صیہونی جارحیت میں صحافیوں کا قتل عام

صحافیوں کے حوالے سے مغرب اور صیہونی حکومت کے اس منفی رویئے کے باوجود صیہونیوں کے جرائم پوشیدہ نہیں رہے اور عالمی رائے عامہ مجرم اور بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی حکومت کے خلاف متحرک ہوگئی ہے۔

فاران: غزہ میں حماس کے خلاف صیہونی جارحیت میں اب تک 77 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 59 دن گزر چکے ہیں۔ اس جنگ میں 15 ہزار سے زائد شہری جن میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ صحافی بھی ان اہم گروہوں میں سے ایک ہیں، جو اس جارحیت میں صہیونیوں کی جان بوجھ کی بمباری deliberate bombardment سے محفوظ نہیں رہے۔ شہید صحافیوں کے پاس فلسطین، لبنان اور ترکی سمیت مختلف ممالک کی شہریت بھی تھی۔ صرف جمعہ کو جو کہ 7 روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد جنگ کا پہلا دن تھا، 3 صحافی شہید ہوئے۔ ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی کے دو صحافی بھائی منتظر مصطفیٰ الصواف اور مروان الصواف اور الاقصیٰ نیٹ ورک کے کیمرہ مین اور رپورٹر عبداللہ درویش جمعے کے روز شہید ہونے والے تیسرے صحافی تھے۔

صیہونی حکومت کی جانب سے جہاں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہیں بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق جان بوجھ کر صحافیوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم کی ایک مثال ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق صحافیوں کو اپنا کام کرنے کی آزادی اور انہیں مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیئے۔ صحافیوں کا سب سے اہم جرم یہ ہے کہ وہ صیہونیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے، حس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ اس حکومت کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ تشدد حالیہ جنگ میں بہت زیادہ نمایاں ہے۔ آزادی اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی طاقتیں 77 صحافیوں کی شہادت کے سامنے جہاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں بعض افراد اور اداروں نے اس صہیونی جرم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کے آئرش رکن مک والیس نے X سوشل نیٹ ورک پر ایک پیغام شائع کیا اور لکھا ہے “اسرائیل کی نسل پرست حکومت ان صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جو ان کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے کی جرات کرتے ہیں۔” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ 2001ء سے لے کر اب تک صیہونی حکومت نے درجنوں صحافیوں کو شہید کیا ہے، لیکن اس سلسلے میں صیہونی حکومت کسی کے سامنےجوابدہ نہیں ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے آئرش رکن مک والیس نے کہا ہے کہ صیہونی حکام صحافیوں کے تحفظ کی کوئی خواہش نہیں رکھتے اور انہیں جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہیں۔

ادھر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا کہ صیہونی حکومت کا صحافیوں کے تحفظ سے انکار غزہ میں صحافیوں کی تباہی کا سبب بنا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل انتھونی بیلنگر نے بھی اعلان کیا ہے کہ صحافیوں، خواتین اور بچوں کے خلاف جو کچھ ہوا، وہ ٹارگٹ حملے ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ غزہ میں صحافیوں کے قتل کے عین وقت پر صیہونی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے والا مغربی میڈیا صیہونیوں کے جرائم پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو برطرف کر رہا ہے۔ اب تک بی بی سی سمیت مغربی میڈیا کے درجنوں رپورٹروں کو سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت میں پوسٹس شائع کرنے پر ملازمتوں سے برخواست کیا جا چکا ہے۔

صحافیوں کے حوالے سے مغرب اور صیہونی حکومت کے اس منفی رویئے کے باوجود صیہونیوں کے جرائم پوشیدہ نہیں رہے اور عالمی رائے عامہ مجرم اور بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی حکومت کے خلاف متحرک ہوگئی ہے۔ حماس تحریک نے صحافیوں کی حمایت میں ایک بیان میں لکھا ہے: “امریکی صدر جو بائیڈن اور اس کی حمایت یافتہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کی نسل کشی نیز صحافیوں، بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے پر مبنی نازی ازم کی پالیسی سے اپنے جرائم کی حقیقت کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔”