غاصب اسرائیلی ریاست ہم جنس پرستوں کی جنت!
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گوکہ ہم جنس پرستوں کا خدا کی جنت موعود سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ وہ لذت پرستی میں ڈوب کر اسی دنیا کو اپنے لئے جنت بنانے کے لئے کوشاں ہیں، لیکن اس کے عواقب اور برے انجام سے اسی دنیا میں بھی جان نہیں چھڑا سکتے، تاہم اس وقت غاصب اور جعلی صہیونی ریاست، جو شیطان پرستی اور ہر بے راہروی کی داعی ہے، ہم جنس پرستی میں بھی کسی مغربیوں سے پیچھے نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ وہ ہم جنس پرستوں کی جنت کہلاتی ہے۔
1۔ غاصب ریاست کا دارالحکومت تل ابیب مغربی ایشیا میں ہم جنس پرستوں کا دارالحکومت بھی ہے۔ اسی وجہ سے ہم جنس پرست مقبوضہ فلسطین میں کسی قسم کی فکرمندی سے دوچار نہیں ہوتے۔
2۔ ہم جنس پرست مقبوضہ سرزمین میں اپنی مکمل شناخت کرانے سے نہیں ہچکچاتے یہاں تک کہ بلا خوف و خطر، اپنی رہائشی عمارتوں پر قوس قزح والا جھنڈا لہراتے ہیں۔ ایسا پرچم جو دگرباشی اور ہم جنس پرستی کی علامت ہے۔
3۔ فلسطین میں اقوام متحدہ اور اس کے ابتدائی اراکین کی مدد سے غاصب ریاست قائم ہوئی تو غاصبوں کو برطانوی سامراج کے قوانین ورثے میں ملے۔ اس زمانے میں غاصب اسرائیل نے بھی بہت سے مغربی ممالک کی طرح ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دیا۔
4۔ اس کے باوجود 20 سال بعد تل ابیب میں ہم جنس پرستی کے پہلے مرکز کا افتتاح کیا گیا اور بعدازاں مقبوضہ سرزمین میں ایسے ہی متعدد مراکز کی بنیاد رکھی گئی۔
5۔ سنہ 1975ع میں غاصب ریاست میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کی پہلی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ سنہ 1988ع میں ایک تحریک شروع ہوئی جس کو “اسرائیل میں ہم جنس پرستوں کا انقلاب” کہا گیا۔ اس تحریک کے توسط سے غاصب ریاست میں ہم جنس پرستی کو مطلق سرکاری اور قانونی حیثیت دلانے کی کوشش کی گئی۔
6۔ اس سلسلے میں ہونے والی کوششیں رفتہ رفتہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور 1990ع کے عشرے کے دوران بھی اور نئی صدی میں بھی، ہم جنس پرستوں کو مختلف النوع حقوق دیئے گئے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوج نے بھی علی الاعلان، ہم جنس پرستی کی حمایت کی اور ہم جنس پرست کنیسٹ (پارلیمان) میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
* ہم جنس پرستی کے مسئلے میں، اسرائیل میں لبرل نقطۂ نظر یہودی شریعت پر مقدم ہے!
7۔ غاصب اسرائیلی ریاست کو – اپنے اندر ایک طرف سے شریعت کے پابند یہودیوں کی طرف سے ہم جنس پرستوں کو خطرات اور مزاحمت – کا سامنا ہے۔۔ اور دوسری طرف سے اس کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ مغربی ممالک اس ریاست کو ایک لبرل جمہوری ریاست کی نگاہ سے دیکھیں۔ غاصب ریاست کی طرف سے ہم جنس پرستوں کو حاصل ہمہ جہت حمایت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
8۔ صہیونی ریاست میں اعلی ترین حکام بھی ہم جنس پرستوں کی حمایت کرتے ہیں؛ بطور مثال: کنیسٹ کے اسپیکر مکی لیوی (Mickey Levy) نے کئی بار ہم جنس پرستوں کی حمایت کی ہے۔
9۔ غاصب اسرائیلی ریاست میں ہم جنس پرستوں کی ریلی کے بعد ایک ہم جنس پرست شخص نتزان ہوروویتز (Nitzan Horowitz) کو اسرائیل کا وزیر صحت بنایا گیا۔ نیتزان_هورویتز نے اس اہم عہدے سے ہم جنس پرستوں کے حق میں اہم فیصلوں میں کردار ادا کیا۔
10۔ اسرائیلی ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کے مطالبات میں اضافہ کرکے، ابتدائی مرحلے میں مختلف پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہیں، جن میں سے ایک، فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے مظالم اور جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔
11۔ دوسری طرف سے غاصب اسرائیلی ہم جنس پرستوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اسرائیلی معاشرہ ہم جنس پرستوں کے لئے سب سے زیادہ پرامن اور مناسب معاشرہ ہے اور یوں وہ [ایک طرف سے] مغرب کو [جو اس شرمناک اور قبیح فعل کو اپنے مقدسات میں شمار کرتا ہے] جتانا چاہتی ہے کہ اسرائیل اپنے پڑوسیوں سے بہتر اور زيادہ لبرل ہے [اور دوسری طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے یہودیوں کو مقبوضہ سرزمین میں آنے کی ترغیب دلانا چاہتی ہے؛ خاص کر اس لئے بھی کہ مقبوضہ فلسطین سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے]۔
12۔ گوکہ مقبوضہ فلسطین میں قائم عارضی اور جعلی یہودی ریاست متعصب اور انتہاپسند یہودیوں کا گڑھ ہے لیکن چونکہ لبرلزم کی پیروی تل ابیب کے حکام کے مفادات کا تقاضا ہے چنانچہ وہ لبرل طرز فکر کو یہودی شریعت پر ترجیح دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں