فاران تجزیاتی خبرنامہ: ایک صہیونی فوجی جو اسرائیلی فوج کے ریزرو یونٹ میں شامل ہے، نے غزہ کی پٹی میں صہیونی قابضین کے دانستہ جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: “اسرائیل فلسطینیوں کے لیے کم ترین انسانی حقوق اور اقدار کو بھی تسلیم نہیں کرتا، اور ہمیں ان کی جان لینے میں کوئی پابندی محسوس نہیں ہوتی۔”
تسنیم نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق، عبرانی اخبار ہاآرتص نے ایک صہیونی فوجی کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا جو غزہ کی پٹی میں جنگ سے تنگ آچکا ہے۔ اس فوجی نے اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینی شہریوں پر کیے جانے والے جنگی جرائم کا اعتراف کیا ہے۔
صہیونی فوج کے ریزرو یونٹ کے اہلکار حایم ہارزہاؤ، جو غزہ کی پٹی میں نتساریم کے محاذ پر لڑ رہا تھا، نے ہاآرتص کو بتایا: “اسرائیلی فوج جو کچھ غزہ کی پٹی میں کر رہی ہے، وہ ایک منظم جنگی جرم ہے۔”
اس فوجی نے مزید کہا: “غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ناقابل بیان اور ناقابل قبول ہے کیونکہ یہاں فلسطینیوں کے لیے کسی بھی قسم کی انسانی قدر کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کی زندگی کے حالات جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔”
فوجی نے واضح کیا: “غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں پر فلسطینیوں پر فائرنگ کرنے کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے، اور یہ فوجی جب چاہیں غزہ کے رہائشیوں پر گولی چلا سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی کارروائی یہاں منظم جنگی جرم ہے کیونکہ عمارتوں کو مسلسل تباہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو اندھا دھند نشانہ بنایا جا رہا ہے۔”
اس صہیونی فوجی نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں قتل و غارت اور تباہی ایک معمول بن چکی ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: “یہ پالیسی اسرائیل کے جنگی مقاصد کے لیے کارآمد نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری ان خوفناک جرائم کے پیش نظر، جنگ کے اعلان شدہ اہداف جیسے کہ غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اب ممکن نظر نہیں آتی۔”
فوجی نے کہا: “اس جنگ کا ایک بڑا حصہ غیرضروری اور بے مقصد ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا جواز تھا، لیکن اس جنگ کے کسی بھی مرحلے پر کوئی واضح ہدف نظر نہیں آیا، صرف جنگ اور تباہی نظر آئی۔”
صہیونی فوجی نے مزید کہا: “اسرائیلی فوج جو کچھ کر رہی ہے، وہ ایک سیاہ جنگ ہے جس کے دائرے میں متعدد جنگی جرائم کیے جا رہے ہیں۔”
اس سے قبل بھی کئی صہیونی فوجی غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے خوفناک جرائم کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں صہیونی فوج کے ریزرو یونٹ کے ایک اور اہلکار اریئل شارٹز نے عبرانی ویب سائٹ والا میں ایک مضمون میں کہا: “جنگ کے دوران صاف طور پر سوچنے کے لیے ایک لمحہ تلاش کرنا بہت مشکل ہے، لیکن جب میں نے چند دن پہلے اپنا موبائل فون کھولا، تو میں نے جو تصاویر دیکھیں وہ انتہائی خوفناک تھیں۔ مجھے دم گھٹنے کا احساس ہوا اور یہ واضح ہوا کہ بہت ہی بری صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: “شمالی غزہ میں بچے زندہ جل رہے ہیں، اور لڑکیاں ننگے پاؤں بھاری سامان اپنی پیٹھ پر اٹھائے چل رہی ہیں۔ اسرائیل کے منصوبے کے مطابق، اس علاقے کے 3 لاکھ سے زائد رہائشیوں کو ایک ہفتے کے اندر انخلا کا حکم دیا گیا تھا، اور جو لوگ اس علاقے سے باہر نہیں نکلتے، انہیں دہشت گرد سمجھا جاتا اور موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ لیکن میدان میں دستیاب شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے رہائشیوں کو نکلنے کے لیے کافی وقت نہیں دیا۔”
ظالمانہ محاصرے اور وحشیانہ حملوں کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اور شمالی غزہ کے رہائشی اب بھی غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان پر بمباری، طبی سہولیات تک رسائی کی کمی، بھوک اور پیاس کے ذریعے موت مسلط کی جا رہی ہے۔ اسپتالوں کو بھی محاصرے میں لے کر ان پر بمباری کی گئی ہے، اور قابض فوج کسی بھی قسم کی امداد کی اجازت نہیں دے رہی۔
ان حالات میں، شمالی غزہ کے لوگ کہتے ہیں کہ سینکڑوں شہدا کی لاشیں اب بھی گلیوں اور ملبے کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں