ ڈیوڈ” کو باضابطہ طور پر معطل کرنے کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

خطے کا غیر مستحکم استحکام

غزہ جنگ اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے دوران، اسرائیل کے لیے مصر کے ساتھ ایک نیا محاذ کھولنا نہایت خطرناک اور بلند ترین رسک والا فیصلہ ہوگا۔

موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر میڈیا کی سطح پر جنگ ہے، جس کا مقصد سیاسی دباؤ اور نفسیاتی برتری حاصل کرنا ہے، بجائے کسی حقیقی جنگ کے۔

اس تنازع سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں، بلکہ اطلاعات، ڈیٹا اور میڈیا بھی تصادم اور جنگ کے اہم ہتھیار بن چکے ہیں۔

مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے منظرنامے، جو میڈیا میں گردش کر رہے ہیں، ممکنہ طور پر صرف ایک نفسیاتی حکمت عملی ہیں، جن کا مقصد سیاسی فوائد حاصل کرنا، حکومتوں پر دباؤ ڈالنا یا عوامی رائے پر اثر انداز ہونا ہوسکتا ہے۔

تاہم، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر، سب سے اہم سوال یہ ہے: کیا یہ

میڈیا کی قیاس آرائیاں اور مفروضے حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں؟