علاقائی نیٹو کی تشکیل یا اسرائیل کے لئے دفاعی دیوار کی تعمیر؟

شاہ عبد اللہ نے کہا کہ " میں چاہتا ہوں کہ اس علاقائی محاذ میں اور بھی زیادہ ممالک حصہ لیں اور میں ان پہلے لوگوں میں ہوں گا جو مشرق وسطی میں اس علاقائی نیٹو کے وجود میں آنے کی حمایت کرنے والے ہیں ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہارتز اخبار کے اعلی عسکری تجزیہ کار تسفی بارئیل نے کہا ہے کہ “علاقائی نیٹو” نام کی کوئی ایسی چیز ہمارے یہاں نہیں ہے جس سے اسرائیل ملحق ہو ، بلکہ بات تو یہ ہے کہ عربی ممالک کا ایک متوازن ایسا اتحاد تیار ہونا چاہیے جو ایران کی مشترکہ دھمکیوں اور اس سے لاحق چیلنجز کے مقابل اسرائیل کے لئے ایک دفاعی دیوار بنا سکے ۔
اس عسکری امور کے ماہر تجزیہ کار نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : ہمارا مقصد یہ ہے کہ صہیونی رجیم اپنے راڈاروں اور میزائل کی تنصیبات و فضا میں مار کرنے والے سسٹم کو اس علاقے میں اپنے دفاع کے لئے نصب کر سکے جس کے ذریعہ ڈرونز طیاروں اور میزائلوں کی مار کو روکا جا سکے یعنی اس سے قبل کہ اسرائیل کو نشانہ بنانے والی میزائلز یا ڈرونز مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوں ان کی شناسائی ہو جائے اور انہیں منہدم کر دیا جائے ، عراق جیسے ملک میں بھی جہاں امریکی دفاعی سسٹم موجود ہے یہ بات ممکن ہے تاکہ بالکل اسی طرح جیسا کہ اسرائیلی ٹی وی کے چینل نمبر ۱۲ نے کہا ہے کہ عربی ممالک میں اسرائیل کی حمایت میں ایک ایسی دیوار بن جائے جو ایران کی مشترکہ دھمکیوں کے مقابل اسرائیل کو محفوظ رکھ سکے ۔
یاد رہے کہ شاہ اردن نے گزشتہ جمعرات کو مغربی ایشیا میں ایک فوجی اتحاد کی تشکیل کے امکان سے قبل نیٹو کی طرز پر اس اتحاد کے قیام کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ اس اتحاد کا افق بہت ہی واضح ہونا چاہیے ۔
اردن کے شاہ نے ایک امریکی چنیل «CNBC» کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ہم ایسے فوجی محاذ کی تشکیل کی حمایت کریں گے جو مغربی ایشیا میں نیٹو کی طرز پر ہوگا شرط یہ ہے کہ یہ کام ہم فکر ممالک کی ہمراہی میں ہونا چاہیے ، اردن بہت ہی متحرک انداز میں نیٹو کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے اور خود کو اس محاذ کا حصہ سمجھتا ہے دسیوں سال ہیں کہ اردن نے نیٹو کی افواج کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر لڑائی کی ہے
شاہ عبد اللہ نے کہا کہ ” میں چاہتا ہوں کہ اس علاقائی محاذ میں اور بھی زیادہ ممالک حصہ لیں اور میں ان پہلے لوگوں میں ہوں گا جو مشرق وسطی میں اس علاقائی نیٹو کے وجود میں آنے کی حمایت کرنے والے ہیں ۔
یہ باتیں شاہ اردن کی جانب سے ایسی صورت میں کہی جا رہی ہیں کہ سالہا سال ہوئے “عربی نیٹو” کی تجویز کی عربی ممالک کے سربراہوں خاص کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ترویج و تشہیر ہو رہی ہے ، یہ ایسی تجویز ہے جسے سابق امریکی صدر جمہوریہ ڈونالڈ ٹرنپ کے دور میں وہائٹ ہاوس کی جانب سے حمایت حاصل رہی ہے۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں اور عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ عربی نیٹو کا یہ منصوبہ ایک صہیونی اور امریکی منصوبہ ہے اور اسے اس لئے بنایا گیا ہے کہ علاقے میں ان لوگوں کے بقول جو ایران کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اسے کم کیا جا سکے اور اس محاذ کی آڑ میں مزاحمتی محور کو کمزور کیا جا سکے یہ وہ منصوبہ ہے جسے اسی غرض کے تحت دسیوں سال پہلے ہی تیار کیا گیا اور ہر بار مختلف بہانوں سے صہیونی عہدے داروں کی جانب سے پیش کیا جاتا رہا ہے ، لیکن عربی۔اسرائیلی نیٹو کی تشکیل کے چلینجز ہرگز برطرف نہیں ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے ایک ایسے خواب کے طور پر بیان کیا جارہا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے ۔
حال ہی میں بار بار اس منصوبہ کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ مغربی اور عربی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے بیان کی گئی خبروں کے مطابق حال ہی میں امریکہ کے صدر جمہوریہ جو بائڈن کو عنقریب ہی سعودی عرب کا دورہ کرنا ہے اورایک ایسے اجلاس عام میں شرکت کرنا ہے جو شعودی شہنشاہ اور خلیج فارس تعاون کانفرنس کے سربراہوں اور چند عربی ممالک کے عمائدین جیسے مصر اردن اور عراق کے اعلی عہدے داروں کی شرکت کے ساتھ منعقد ہوگی۔
اس ماحول میں صہیونی رجیم کے تشہیری بھونپو اور بعض باخبر ذرائع و منابع نے تل ابیب اور ریاض کے درمیان ایک سیکورٹی کونسل کی تشکیل کی خبر دے رہے ہیں کین ٹیلیویژن کے تجزیہ کار اور خبرنگار گیلی کوہن نے بھی جو بائڈن کے اس خطے میں سفر کے بارے میں کہا ہے کہ ، اس سلامتی کونسل کی تشکیل کے لئے اسرائیل و سعودی عرب اور بعض عربی ممالک کے درمیان ضروری رابطے برقرار ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کامیاب ہم آہنگی و تال میل کا ماحول فراہم ہے تاکہ خلیج فارس کے علاقے میں اس دفاعی دیوار کی تشکیل پر کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے ۔