فاران: شام میں علوی فرقہ سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر ایک نشیب و فراز سے بھرپور تاریخ رکھتا ہے، جو عثمانیوں کے ہاتھوں قتل عام سے لے کر اقتدار تک پہنچنے اور پھر سلفیوں کے ہاتھوں دوبارہ قتل عام کا شکار ہوا۔
“شام” کئی دیگر خطوں کی طرح اپنی تاریخ کے دوران تہذیبوں اور ثقافتوں کے سنگم پر رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مختلف فرقوں اور نسلی اور ثقافتی لحاظ سے مشرق وسطیٰ کے سب سے متنوع ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
یہ ملک، جو دنیا کی قدیم ترین انسانی آبادیوں میں سے ایک اور متعدد تہذیبوں کا مرکز رہا ہے، اسکندر اعظم اور اس کے جانشینوں، پھر روم اور بازنطینی سلطنت کے زیرِ تسلط رہا، یہاں تک کہ مسلمانوں نے اسے فتح کر لیا اور امویوں نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنا کر حکومت قائم کی۔
اس کے بعد، عثمانیوں کی باری آئی، جنہوں نے چار صدیوں تک اس ملک پر حکمرانی کی۔ پھر پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست اور اس کی نوآبادیات کے بکھرنے کے بعد، فرانس نے اس پر قبضہ کر لیا اور 1964 میں شام کی آزادی تک اسے اپنی سرپرستی میں رکھا۔
شام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہ
شام کا رقبہ 185,180 مربع کلومیٹر ہے، اور اس وسیع علاقے میں مختلف فرقے اور قبائل آباد ہیں۔ شام میں 13 سالہ خانہ جنگی کے باعث وہاں کی آبادی کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم عالمی بینک کے مطابق 2023 میں شام کی آبادی تقریباً 23 ملین (دو کروڑ تئیس لاکھ) تھی۔
شام میں اہل سنت اکثریت میں ہیں۔ 2022 کی سرکاری رپورٹوں کے مطابق، 74 فیصد آبادی اہل سنت پر مشتمل تھی، جو عرب، کرد، چرکس، چیچن اور ترکمان اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تقریباً تمام شہروں اور دیہات میں پھیلے ہوئے ہیں، مگر دمشق، حلب اور حمص میں ان کی آبادی زیادہ ہے۔
علوی، اسماعیلی اور دیگر شیعہ فرقے شام کی 13 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، جن میں علویوں کی تعداد 11 فیصد ہے، اور وہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔
مسیحی، شام کی دوسری بڑی اقلیت تھے، اور 2011 میں خانہ جنگی سے پہلے ان کی تعداد 2.2 ملین (22 لاکھ) تھی، جو ملک کی 10 فیصد آبادی کے برابر تھی۔ مگر جنگ، دہشت گرد گروہوں کے حملوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے باعث بڑی تعداد میں مسیحی شام چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
دروزی، جو خود کو “موحد” (یکتا پرست) کہتے ہیں، شام کے دیگر مذہبی فرقوں میں شامل ہیں اور 3 فیصد آبادی یعنی تقریباً 700,000 افراد پر مشتمل ہیں۔
شام اسماعیلی فرقے کا بھی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا مسکن ہے، اور ان کے پیروکاروں کی تعداد 250,000 (ڈھائی لاکھ) یعنی 1 فیصد آبادی کے برابر ہے۔
ان کے علاوہ، شام میں یزیدی بھی آباد ہیں، جو زیادہ تر حسکہ، اس کے دیہات، حلب، اس کے مضافات اور عفرین شہر میں رہائش پذیر ہیں۔
شام میں علوی فرقہ
علوی یا نصیری فرقے کی بنیاد محمد بن نصیر النمیری البصری نے رکھی، جو تیسری صدی ہجری/ نویں صدی عیسوی میں عراق میں پیدا ہوئے۔
تاریخی حوالوں کے مطابق، النمیری کا تعلق بنی نمیر قبیلے سے تھا، جو عراق کے جنوب میں دریائے فرات کے قریب آباد تھا۔ یہ قبیلہ شام میں موجود بنی تغلب قبیلے کا حلیف تھا، جو دولت حمدانیہ کا مرکزی ستون تھا۔ حمدانیوں نے دسویں صدی عیسوی میں حلب پر حکومت کی۔
جب سلطنت عثمانیہ نے شام پر قبضہ کیا، تو عثمانی سلاطین نے علویوں کو “نامسلمان” اور “کافر” قرار دیا اور بارہا ان پر حملے کیے۔ عثمانیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے، یہ مذہبی اقلیت، جو پہلے ہی مختلف حکومتوں کے جبر سے بچنے کے لیے شمال مغربی شام کے پہاڑوں میں پناہ لے چکی تھی، مزید ان ہی علاقوں میں محدود ہو کر رہ گئی۔
قتل و غارت، خیانت، قید و غلامی علویوں کی قسمت کا حصہ بن گئے، اور یہ صورتحال انیسویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس عرصے میں علویوں کے دیہات ویران ہوگئے اور لاذقیہ، جو ان کا سب سے بڑا مسکن تھا، شدید متاثر ہوا۔
غربت اور بدحالی کے باعث بہت سے علویوں کو اپنے گھر اور زرعی زمینیں چھوڑ کر شام کے شہری مراکز خصوصاً حماہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی، جہاں وہ زمینداروں کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئے۔
فرانسیسی سرپرستی کے دوران شام میں علویوں کی صورتحال
1920 میں سائکس-پیکو معاہدے اور فرانس کی شام پر سرپرستی کے بعد، علویوں کی حالت اچانک تبدیل ہوگئی۔ ایک طرف، فرانس شام کے کثیر المذاہب سماجی ڈھانچے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، اور دوسری طرف علوی فرانسیسی قبضے کے حامی نہیں تھے۔ تاہم، اس قبضے نے انہیں سماجی محرومیوں اور سیاسی تنہائی سے نجات دلائی، جس کے نتیجے میں فرانسیسیوں اور علویوں کے درمیان ابتدائی طور پر ایک قسم کا تعاون پیدا ہوا۔
1920 میں، شام میں فرانسیسی گورنر جنرل گورو نے جبال انصاریہ میں علویوں کو خودمختاری دی اور 1922 میں انہیں مکمل آزادی دے دی۔ یہ صورتحال 1924 تک برقرار رہی اور علویوں کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔
مجموعی طور پر، فرانسیسی سرپرستی کا دور، ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار علویوں کے لیے ترقی کا ایک سنہری موقع ثابت ہوا، خاص طور پر معاشی میدان میں۔ اس معاشی ترقی نے بہت سے علویوں کو پہاڑوں سے نکل کر میدانی علاقوں میں آباد ہونے اور آہستہ آہستہ شہری زندگی اپنانے پر مجبور کر دیا۔
اس دوران، علویوں کو فوج، سیکیورٹی اداروں اور بعث پارٹی میں شامل ہونے کا موقع ملا، جس نے انہیں مستقبل میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے تیار کیا۔
علویوں کا اقتدار میں آنا 1963 میں شروع ہوا، جب صلاح جدید، ایک علوی فوجی افسر کو شامی فوج میں بھرتیوں کا انچارج بنایا گیا۔ اس افسر کے ذریعے سینکڑوں علوی فوج میں شامل ہوئے اور ترقی کی منازل طے کیں۔
1970 میں، جنرل حافظ الاسد نے بغاوت کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر لیا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ حافظ الاسد کی وفات کے بعد، ان کے بیٹے بشار الاسد نے حکومت سنبھالی اور 8 دسمبر 2024 تک شام کے صدر رہے۔
اقتدار میں علویوں کا عروج
جیسا کہ پہلے ذکر کہا گیا، علوی فرقہ شام کی آبادی کا تقریباً 11 فیصد ہے۔ ماضی میں، یہ فرقہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ اور مظلوم تھا، لیکن فوج میں ترقی حاصل کرنے اور بعث پارٹی میں شامل ہونے کے بعد، 1960 کی دہائی کے آخر میں شامی سیاست پر حاوی ہو گیا۔ اس سیاسی حکمتِ عملی کا اصل معمار جنرل حافظ الاسد تھا۔
1971 میں، حافظ الاسد شام کے صدر بننے میں کامیاب ہو گئے، جبکہ اس سے پہلے یہ عہدہ ہمیشہ اہل سنت کے پاس رہا تھا۔ اپنی ابتدائی حکمرانی میں، اسد نے دیگر اقلیتی گروہوں جیسے دروزیوں، مسیحیوں اور کردوں پر انحصار کیا، تاکہ اپنی حکومت مستحکم کر سکے۔
