عوامل و اسباب عزت اور شاہراہ حسینیت
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عزتوں کا راستہ بھی ازل سے ہے ذلتوں کی داستان میں ابتدا سے ہے اور عزت و ذلت کی یہ دو راہیں قیامت تک رہیں گی اس لئے کہ بندگی پروردگار اور اس کی نا فرمانی کا دستور ابتدا سے ہے انسان کو اختیار حاصل ہے کہ بندگی کی راہوں پر گامزن ہو کر عزت مند بن جائے یا پھر اللہ کی نافرمانی کی راہ پر چلتے ہوئے ذلیل و خوار ہو جائے۔ حسینیت وہ راستہ ہے جو بتاتا ہے کہ بندگی پروردگار ہر حال میں کر کے کس طرح عزت مند و سر بلند ہوا جاتا ہے یزیدیت وہ راہ ہے جو بتاتی ہے اپنے نفس کی بندگی کے بعد کس طرح انسان ذلیل و خوار ہوتا ہے ۔
حسینیت مساوی ہے عزت و سربلندی سے, یزیدیت یکساں ہے ذلت و خواری کے ساتھ. آج بھی ذلت و خواری و ہر اس جگہ نظر آئے گی جہاں یزیدیت کی پرچھائیاں ہیں اور آج بھی عزت و سر بلندی وہاں نظر آئے گی جہاں حسنیت کے سایے ہیں. آج ہر اس مقام پر امت مسلمہ ذلیل و خوار ہے جہاں یزیدیت کے عناصر کار فرما ہیں اور آج بھی ہر اس جگہ امت مسلمہ ہی سے متعلق ایک دھڑا اور وہ گروہ سر بلند و با عزت ہے جس نے حسنیت کی راہ پر قدم رکھے اورحسینیت کی قدروں کی پاسداری ہے ۔ اگر آج ہم اپنے چاروں طرف دہکتی آگ اور خون کے سمندروں کو دیکھ رہے ہیں اور امت مسلمہ مجموعی طور پر تضحیک و تشنیع کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین (ع) کو طاق نسیاں پر رکھ دینا ہے اس لئے کہ جہاں جہاں یہ حسینی فکر انسانی رگ و ریشہ اور انسانی جسم میں حرکت کرتے ہوئے لہو کا حصہ بن گئی وہاں انقلاب کی آہٹ سنائی دیتی نظر آتی ہے وہاں عزت و سربلندی کے جل ترنگ کانوں میں رس گھولتے ہیں چنانچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور بڑی طاقتوں کے سامنے اسکا استقلال اس بات کی دلیل ہے کربلا وہ منارہ عزت ہے جہاں سے حریت پسندی، مردانگی ، شجاعت اور حق کی نصرت کی اذان دی جاتی، اور اسی بنا پر ذلتوں کے دیوں کی پجاری استبدادی فکر کے حامل خواہشات نفس کے غلام ہر وقت حسینیت سے خوف کھائے رہتے ہیں ، کیونکہ حسینی فکر انکے استبدادی پایوں پر قائم ذلیلانہ حکومت کے محلوں کو ڈھا سکتی ہے اسی لئیے ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ حسینی فکر دنیا میں نہ عام ہونے پائے اور عزت حسینی کا سبق قومیں نہ سیکھ سکیں کہ انکے اندر عزت نفس جاگ گئی اور انہوں نے عزت و سربلندی کی خاطر قربان ہوجانے کو اپنے لئیے کمال سمجھ لیا اور جھوٹے عزت کے دعویدار ذلیل بہروپیوں کی قلعی کھولنے لگے تو ان کا سارا حساب کتاب بگڑ جائے گا لہذا ان کی کوشش ہے کہ کربلا کا وہی رخ لوگوں کے سامنے رہے جس میں وہ ایک تاریخی واقعہ کو واقعہ کی صورت ہر سال بیان کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کربلا کا وہ رخ عام ہو جائے جس کے آئینہ میں قومیں اپنے رخِ حیات کو سنوار کر آگے بڑھنے لگیں اور عزت و سربلندی کا وہی درس خود بھی سیکھ لیں جہاں ظالم سر کاٹ کر بھی سرنگوں رہتا ہے اور عزتوں کے وارث حسین ؑ کا سر کٹ جانے کے بعد بھی سربلند رہتا ہے ،جہاں یزید کے ساتھ ابن زیاد ،و شمر و عمر سعد اپنے ہاتھوں میں اقتدار ہونے کے باوجود آل رسول کو ہر طرح سے ذلیل کر دینے کا خواب لیکر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں آل رسول کو ذلیل کرنے والے خود ذلیل ہو