عالمی نظام کی تبدیلی میں شہید سلیمانی کا کردار

جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی بابرکت زندگی کے دوران ایک ایسی میراث چھوڑی جو دنیا کی اقوام کے لیے ایک قطبی عالمی نظام کی تبدیلی کے سفر میں مشعلِ راہ بن گئی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی بابرکت زندگی کے دوران ایک ایسی میراث چھوڑی جو دنیا کی اقوام کے لیے ایک قطبی عالمی نظام کی تبدیلی کے سفر میں مشعلِ راہ بن گئی۔

تسنیم انٹرنیشنل گروپ – پانچ سال قبل، 3 جنوری کو، امریکی حکومت نے “ڈونلڈ ٹرمپ” کے حکم پر بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک دہشت گردانہ کارروائی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر، شہید قاسم سلیمانی، اور عراق کے حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر، ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔
امریکیوں کو امید تھی کہ جنرل سلیمانی کا قتل مشرقِ وسطیٰ میں حالات کو واشنگٹن کے حق میں موڑ دے گا۔ لیکن اس کے برعکس، شہید سلیمانی نے ایک ایسی میراث چھوڑی جو عالمی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے راہ ہموار کرنے والی روشنی بن گئی۔
گزشتہ سالوں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اگرچہ مغرب نے سرمایہ دارانہ اور یک قطبی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب اس یکطرفہ نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے بجائے، ایک نیا کثیرالجہتی نظام ابھر رہا ہے جو نئے عالمی کرداروں کو شامل کر رہا ہے۔
یہ رپورٹ چار پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے جن میں شہید سلیمانی نے یک قطبی امریکی نظام سے کثیرالجہتی عالمی نظام کی تبدیلی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک قومی بندھن سے ماوراء شناخت

جنرل قاسم سلیمانی کے اہم اقدامات میں سے ایک، اسلامی-ایرانی شناخت کو بحال کرنے کے علاوہ، عالمی مزاحمتی محاذ میں ایک فوق القومی، فرقہ واریت سے بالاتر اور خطوں سے ماورا شناخت کی امید اور وژن پیدا کرنا تھا، جو عالمی نظام میں تبدیلی اور ایک نئے نظام کی طرف پیش قدمی کا باعث بنے۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ شہید قاسم سلیمانی سب سے پہلے ایک قومی شخصیت تھے، اور اس کا اظہار عوامی خیالات میں مختلف مواقع پر دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر ان کی بے مثال تشییع میں، جہاں مختلف طبقات اور نظریات کے لوگ شریک ہوئے۔
تاہم، سردار سلیمانی محض ایک قومی شخصیت نہیں تھے۔ وہ سرحدوں سے باہر بھی عراق، شام، فلسطین، لبنان اور دیگر خطوں کے عوام کے لیے ظلم، جارحیت، استحصال اور سامراجی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت اور استقامت کی علامت تھے۔
شہید سلیمانی کی قیادت میں مغربی ایشیا میں مزاحمتی محور نے دو اہم اہداف حاصل کیے:

1. اسلامی شناخت کو فروغ دینا۔

2. امریکہ کی قیادت میں مغربی سامراج کی بالادستی کا مقابلہ کرنا۔

یہ دونوں عناصر قاسم سلیمانی کی شخصیت میں واضح طور پر موجود تھے۔ وہ مزاحمتی محاذ کے ایک منفرد رہنما اور علامت کے طور پر، کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد خطے کو اس مقام تک لے آئے جہاں امریکی بالادستی کا زوال محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ حقیقت تھی جس نے امریکہ کو شدید غصے اور دشمنی پر مجبور کیا اور بالآخر اسے ان کے قتل کا سہارا لینا پڑا۔
حاج قاسم سلیمانی اور خطے میں سماجی یکجہتی کا فروغ
حاج قاسم سلیمانی نے خطے میں ایک ایسی شناختی سیاست کو فروغ دیا جو یورپی اور امریکی طاقتوں کے ذریعے تقسیم شدہ علاقوں میں عوامی سماجی یکجہتی کو پروان چڑھانے میں کامیاب رہی۔ اس کا نتیجہ مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے خلاف نفرت کے بڑھتے ہوئے جذبات کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اس سماجی یکجہتی کے قیام اور اس کے عملی اثرات کا تفصیلی جائزہ وقت طلب ہے، لیکن مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس یکجہتی نے خطے میں ایک نئے تہذیبی کردار کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف عالمی نظام کی تبدیلی میں فعال کردار ادا کر رہا ہے بلکہ مستقبل قریب میں بین الاقوامی سیاست میں ایک نئے طاقتور بلاک کے طور پر سامنے آئے گا۔
شہید قاسم سلیمانی کے اس راہنما کردار نے ان کی شہادت کے بعد بھی اپنا اثر نہیں کھویا بلکہ مزید تقویت حاصل کی۔ مثال کے طور پر، شہادت کے تقریباً دو ہفتے بعد وینزویلا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران جب شہید سلیمانی کا نام لیا گیا تو 51 ممالک کے مہمانوں نے کھڑے ہو کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔
دو سال بعد، ہندوستان کے ایک افسر کی جانب سے کشمیر کے علاقے مگام میں شہید سلیمانی کی تصویر جلانے کے واقعے نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں دکانیں بند ہو گئیں۔ احتجاج اتنے وسیع تھے کہ ہندوستانی افسر کو عوام سے معافی مانگنی پڑی اور انہوں نے حکم دیا کہ سردار سلیمانی اور رہبرِ انقلاب کی تصاویر شہر میں لگائی جائیں۔
رہبرانقلاب اسلامی ان واقعات کو اس بات کا ثبوت قرار دیتے ہیں کہ سردار سلیمانی کا نمونہ ایک “دلکش اور متاثر کن” نمونہ ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا:
“تہران سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر کسی دوسرے ملک میں شہید سلیمانی کی تصویر کی توہین کی جاتی ہے اور عوام ایسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ وہی پولیس جو یہ توہین کرتی ہے، وہی معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔
نئی عالمی طاقت اور اس کے چیلنجز :
فرانسیس فوکویاما، امریکی دانشور اور نظریہ “تاریخ کا خاتمہ” کے بانی، نے سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد اپنی کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے اور مغربی اتحاد کی فتح کا مطلب تمام تہذیبی تنازعات کا خاتمہ ہے، کیونکہ لبرل جمہوریت کا ماڈل دنیا بھر میں تقلید کے لیے ایک نمونہ بن جائے گا۔
فوکویاما اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
“انسانیت نہ صرف ایک خاص بعد از جنگ دور سے گزرنے کی دہلیز پر ہے، بلکہ تاریخ کے خاتمے پر پہنچ گئی ہے: یعنی ہم انسانی نظریاتی ارتقا کے آخری نقطے اور مغربی لبرل جمہوریت کے ماڈل کے عالمی غلبے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں، جو انسانی حکمرانی کی آخری صورت ہے۔”
یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سوویت یونین کے زوال اور مشرقی سپر پاور کے خاتمے کے بعد، حقیقت میں امریکہ نے خود کو عالمی سطح پر ناقابلِ چیلنج حاکم سمجھا۔ فوکویاما کے “تاریخ کے خاتمے” اور ہنٹنگٹن کے “تہذیبوں کے تصادم” جیسے نظریات کی بنیاد پر، امریکہ نئی عالمی ترتیب نافذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس حوالے سے، امریکہ ایک طرف دو طرفہ پابندیوں کی پالیسی اختیار کرکے ایران اور صدام کے عراق کو قابو میں رکھنے یا محدود کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دوسری طرف “گریٹر مڈل ایسٹ” اور “نیو مڈل ایسٹ” جیسے منصوبوں کے ذریعے، خاص طور پر جارج بش جونیئر کے دور میں، اپنے نئے قدامت پسندانہ منصوبوں کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایسے حالات میں، 1369 ہجری شمسی میں، رہبر معظم انقلاب نے سپاہ پاسداران کی قدس فورس کی تشکیل کا حکم دیا۔ سات سال بعد، 1376 ہجری شمسی میں، حاج قاسم سلیمانی نے قدس فورس کی کمان سنبھالی، اور یہ ذمہ داری ان کی شہادت (1398 ہجری شمسی) تک جاری رہی۔ یہ سال خطہ مغربی ایشیا میں امریکہ اور اس کے اتحادی، صہیونی حکومت، کی طرف سے پیدا کیے گئے بحرانوں کے عروج کے سال تھے۔

2001 کے 11 ستمبر کے واقعات، اسی سال افغانستان پر امریکی حملہ، 2003 میں عراق پر امریکی حملہ، 2006 میں 33 روزہ جنگ، 2008 سے 2014 کے درمیان غزہ پٹی پر صہیونی حکومت کے متعدد حملے، اسلامی بیداری کا آغاز اور اسے منحرف کرنے کی امریکی کوششیں، اور شام میں جنگ کا آغاز، ان واقعات کا حصہ ہیں۔

ان سالوں کے دوران، شہید سلیمانی نے مختلف ممالک جیسے عراق، شام، لبنان، افغانستان، پاکستان، یمن، اور ایران میں عوامی رضاکار فورسز کی مدد سے امریکہ اور صہیونی حکومت کے خطرناک منصوبوں کا مقابلہ کیا۔ سردار سلیمانی مقاومت کو ایک میدانی اور عملی تحریک سمجھتے تھے جو مغربی ایشیا میں ہژمونک مساوات کو بدل سکتی ہے۔

سردار سلیمانی کا ماننا تھا کہ مغربی ایشیا کا بنیادی مسئلہ امریکی اور اسرائیلی حکومتیں ہیں، جو اپنے مفادات کو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے اور محور مقاومت کو کمزور کرنے میں دیکھتی ہیں۔ اسی لیے وہ مقاومت کے نظریے کو محض ایک سیاسی بیانیہ نہیں، بلکہ ایک میدانی اور عملی تحریک سمجھتے تھے جو مغربی ایشیا میں ہژمونک مساوات کو تبدیل کر سکتی ہے۔

انہوں نے اپنی مسلسل کوششوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ہژمونک منصوبوں کو چیلنج کیا۔ ان منصوبوں میں فرقہ واریت اور نسل پرستی کو فروغ دینا اور مذہبی تناؤ کو بڑھانا شامل تھا، جسے “شیعی ہلال” کے نام سے ایک سازش کے تحت پیش کیا گیا۔ سردار سلیمانی نے مقاومت کے محاذوں کو مضبوط کرکے امریکہ کی ہژمونی کو کمزور کرنے اور شیعی ہلال کی تفرقہ انگیز حکمت عملی کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی۔

شہید سلیمانی کی کوششوں کا نتیجہ خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور ایران کے حق میں امریکہ کے ہژمونک اثر و رسوخ میں کمی کی صورت میں نکلا۔ ماہرین کے مطابق، ان تبدیلیوں نے ایران کے لیے بین الاقوامی میدان میں دو اہم نتائج پیدا کیے:
پہلا، ایران کی اسٹریٹجک گہرائی کا خطے میں پھیلاؤ، اور دوسرا، ایک ایسی مزاحمتی طاقت کی تشکیل، جو بین الاقوامی تعلقات کے نمونوں کو تبدیل کرنے والے بنیادی عنصر کے طور پر کام کرتی ہے اور ایران کے خلاف خطرات کی سرحدوں کو مخالف ممالک کی گہرائی میں دھکیل دیتی ہے۔

سردار سلیمانی کے دورِ قیادت کے دوران قدس فورس کے اقدامات کا ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے امریکہ کی ان پروپیگنڈا کوششوں کو ناکام بنایا جو خطے کے عوام کو امریکہ کی منصوبہ بندیوں اور ہژمونی کے خلاف بے بس ظاہر کرنے کے لیے کی گئیں۔

تاہم سردار سلیمانی کی سب سے بڑی خدمت مقاومت کے ایک ایسے نسل کی تربیت تھی، جو دوسروں کے بیانیوں اور نظاموں کے اندر اپنی شناخت تلاش کرنے کے بجائے اپنی منفرد اور واحد آرمانوں کے خود راوی اور عملبردار بنے۔ یہ وہ نسل ہے جو شہادت کو خدا کی عطا سمجھتی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول میں کسی بھی رکاوٹ سے خوفزدہ نہیں ہوتی۔
یہ نسل امریکی نظام کے لیے خطے میں سب سے بڑا خطرہ سمجھی جاتی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف اپنے عظیم رہنماؤں کی شہادت کے باوجود اپنے مقاصد کی پیروی ترک نہیں کرتی بلکہ مزید متحد اور یکجہت ہو جاتی ہے۔

3۔ گریٹر مڈل ایسٹ کا ناکام منصوبہ

گزشتہ برسوں میں، امریکہ نے ایک یک قطبی عالمی نظام کے تحت مغربی ایشیا میں ایک منصوبے کو آگے بڑھایا، جسے ایک پرانے منصوبے “سائکس-پیکو” کا تسلسل سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی بازگشت سالوں پہلے سے سنائی دے رہی تھی، اور اس کا مقصد ایران کو بھی اس کے اثرات میں جکڑنا تھا۔

سائکس-پیکو معاہدہ یا معاہدہ ایشیائے کوچک ایک خفیہ معاہدہ تھا جو برطانیہ اور فرانس کے درمیان 9 مئی 1916 کو پہلی جنگ عظیم کے دوران روس کی رضامندی سے طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں شام، عراق، لبنان، اور فلسطین کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ یہ علاقے اس سے پہلے ترک عثمانیوں کے زیر کنٹرول تھے۔ معاہدہ کا نام سر مارک سائکس (برطانیہ) اور فرانسوا جارج پیکو (فرانس) سے لیا گیا۔ اس معاہدے کے ابتدائی مذاکرات 23 نومبر 1915 سے 3 جنوری 1916 کے دوران ہوئے، جو سلطنت عثمانیہ کی شکست کی پیشگی شرط پر مبنی تھے۔

گزشتہ برسوں میں، مغربی ممالک کے ایک منصوبے “نیو سائکس-پیکو” کے حوالے سے خبریں سنائی دے رہی تھیں، جس کا مقصد اس معاہدے کو منسوخ کرکے خطے کے بڑے ممالک کو تقسیم اور چھوٹے حصوں میں بانٹنا تھا۔ جب داعش نے 10 جون 2014 کو عراق کے شمالی شہر موصل پر قبضہ کرکے اپنی نام نہاد اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، تو خطے میں جنگ کی گرد و غبار کے باوجود اس تاریخی معاہدے کے خاتمے کی بازگشت زیادہ زور پکڑ گئی۔

درحقیقت، خطے کی جغرافیائی ساخت تبدیل کرنے، سرحدیں بدلنے، اور بڑے ممالک کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے 2003 میں عراق پر قبضے کے بعد سے سنجیدگی سے پیش کیے گئے تھے۔ ان منصوبوں میں سے ایک عراق اور شام کو تقسیم کرکے عراق کے مغربی حصے اور شام کے مشرقی حصے کو ملا کر ایک سنی ریاست کا قیام تھا، جبکہ دوسرا منصوبہ عراق کو تین حصوں (سنی، شیعہ، اور کردی علاقوں) میں تقسیم کرنے کا تھا۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی اس منصوبے کے حامیوں میں شامل تھے۔

گزشتہ دہائی میں یہ منصوبہ کئی مراحل سے گزرا، لیکن ہر مرحلے پر سردار سلیمانی اور محور مقاومت اس کے خلاف ایک بڑی دیوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور امریکی منصوبوں کو ناکام بنایا۔ ان سالوں میں، سردار سلیمانی نہ صرف عراق اور شام میں دہشتگرد تکفیری گروہوں کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہے تھے، بلکہ شمالی عراق میں کردوں اور ترکمانوں کے درمیان ہونے والے تنازعات (خاص طور پر 2016 میں طوزخورماتو کے تنازعات) میں بروقت مداخلت کرکے محدود جھگڑوں کو ایک بڑی جنگ میں بدلنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔

امریکیوں کی سردار سلیمانی سے دشمنی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے محور مقاومت کو خطے میں امریکہ کے استحکام مخالف منصوبوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے تیار کیا اور خطے کی تمام اقوام کی نمائندگی کرتے ہوئے بین الاقوامی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی۔ اس طرح، امریکہ کی ناقابل تصور شکست کو ایک روزمرہ کی ذلت میں تبدیل کر دیا۔ یہی وجہ ان ممالک کے حوصلے بلند کرنے کا سبب بنی جو امریکی یک قطبی نظام سے آگے بڑھ کر ایک نئے نظام کی طرف گامزن ہونے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

4۔ اسلامو فوبیا کے منصوبے کا مقابلہ

دو قطبی نظام کے زوال کے بعد، امریکہ اور مغرب، جو کمیونزم کے ساتھ منظم اور ساختی دشمنی کے عادی تھے، سرد جنگ کے خاتمے اور پرانے بین الاقوامی نظام کے انتشار کے بعد، کمیونزم کے خوف کو اسلام کے خوف سے بدلنے لگے۔

کچھ تجزیہ کار جو اس مسئلے کو ایک شناختی زاویے سے دیکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد مغرب کی سیکیورٹی حکمت عملی میں ایک شناختی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس تبدیلی کے تحت “شناخت” کو سیکیورٹی کا موضوع بنایا گیا۔ یہ نقطہ نظر دنیا کو “ہم” اور “وہ” میں تقسیم کرتا ہے، جس میں مغربی اقدار کو بلند اور دوسروں کی اقدار کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اس رجحان کا ایک اہم حصہ اسلامو فوبیا ہے۔

برنارڈ لوئیس اور سیموئل ہنٹنگٹن کو ان مرکزی نظریہ سازوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے اسلامو فوبیا کے ایک فکری نظام کی بنیاد رکھی۔ مثال کے طور پر، ہنٹنگٹن نے اپنی “تہذیبوں کے تصادم” کے نظریے میں مغرب اور اسلام کے درمیان تہذیبی سرحدوں پر تصادم کی بات کی۔

گزشتہ برسوں میں یورپ اور امریکہ میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی میں اضافہ ایسے ہی نظریاتی بنیادوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس تناظر میں، یورپ اور امریکہ نے اسلام کے خلاف سخت محاذ کھول رکھا تھا اور شدت سے کوشش کی کہ اسلام سلفی-تکفیری کو حقیقی اسلام کے طور پر پیش کریں اور عالمی رائے عامہ کو اس آسمانی دین کے خلاف بھڑکائیں۔

اسلام سلفی-تکفیری کے نمائندے داعش اور القاعدہ ہیں۔ یہ ایک ایسا غیر منطقی اسلام ہے جو تکفیر، دہشتگردی، اور سر قلم کرنے کے سوا کچھ پیش نہیں کرتا۔ گزشتہ برسوں میں داعش اور القاعدہ نے اس متحجرانہ تشریح کو میڈیا کے ذریعے دنیا میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

داعش کے مجرمانہ اقدامات، خاص طور پر شام، عراق، اور افغانستان میں، اور ان جرائم کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر وسیع تشہیر، مغرب کے اسلامو فوبیا کے منصوبے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ مغربی ممالک نے داعش کو پورے اسلام کا نمائندہ قرار دے کر اپنے عوام کو اسلام کے حقیقی چہرے سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔

اس ماحول میں، سردار سلیمانی نے دنیا کو اسلام کا رحمانی چہرہ دکھایا۔ شہید سلیمانی نے نہ صرف مسلمانوں کی حمایت کی بلکہ مسیحیوں، ایزدیوں، اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی بھی مدد کی، اور اس طرح وہ حقیقی اسلام کے نمائندہ بن گئے۔ اس کے علاوہ، ظالموں اور مستکبروں کے خلاف ان کی سختی نے عوامی رائے میں ان کی مقبولیت کو مزید بڑھایا۔