عراق پر امریکہ کا حملہ کس طرح شام میں افراتفری کا سبب بنا

2003 میں عراق پر امریکی قبضہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، اور اس کے اثرات دو دہائیوں کے بعد بھی خطے میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ: 2003 میں عراق پر امریکی قبضہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، اور اس کے اثرات دو دہائیوں کے بعد بھی خطے میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
عراق پر امریکی حملے کے بعد مغربی ایشیا میں امریکی مداخلت میں اضافہ ہوا، علاقائی حکومتوں کا تختہ الٹا گیا، اور “تھوپی ہوئی افراتفری” پیدا کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی تحریکوں کا استحصال کیا گیا اور انقلابی کامیابیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔
جریدہ “ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ” responsible statecraft نے اپنی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی کہ “امریکہ نے عراق پر قبضے اور وہاں کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔” رپورٹ کے مطابق، شام میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، جیسے حکومت کا زوال اور دہشتگرد تکفیری گروہوں کا ابھرنا، یہ سب اس امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد پورے خطے کو کمزور کرنا اور “ناکام، کمزور اور کٹھ پتلی حکومتوں” کو قائم کرنا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:
“امریکہ نے حکومتوں کو تبدیل کرنے، ‘بہار عرب’ کے نام پر افراتفری پیدا کرنے، خانہ جنگیوں کو ہوا دینے اور دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو آگ کے حوالے کر دیا۔”
صدام حسین کی حکومت کو عراق میں، زین العابدین بن علی کی حکومت کو تیونس میں، حسنی مبارک کی حکومت کو مصر میں، اور معمر قذافی کی حکومت کو لیبیا میں ختم کیا گیا تاکہ یہ ممالک لامتناہی سیکیورٹی بحران اور ناکام حکومتوں کے شکنجے میں پھنس جائیں۔ اس حکمت عملی کا تازہ شکار “شام” ہے، جو ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔
ماہرین متفق ہیں کہ خطے کی موجودہ صورتحال 2003 میں عراق پر امریکی قبضے کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ آج یہ بات زیادہ واضح ہو چکی ہے کہ عراق کی حکومت کو گرانے کے پیچھے خطے میں “سائیکس پیکو” معاہدے کو بدلنے جیسے بڑے مقاصد چھپے تھے۔جبکہ توقع کی جا رہی تھی کہ صدام حسین کی حکومت کے خاتمے سے عراقی عوام کے لیے بہتر حالات پیدا ہوں گے ہوا اس کے برخلاف اور امریکی قبضے نے عراق کو تکفیری دہشتگرد گروہوں کا اڈہ بنا دیا۔ یہ وہی گروہ تھے جو “جہاد” کے نام پر افغانستان سے عراق پہنچے تھے اور بعد میں “داعش” اور “جبہۃ النصرہ” کی شکل میں شام میں نمودار ہوئے۔


امریکیوں نے اس طرح عراق کو القاعدہ کے حوالے کر دیا اور کردوں کو نظر انداز کیا، تاکہ وہ اپنی بے بنیاد خواہش، یعنی امریکی مدد سے کرد ریاست کے قیام کے خواب کو جاری رکھ سکیں۔ امریکیوں کی ان توسیع پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں 2011 میں تیونس، مصر اور لیبیا کی حکومتیں گرائی گئیں، تاکہ یہ ممالک بھی عراق 2003 کی طرح انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائیں۔ ان انقلابوں اور بہار عرب سے جو کچھ باقی رہا، وہ پیدا کیا ہوا انتشار، ناکام حکومتیں، اور ایک غیر مستحکم خطہ تھا۔
ماہرین کے مطابق، یہی تجربہ اب شام میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں افراتفری کی اجازت دی جا رہی ہے تاکہ اسرائیل اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔ امریکہ نے جس طرح 2003 میں عراق کو چھوڑ دیا تھا تاکہ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق اسے لوٹ کھسوٹ کرسکے، وہی حکمت عملی اب شام کے لیے اپنائی جا رہی ہے۔


اسرائیل نے حالیہ دنوں میں شام کے کچھ علاقوں پر عملاً قبضہ کر لیا، اس کی بحری فوج اور اسلحہ کے گوداموں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، اور اس کی فضائی قوت کا بڑا حصہ ختم کر دیا۔ شمال میں، ترکی کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ کردوں کے خلاف کارروائی کرے اور ان کی آزادی کی تحریک کو کچل دے۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ان علاقوں میں امریکہ کی حمایت یافتہ “قسد” اور ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا کے درمیان شدید جھڑپیں ہوں گی، خاص طور پر کیونکہ یہی علاقے شام کے تیل اور گیس کے ذخائر کا مرکز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس بار بھی کردوں کو نظر انداز کرے گا، جیسا کہ اس نے ماضی میں عراق میں کیا؟
لیکن بات یہ ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں شام کے تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اب جبکہ یہاں تیل کی دولت ہے، کیا امریکہ ایک بار پھر کردوں کو نظرانداز کرے گا؟ 2011 سے، امریکہ نے دکھایا ہے کہ وہ شامی کردوں کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس حمایت کے پیچھے بہانہ “داعش” کا تھا تاکہ شام کے تیل کی لوٹ مار کو جائز قرار دیا جا سکے۔ لیکن اب، جب شام کی حکومت گر چکی ہے اور امریکی حمایت یافتہ ملیشیا ملک پر قابض ہیں اور داعش کا کوئی وجود باقی نہیں رہا، کیا امریکہ کردوں کی حمایت جاری رکھے گا؟

ایسا لگتا ہے کہ شامی کرد ان ہی خدشات سے دوچار ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے عراقی کردوں کو لاحق تھے اور اب بھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت ایران موجود تھا، جس نے عراقی کردوں کو داعش سے بچایا۔ لیکن یہاں، اگر امریکیوں نے منہ موڑ لیا تو شامی کرد خود ہی رہ جائیں گے، اور ان کا خواب، یعنی کرد ریاست کا قیام، خاک میں مل جائے گا۔
جہاں تک “تحریر الشام” کا تعلق ہے، جو آج کل خود کو ایک معتدل اور جدید گروپ کے طور پر پیش کر رہا ہے، خطے کے پچھلے سالوں کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ان گروپوں کی آئیڈیولوجی کبھی تبدیل نہیں ہوگی۔ وقت یہ ثابت کرے گا کہ ان پر اعتماد کرنے کی کتنی بھاری قیمت شام کو ادا کرنی پڑے گی۔


ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ شام کی جنگ کا حصہ ہو۔ اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران، انہوں نے کوشش کی تھی کہ امریکی فوجیوں کو شام سے نکال لیا جائے، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم، اب جبکہ اسد اور شامی حکومت کے بارے میں امریکہ کو اطمینان ہے، یہ ممکن لگتا ہے کہ امریکہ شام کو بحرانی حالات کے حوالے کر دے یا یہاں تک کہ اس بحران کو مزید ہوا دے۔
اگر ان میں سے کچھ بھی نہ ہوا، تو ایک اور “ناکام ریاست” کا قیام مشرق وسطیٰ میں یقینی نظر آتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب یہ بہت کم امکان ہے کہ “تحریر الشام” ایک مرکزی اور متحد حکومت تشکیل دے سکے اور شام کو ان بھیڑیوں کے پنجوں سے بچا سکے جو اسے نوچنے پر تلے ہوئے ہیں، خاص طور پر جب اس میں اسرائیل بھی ملوث ہو۔