جاتے ہیں لیکن اسراء اھلبیت جہاں جہاں سے گزرتے ہیں عزتوں کے چمن کی آبیاری کرتے ہوئے درس عزت و سربلندی دیتے ہوئے گزرتے ہیں اور تاریخ میں منارہ عزت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔لہذا آج ہر دور سے زیادہ ضروری ہے کہ اس حسینی راہ عزت و سر بلندی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس پر چلنے کے بعد ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑے رہنے اور پابند سلال رہنے کے بعد بھی سید سجاد عزیز رہتے ہیں جبکہ پابند سلال بنانے والے یزید و ابن زیاد و ان کے گماشتے ذلیل ہو جاتے ہیں ،وہ راہ عزت حسینی جس پر چل کر پس گردن بندھے ہاتھوں کے بعد بھی دربار ابن زیاد میں زینب عزیز رہتی ہے لیکن تخت حکومت پر بیٹھا ہوا ابن زیاد اپنے ہی درباریوں کے سامنے ذلیل ہو جاتا ہے ۔ یقینا عزت حسینی کی راہ کی صحیح شناخت ہماری تقدیر بدل دینے میں معاون ہوگی کہ اسی راہ میں عزت کے حقیقی مفہوم کی وضاحت ممکن ہے اور اسی راہ میں عزت کے مختلف وہ پہلو سامنے آ سکتے ہیں جن کے بغیر حقیقی عزت کا ادراک ممکن نہیں اس لئیے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں عنصر عزت اور مفہوم سر بلندی کو سر کٹا کر جس انداز سے پیش کیا ہے اس کی نظیر نہ کربلا سے پہلے ملتی ہے نہ اس کے بعد بقول استاد ڈاکٹر نعمت اللہ صفری :”اگر ہرا مام کی زندگی میں انکی صفت کمال کی تجلی کو ایک لقب دے دیا جائے تو حسین ؑ کو حسین ِ عزیز کہا جائے گا اس لئیے کہ قیام امام حسین علیہ السلام میں عزت طلبی عنصر اس طرح کار فرما ہے کہ اس واقعہ کے سلسلہ سے نقل ہونے والی رایتوں اور تاریخی مندرجات کو اسی عنصر عزت کے ملاک اور معیار پر پرکھا جا سکتا ہے اور ان تاریخی بیانات کو اخذ کیا جا سکتا ہے جو عنصر عزت کے محور پر ہیں ،،[1]
ایک طالب حقیقت جب معتبر تاریخی مآخذ کا مطالعہ کرتا ہے اور قابل اعتبار تاریخی کتب میں اس واقعہ کو دیکھتا ہے تو امام حسین علیہ السلام کا نام آتے ہیں جو چیز سب سے پہلے اس کے ذہن میں ترسیم ہوتی ہے وہ عزت و سربلندی ہے ۔
واقعہ کربلا میں عزت کے جلووں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئیے ضروری ہے کہ مختصر طور پر عزت کے مفہوم کی تشریح کی جائے اس کے بعد ان جلووں پر گفتگو ہو جو امام حسین کی راہ عزت و سر بلندی کو بیان کر رہے ہیں لہذا ہم عزت کے مفہوم اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لئیے علماء لغت ،قرآن اور روایات کا سہارا لیں گے بعدہ واقعہ کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کی اس عزت و سربلندی کی راہ کے کچھ نمونوں پر ایک مختصر نظر ڈالیں گے
عزت کے معنی :
کلمہ عزت اصل میں ایک مستحکم ناقابل شکست اور مضبوط شئے کے معنی میں ہے اسی لئیے ابتدائی طور پر یہ کلمہ جمادات کی توصیف کے لئے استعمال ہوتا تھا جیسا کہ کہا جاتاتھا’’اَرْضٌ عِزَازٌ‘‘ یعنی مضبوط و سخت زمین [2] یہ لفظ عَزَ۔یَعِزُّ، ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘ سے ہے کہ جو کلام عرب میں عزیز ہونے‘ قوی و مضبوط ہونے کے معنی میں مستعمل ہے ۔[3]راغب نے اسکے سلبی معنی یوں کیئے ہیں :”اَلْعِزَّۃُ حَالَۃٌ مَالِغَۃٌ لِلْاِنْسَانِ مِنْ اَنْ یَغْلَبُ ،،عزت ایک ایسی حالت ہے کہ جو باعث بنتی ہے کہ انسان پرکوئی غلبہ حاصل نہ کرسکے[4] ۔ معروف لغت لسان العرب میں عزیز کی تعریف کچھ یوں ہے : ھوالممتنع فلایغلبہ‘ شئی عزیز ایسی ذات کو کہتے ہیں جو اپنے اوپر غلبہ پیدا نہیں ہونے دیتی [5]۔ ان تمام معانی کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں عزت درحقیقت ایک ایسی حالت ہے جس کے بموجب انسان سربلندی حاصل کرتا ہے اور کبھی شکست نہیں کھاتا جبکہ اس کے بالکل مقابل ذلت کا مفہوم ہے اور اس کے معنی نرمی و نفوذپذیری کے ہیں [6]۔
