آگ و خون میں ڈوبا ہؤا فلسطین اور عرب جرنیلوں کی صہیونی کمانڈر سے ملاقاتیں

عرب جرنیل اسرائیلی جرنیل سے “دفاعی تعاون!” کی غرض سے ملاقاتیں کر رہے ہیں

بحرین کی میزبانی میں دہشت گرد امریکی سینٹ کام کے کمانڈر ایرک مائیکل کوریلا کی نگرانی میں "مشترکہ دفاع" کو ممکن بنانے کی غرض سے غاصب صہیونی ریاست کے جوائنٹ اسٹاف کے سربراہ نے پانچ عرب ممالک کے فوجی کمانڈروں سے ملاقات اور بات چیت کی ہے۔

فاران: بحرین کی میزبانی میں دہشت گرد امریکی سینٹ کام کے کمانڈر ایرک مائیکل کوریلا کی نگرانی میں “مشترکہ دفاع” کو ممکن بنانے کی غرض سے غاصب صہیونی ریاست کے جوائنٹ اسٹاف کے سربراہ نے پانچ عرب ممالک کے فوجی کمانڈروں سے ملاقات اور بات چیت کی ہے۔
ایسے حال میں جبکہ غزہ میں انسانیت کو ٹھوکر مارے جا رہے ہیں، لوگوں کو بھوکوں مارا جا رہا ہے، عوام کے خیموں پر بم گرائے جا رہے ہیں، اور ہزاروں بچوں اور خواتین کو شہید کیا گیا ہے، غاصب فوج کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف کے سربراہ نے اسے ہفتے بحرین میں امریکی دہشت گرد ہیڈکوارٹرز سینٹکام کے سربراہ ایرک مائیکل کوریلا کی نگرانی میں منعقدہ ایک اجلاس میں پانچ عرب ممالک کے فوجی کمانڈروں سے ملاقات کی ہے۔
امریکی ویب گاہ ایکسیوس (Axios) کے مطابق، یہ اجلاس “علاقائی سیکورٹی تعاون!” کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہؤا جس میں سعودی عرب، بحرین، مصر، امارات اور اردن کے فوجی کمانڈروں اور صہیونی کمانڈر ہیرزی ہالیوی (Herzi Halevi) نے شرکت کی۔ یہ اجلاس خطے کی جنگی صورت حال کے باعث پیشگی اعلان کے بغیر اور ابتدائی طور پر ذرائع ابلاغ کی آنکھوں سے دور، منعقد ہؤا

ایکسیوس نے لکھا: یہ اجلاس اسرائیل اور ان عرب ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے اور سینٹکام کی نگرانی میں مذکورہ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر مہر تصدیق ہے۔ حالانکہ یہ عرب ممالک غزہ پر اسرائیلی حملوں کی [بظاہر] مذمت بھی کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں ان ممالک اور صہیونی ریاست کے درمیان سیکورٹی تعاون ـ بالخصوص فضائی اور میزائل دفاعی تعاون ـ میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی اور میزائل دفاعی تعاون اجلاس کے اہم ترین مسائل میں سے ایک تھا جس کے بارے میں حالیہ برسوں کے دوران امریکہ نے ان ممالک کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ اپریل کے مہینے میں صہیونی ریاست پر ایرانی حملے کے دوران “امریکہ، اسرائیل، یورپ اور مذکورہ عرب ممالک کا باہمی دفاعی تعاون” ایک عظیم کامیابی ہے اور اگر یہ تعاون نہ ہوتا تو اسرائیل کے لئے اس عظیم حملے کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جاتا۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعاون ہی کی مدد سے ایرانی حملے اور ایرانی ڈرون طیاروں کی پرواز کے بارے میں معلومات کا حصول ممکن ہؤا تھا!!! یہ تعاون نیز ایران، عراق، ار یمن سے مقبوضہ فلسطین کی طرف بھیجنے جانے والے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کا راستہ روکنے میں سعودی عرب اور اردن کا باہمی تعاون اسی وسیع تر تعاون کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت حملہ فلسطین پر ہؤا ہے، حملہ آور اسرائیل ہے، لیکن عرب ممالک فلسطین کا دفاع کرنے کے بجائے حملہ آور اسرائیل کے ساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں اور یہ وہ تاریخ خطا ہے جو مستقبل میں نہيں بخشا جائے گا اور ان ممالک کے سربراہان تاریخ کے کٹہرے میں روسیاہ ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