عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش اسرائیل کی شکست کی علامت ہے: خالد مقدونی

قدومی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کی شکست قریب ہے اور اس کے دیگر ملکوں سے تعلقات قائم کرنے سے علاقے کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

ایران میں تعینات فلسطینی تحریک حماس کے نمائندے نے بعض عرب ممالک کیجانب سے صہیونی ریاست سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کو ناجائز صہیونی ریاست کی شکست کی علامت قرار دے دیا۔

“خالد قدومی” نے کل بروز بدھ کو تہران میں منعقدہ 35 ویں عالمی اتحاد امت کانفرنس کے موقع پر بعض عرب ممالک کیجانب سے صہیونی ریاست کا تسلیم کرنے سے متعلق کہا کہ ان کی طرف سے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا، ناجائز صہیونی ریاست کی شکست کی علامت ہے کیونکہ فلسطین پر قبضے کے 72 سال بعد، آج اس ریاست کو امریکہ اور سامراجی قوتوں کی مدد سے بحرین جیسے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے اور اب سوال یہ ہے کہ صہیونی ریاست کو دوسرے ملکوں سے تعلقات قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

قدومی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کی شکست قریب ہے اور اس کے دیگر ملکوں سے تعلقات قائم کرنے سے علاقے کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر، متحدہ عرب امارات کے لوگ اس تعلقات سے کیا معاشی فوائد حاصل کریں گے؟ جس ملک میں تیل اور گیس ہے اسے جعلی صہیونی ریاست کی ضرورت نہیں؛ یہ رشتہ اس دوا کی طرح ہے جس کے استعمال کی تاریخ ختم ہو چکی ہے۔

حماس تحریک کے نمائندے نے کہا کہ آج صہیونی ریاست نے امت مسلمہ اور دنیا کے مشترکہ دشمن کی حیثیت سے دنیا کی سلامتی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ہمیں مل کر اس ریاست کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس مشترکہ دشمن جو ہمارے مشترکہ نقصان کا باعث بن رہا ہے کے خاتمے کے لیے القدس اور فلسطین کی آزادی میں مدد کرنا ہوگا۔

انہوں نے فلسطین کی تازہ ترین تبدیلیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں “شمشیر القدس” کی کاروائی کے بعد دنیا نے محسوس کیا کہ فلسطینی عوام آزادی پسند لوگ ہیں جو دنیا کے دیگر آزاد معاشروں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنے حقوق سے محروم ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ فلسطینی عوام تلوار یا مشین گن کا استعمال کر سکتے ہیں، دشمن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا سکیورٹی میں رہ سکتے ہیں اور آج پورے فلسطین میں مزاحمت کی یہی حالت ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی موجودگی میں 19 اکتوبر کو 35 ویں عالمی اتحاد امت کی کانفرنس منعقد ہوئی۔

منعقدہ ہونے والی اس کانفرنس میں دنیائے اسلام کے 52 ممالک کے علماء اور دانشوروں نے شرکت کی ہے۔

مجمع تقریب بین المذاہب کے رابطہ عامہ کی رپورٹ کے مطابق 35 ویں عالمی اتحاد امت کانفرنس “اسلامی اتحاد، امن اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے نمٹنے” کے عنوان سے منعقد ہوئی ہے۔