عزت ایک ایسا مفہوم ہے اور ایسی قدر ہے جسے ہر ایک پسند کرتا ہے یہ اور بات ہے کہ بہت سارے وہ مقامات جہاں انسان کی ظاہر بین نگاہیں عزت تلاش کر رہی ہوتی ہیں وہاں عزت نہیں ہوتی بلکہ ذلت ہوتی ہے جیسے بارگاہ رب العزت سے ہٹ کر ،مقام ، منصب ، شھرت ، دولت ، طاقت یہ سب کے سب ظاہری طور پر تو اپنے ساتھ بسا اوقات عزت رکھتی ہیں لیکن یہ جھوٹی عزت ہوتی ہے جیسے کسی دولت مند و صاحب منصب کی جھوٹی عزت و شان و شوکت۔ یہ سب وقتی اور فانی ہے ہر وہ عزت جو خدا کے راستہ سے ہٹ کر ہو کھوکھلی اور بے دم نہیں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ایبتغون عندھم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعاً،، جو لوگ مومنین کوچھوڑ کرکافروں کو اپنا سرپرست و ولی بناتے ہیں تو کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں جبکہ بیشک سب کے سب عزت محض اللہ ہی کے لئے ہے[7]
شاید یہی وجہ ہے کہ عزت کو گوہر نایاب کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ ہر جگہ ہاتھ نہیں آتی اور وہیں ملتی ہے جہاں انسان بندگی کی حدوں کو نہیں لانگتا اور حدود بندگی کی پاسداری و نگہداشت آسان نہیں ہے چنانچہ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کے مفہوم کو بیان کرتا ہے لہذا جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے۔[8]
عزت کا واقعی مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک حقیقی عزت اور اس کے سرچشمہ کی وضاحت نہ ہو اس لئیے کہ قرآن و روایات کی روشنی میں عزت دو طرح کی ہے ایک حقیقی عزت ایک جھوٹی اور بناوٹی عزت اب ان دونوں میں فرق کیا ہے یہ یا تو قرآن کریم کی وضاحت سے سمجھ میں آئے گا یا روایات کی روشنی میں ،علاوہ از ین عزت کو قرآن و روایات نے کس انداز سے اور کن پہلووں کے ساتھ پیش کیا ہے یہ جاننا بھی بہت اہم ہے اس لئیے قرآن و راویات کی روشنی میں مفہوم عزت اخذ کرنے کے بعد ہی یہ بات مکمل طور پر واضح ہو سکتی ہے کہ حسینیت کیوں کر عزت و سربلندی کا راستہ ہے ؟
[1] ۔ نعمت اللہ صفری فروشانی ،عزت طلبی در نھضت امام حسین ، حکومت اسلامی ،سال ہفتم ، شامرہ چھارم ص ۷۹
[2] ۔ معجم مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ ، تحقیق ندیم مرعشی، دار الکتاب العربی ،چاپ بیروت، ص ۳۴۴۔
[3] ۔۔ المنجد، کلمہ عز
۔ معجم مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ ، تحقیق ندیم مرعشی، دار الکتاب العربی ،چاپ بیروت، ص ۳۴۴۔[4]
[5] ۔ ابن منظور جلد ،لسان العرب۔ ۹۔ص ۱۸۵، تحقیق علی شیری ، چاپ اول ، بیروت ۱۴۰۸ ھ
۔ایضا، مادہ ذل [6]
طریحی ، فخر الدین موسسہ البعثہ مجمع البحرین : جلد ۲ ص ۱۰۱ و الزبیدی ، محمد مرتضی الواسطی ، دار الفکر ، بیروت تاج العروس جلد ۱۴ ص ۲۵۲ ، القاموس المحیط جلد ۳ ص ۳۷۹
[7] ۔ ۔نساء،۱۳۹
[8] ۔ طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان .ج ۱۷، ص ۲۲
جاری
تبصرہ کریں