تاہم، اہل سنت اکثریت کی مخالفت اور اندرونی سازشوں کے باعث، جو ایک علوی حکمران کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، حافظ الاسد نے فوج اور حکومتی عہدے اپنے ہم مسلک علویوں کے سپرد کرنا شروع کر دیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے دیگر اقلیتوں کے خلاف قتل و غارت کا آغاز کیا۔
اصل میں، ماضی میں شام میں عدم استحکام اور انتشار کی بڑی وجہ فرقہ واریت اور مسلسل فوجی بغاوتیں تھیں، جو ملک میں عدم استحکام اور بدانتظامی کو فروغ دیتی رہیں۔ یہ صورتحال حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد بدل گئی، کیونکہ انہوں نے فوج اور سیکیورٹی اداروں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
اسد نے اپنے قریبی حامیوں، خاص طور پر علوی افسران کو اہم عہدوں پر فائز کیا اور ایک نیا عسکری ڈھانچہ تشکیل دیا۔ تاہم، علوی فرقہ کبھی بھی شام کے عوام کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کے درپے نہیں تھا۔
حافظ الاسد نے کبھی شام کو علوی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کی، لیکن اپنی طاقت کے استحکام اور ملک کو بدامنی سے بچانے کے لیے قابلِ اعتماد علویوں کو اہم حکومتی اور سیکیورٹی عہدوں پر تعینات کیا۔ اسی وجہ سے، وہ ہمیشہ اہل سنت کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے، جو خود تاریخی طور پر علویوں پر ظلم کرتے آئے تھے۔
اسلامی تحریکیں اور علویوں کے درمیان کشمکش
گزشتہ پچاس سالوں کے دوران، مشرق وسطیٰ میں متعدد اسلام پسند تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں، جن میں سب سے نمایاں مصر کی “اخوان المسلمین” ہے۔ یہ تحریک تیزی سے دیگر ممالک جیسے اردن اور شام میں پھیل گئی۔
جب حافظ الاسد شام میں اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے تھے، اسی دوران اخوان المسلمین، جو کہ سلفی سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتی تھی اس تحریک نے شام کے اہل سنت میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔ اس نے اسد حکومت کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں اور اس کی پالیسیوں پر سخت تنقید اور مخالفت کا آغاز کیا۔
1970 کی دہائی کے آخر میں شروع ہونے والی یہ مخالفت، 1980 کی دہائی میں مزید شدت اختیار کر گئی۔ اخوان المسلمین کے کارکنوں نے علوی فوجی افسران، سرکاری عہدیداران اور بعث پارٹی کے رہنماؤں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
اس تنازع کا نقطۂ عروج فروری 1982 میں شہر حماہ میں دیکھنے میں آیا، جب اخوان المسلمین کے جنگجوؤں نے بغاوت کرتے ہوئے درجنوں سرکاری اور فوجی افسران کو قتل کر دیا اور شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔
حافظ الاسد نے اس بغاوت کا جواب شہر پر شدید بمباری اور باغیوں کے سخت کچلنے کی صورت میں دیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے اخوان المسلمین سے وابستہ افراد کو گرفتار کرنے کی مہم بھی چلائی۔
مغربی ممالک نے حماہ کے واقعات کو اسد حکومت کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، خاص طور پر شام میں 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران۔ انہوں نے “صیدنیایا جیل” کو اسد حکومت کے ظلم و ستم کی علامت کے طور پر پیش کیا۔
تاہم، اسی دوران مغربی ممالک نے داعش، جبهة النصرہ (جس کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہا تھا) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل و غارت کو نظر انداز کیا، حالانکہ یہ گروہ خود مغربی حمایت یافتہ تھے اور دنیا کے درجنوں ممالک سے ہزاروں تکفیری دہشت گردوں کو شام بھیجا گیا تھا۔
بشار اسد کا زوال اور جولانی کا اقتدار میں آنا
2000 میں حافظ الاسد کی وفات کے بعد، شام میں علویوں کی حکمرانی ان کے بیٹے بشار الاسد کے اقتدار میں آنے سے گرچہ جاری رہی۔ تاہم، ایک دہائی بعد، ” بہار عرب ” یا اسلامی بیداری کے نام سے مشہور تحریک کے دوران، شام خونریز عالمی جنگ کا میدان بن گیا، جہاں علویوں پر اقتدار پر قبضے اور اکثریت پر ظلم کے الزامات لگائے گئے۔
لیکن اصل حقیقت یہ نہیں تھی۔ درحقیقت، یہ جنگ ایک بڑی امریکی-صہیونی سازش یعنی “نیو مڈل ایسٹ پلان” (نیا مشرق وسطیٰ منصوبہ) کا حصہ تھی، جس کے خفیہ عزائم وقت گزرنے کے ساتھ مزید عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔
اس بحران کے دوران، بشار الاسد کی حکومت کو بارہا مغربی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد تکفیری گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہی مغربی ممالک ایک طرف ان دہشت گرد گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہے تھے، جبکہ دوسری طرف انہیں اپنی “دہشت گردی کی فہرست” میں بھی شامل کیے ہوئے تھے۔
اسد حکومت پر “انسانیت کے خلاف جرائم” کا الزام لگا کر اس پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں، اور یہاں تک کہ شام کو عرب لیگ سے بھی نکال دیا گیا۔
تقریباً 14 سال تک مغربی، صہیونی اور تکفیری سازشوں کے خلاف مزاحمت کے بعد، 8 دسمبر گزشتہ سال بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
اسد حکومت کا زوال شام ہی نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے زلزلے کے مترادف تھا، جس کے جھٹکے آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
بالآخر، وہ حکومت شام میں برسرِ اقتدار آ گئی، جسے مغرب ایک دہائی سے لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ابو محمد الجولانی، جو کہ “ہیئت تحریر الشام” (سابقہ “جبهة النصرہ”) اور القاعدہ کا شام میں رہنما تھا، اقتدار پر قابض ہو گیا۔
جولانی کے اقتدار میں آتے ہی، شام میں قتل و غارت اور فرقہ وارانہ خونریزی بڑھ گئی، جس میں خاص طور پر علوی برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
علویوں کا ساحلی علاقوں میں قیام
جولانی کے دہشت گردوں کی جانب سے قتل عام اور خونریزی اتنی شدت اختیار کر گئی کہ بالآخر ساحلی علاقوں میں علویوں کی مزاحمت شروع ہو گئی۔
ان قتل عاموں میں، جولانی کے دہشت گرد زمین اور فضا سے عام شہریوں اور گھروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں کہ جولانی اور اس کے دہشت گرد گروہ ایسی سفاکانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اس کے برعکس کوئی رویہ اختیار کرتے تو حیرانی کی بات ہوتی۔
اصل تعجب کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک ان مظالم پر مکمل خاموش ہیں، جبکہ یہ قتل عام تین ماہ سے مسلسل جاری ہے۔
یہ وہی مغربی ممالک ہیں جو کبھی اسد حکومت کی معمولی ترین کارروائیوں کو بھی “انسانی حقوق کی خلاف ورزی” قرار دیتے تھے اور فوری طور پر سلامتی کونسل میں قراردادیں پاس کرواتے، مذمت کرتے اور پابندیاں عائد کرتے۔
لیکن اب، جب کہ علوی برادری کا بے دریغ قتل عام جاری ہے، وہی مغربی طاقتیں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں