صہیونی ریاست کے ساتھ جو کام عرب ریاستیں نہ کر سکیں وہ یورپ کے ایک ملک آئر لینڈ نےکر دکھایا

گزشتہ 14 ماہ سے بھی زائد عرصے سےجب عرب اور اسلامی ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے مظالم پر خاموشی اور بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں، آئرلینڈ کے تنقیدی موقف نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ اس ملک میں اپنا سفارت خانہ بند کر دے

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ 14 ماہ سے بھی زائد عرصے سےجب عرب اور اسلامی ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے مظالم پر خاموشی اور بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں، آئرلینڈ کے تنقیدی موقف نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ اس ملک میں اپنا سفارت خانہ بند کر دے۔

فارس پلس گروپ : “ہم اپنی تاریخ فلسطینیوں کی نظروں میں دیکھتے ہیں۔” یہ الفاظ لیو ورادکار، سابق آئرش وزیرِاعظم نے مارچ 2024 میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے کہے۔ یہ بیان صرف فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا ایک وقتی اظہار نہیں تھا، بلکہ یہ آئرلینڈ کی ایک طویل المدتی پالیسی کا تسلسل تھا جو فلسطین کے مسئلے کی حمایت، صہیونی ریاست کی جارحیت کی مخالفت، اور بین الاقوامی فورمز پر اس کے چیلنج کا مظہر ہے۔
کئی دہائیوں سے آئرلینڈ اور فلسطین کے درمیان ایک خاص انسانی اور سیاسی تعلق قائم ہے جو نوآبادیاتی نظام اور جارحیت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ فلسطین کے مسئلے کے بڑھتی ہوئی عالمی حمایت کے تناظر میں، آئرلینڈ ان چند یورپی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں مضبوط موقف اپنایا ہے اور ہمیشہ صہیونی ریاست کے قبضے اور اس کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔

آئرلینڈ اور اسرائیل کے تعلقات 7 اکتوبر 2023 سے، فلسطین کے مسئلے کی حمایت میں آئرلینڈ کے عوامی اور سرکاری موقف کی شدت کے باعث، ایک نئے تناؤ میں داخل ہو گئے ہیں۔
یہ موقف آئرش حکام کے سخت بیانات اور اس کے بعد صہیونی ریاست کے خلاف سیاسی اور سفارتی اقدامات میں واضح طور پر نظر آئے۔
غزہ کی جنگ کے دوران دونوں فریقین کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر پہنچا، جب صہیونی ریاست نے دسمبر 2024 میں ڈبلن میں اپنے سفارت خانے کی سرکاری طور پر بند ہونے کا اعلان کیا۔

آئرلینڈ اور فلسطین کے درمیان یکجہتی کی تاریخی جڑیں

آئرلینڈ اور فلسطین کے تعلقات کی بنیاد 20ویں صدی میں اس وقت رکھی گئی، جب آئرش عوام نے یہ محسوس کیا کہ فلسطینی قوم ان ہی تکالیف اور مظالم کا سامنا کر رہی ہے جن کا سامنا انہوں نے برطانوی نوآبادیاتی قبضے کے دوران کیا تھا۔

20ویں صدی کے آغاز میں، جب برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر اپنی حکمرانی قائم کی، آئرلینڈ اپنی آزادی کے لیے برطانیہ کے خلاف جدوجہد کے عروج پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آئرش عوام فلسطینیوں کی انتفاضہ کو اپنی جدوجہد کی عکاسی سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ گہری ہمدردی اور یکجہتی محسوس کرتے ہیں۔

آئرلینڈ 1154 سے 1189 تک “ہنری دوم” کے دورِ حکومت میں برطانوی استعمار کے زیر تسلط چلا گیا۔ برطانیہ نے مذہبی اور عقیدتی بہانوں سے آئرلینڈ کے مختلف علاقوں کے وسائل اور قدرتی ذخائر پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے خلاف آئرش عوام نے بغاوت کی، جسے شدید جبر کے ساتھ کچلا گیا۔ اس دوران بے شمار آئرش باشندے مارے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔

آئرلینڈ کی خانہ جنگی (1922-1923) نے آئرش عوام کو فلسطینیوں کے 1948 کے نکبت (جب اسرائیل کے قیام کے وقت لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے) کے درد اور مصائب کو گہرائی سے محسوس کرنے کے قابل بنایا۔ نکبہ 1948 حقیقت میں آئرلینڈ پر برطانوی استعمار کے دور میں ان کے مصائب کا عکس ہے۔
20ویں صدی کے وسط میں، جب نوآبادیاتی مخالف تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں، آئرلینڈ اور فلسطین کی قومی تحریکیں مشترکہ جدوجہد کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔ 1960 اور 1970 کی دہائی میں، آئرش تنظیموں نے کھل کر فلسطین کے مسئلے کی حمایت کا اعلان کیا۔
آئرش عوام کی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے سب سے نمایاں اقدامات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں برطانوی پالیسیوں کے خلاف آئرش قیدیوں کی بھوک ہڑتال شامل تھی۔ ان قیدیوں، جن میں بابی سینڈز جیسے رہنما شامل تھے، نے اپنی جدوجہد میں فلسطینی مزاحمت سے تحریک لی اور اعلان کیا کہ وہ ظلم کے خلاف فلسطینیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔

آئرلینڈ کی دارالحکومت ڈبلن پہلا یورپی شہر ہے جس نے اسرائیلی مصنوعات، خاص طور پر مغربی کنارے کی بستیوں کی مصنوعات کی درآمد اور استعمال پر پابندی عائد کی۔ اس اقدام کے بعد کئی دیگر یورپی ممالک نے بھی اس کی پیروی کی۔

مزید برآں، آئرلینڈ نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر سالانہ 10 ملین یورو امداد دینے کا اعلان کیا، جس میں سے ایک تہائی رقم اونروا (فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی) کو دی جاتی ہے۔ 2010 اور 2011 کے دوران، آئرلینڈ نے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے دو بحری جہاز غزہ بھیجے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔
آئرلینڈ کا فلسطین کے حوالے سے سرکاری مؤقف

آئرلینڈ نے 1963 میں اسرائیل کو تسلیم کیا، یعنی اس کے قیام کے 15 سال بعد، لیکن 1960 کی دہائی کے آخر سے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت پر زور دیتا رہا ہے۔ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت کے بعد، آئرلینڈ یورپ میں فلسطین کے حامی ممالک میں شامل رہا۔

1980 میں آئرلینڈ یورپی یونین کا پہلا رکن ملک تھا جس نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔

1993 میں، آئرلینڈ یورپ کا آخری ملک تھا جس نے اسرائیل کو دوبلن میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی۔

2021 میں آئرلینڈ کی پارلیمنٹ پہلی یورپی پارلیمنٹ تھی جس نے فلسطینی زمینوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کی مذمت کی۔

طوفان الاقصیٰ کے دوران آئرلینڈ کے اقدامات

7 اکتوبر 2023 کو “طوفان الاقصیٰ” آپریشن کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملے کے جواب میں آئرلینڈ نے فلسطینیوں کے حقوق کے حق میں کئی اہم اقدامات کیے:

1. اسرائیلی حملوں کی مذمت

آئرلینڈ کے وزیر اعظم لیو وارادکار نے اسرائیلی حملوں کو “اجتماعی سزا” قرار دیا اور اسے بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا۔

نومبر 2023 میں، انہوں نے غیر مسلح شہریوں کے قتل اور گھروں و اسپتالوں کی بمباری کو “انسانیت کے خلاف جرم” کہا اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

2. ہتھیاروں کی ترسیل کی روک تھام

مئی 2024 میں آئرلینڈ کی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے اسرائیل کے لیے اسلحے کی ترسیل کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔

3. یورپی یونین سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کی درخواست

آئرلینڈ نے اکتوبر 2023 میں یورپی یونین سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔

4. اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات

دسمبر 2023 میں، آئرلینڈ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے مقدمے میں شامل ہوا۔

5. اسرائیل کی جانب سے دوبلن میں سفارت خانے پر تالا لگانے کا اعلان

15 دسمبر 2024 کو اسرائیل نے آئرلینڈ کے سخت مؤقف کے جواب میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔

آئرلینڈ نے اس اقدام کو اپنی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا۔

دوبلن میں اسرائیلی سفارت خانے کی بندش

15 دسمبر 2024 کو اسرائیل نے آئرلینڈ کے سخت مؤقف کے جواب میں دوبلن میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کر دیا اسرائیلی وزیر خارجہ، گیدعون سار، نے کہا کہ یہ فیصلہ آئرلینڈ کی “انتہائی اسرائیل مخالف پالیسیوں” کے باعث لیا گیا، جن میں فلسطین کو تسلیم کرنے اور اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت شامل ہے۔

اس کے جواب میں آئرلینڈ کے وزیر اعظم، سائمن ہیرس، نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خلاف آئرلینڈ کے مؤقف پر تنقید کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا:
“تل ابیب آئرلینڈ کو اس کے اصولی مؤقف سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ہم اپنے مؤقف پر قائم رہیں گے۔”

یورپی ممالک کے ساتھ اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش

دسمبر 2023 میں آئرلینڈ نے اسپین، بیلجیم، اور مالٹا کے ساتھ مل کر یورپی یونین پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرے۔ یہ کوششیں اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کو روکنے، فلسطینی شہریوں کی حمایت، اور جنگی جرائم کی تحقیقات پر مرکوز تھیں۔

کچھ بڑے یورپی ممالک، جیسے جرمنی اور فرانس، نے ان کوششوں کی مخالفت کی، لیکن آئرلینڈ کی قیادت میں یہ معاملہ یورپ میں اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بازخواست کا سبب بنا۔

جنوری 2024 میں آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہیگنز نے اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کی تعمیر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا:
“اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی توہین ہے۔”

عرب دنیا کی خاموشی کے مقابلے آئرلینڈ کا کردار

وہ اقدامات جو اسرائیل کے مظالم کے خلاف عرب اور اسلامی ممالک سے متوقع تھے، ایک یورپی ملک آئرلینڈ نے سرانجام دیے۔ آئرلینڈ نے فلسطینی عوام کی حمایت میں نہ صرف سفارتی سطح پر آواز اٹھائی بلکہ اسرائیل کے خلاف ایسےعملی اقدامات بھی کیے، جو مسلم دنیا کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں۔

https://farsnews.ir/zafarani/1735114220874054837/