غاصب صہیونی رژیم ایک سراسر جعلی ریاست (2)
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: قدس شریف مسئلہ فلسطین کا مرکز و محور ہے جو آج “فلسطینی پرچم” کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرچم کو سربلند رکھنا ایک اسٹریٹجک اقدام ہے۔ قدس شریف درحقیقت طاقت اور اقتدار کی علامت ہے۔ لہذا اس بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں: “یوم القدس، اسلام کا دن اور تمام اسلامی ممالک کا دن ہے۔” اگر قدس شریف پر صہیونیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مکمل طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور اگر مسلمان قدس شریف کو ایک اسلامی مقدس مقام کے طور پر محفوظ بنا لیتے ہیں اور اس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہیں تو اس کا مطلب عالمی صہیونزم کے مقابلے میں ان کی فیصلہ کن فتح کی صورت میں لیا جائے گا۔
دوسری طرف چونکہ غاصب صہیونی رژیم کی تشکیل دراصل برطانوی امریکی سازش تھی اور اس کے وجود کا تسلسل بھی انہی کی حمایت کا محتاج ہے لہذا قدس شریف پر عالم اسلام کا کنٹرول اصل میں مغرب کے مقابل مسلمانوں کی فتح ہو گی۔ ماضی کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ فلسطین ایسا مسئلہ نہیں جسے اسلامی دنیا پس پشت ڈال دے یا اسے نظرانداز کر دے۔ لہذا بعض غدار عناصر اور اسرائیل سے سازباز کرنے والے بظاہر مسلمان حکمرانوں کی تمام تر مدد اور حمایت کے باوجود اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ترک صدر رجب طیب اردگان ایک طرف تو اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن جیسے ہی مسجد اقصی میں صہیونی فورسز اور مسلمان فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں اسرائیل کے خلاف بیان دیتے ہیں۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات کو دیکھتے ہیں کہ وہ صہیونی وزیر خارجہ کا دوبئی میں خیر مقدم کرنے کے چند دن بعد ہی مسجد اقصی میں رونما ہونے والے ناگوار واقعات کے بعد اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ بلا کر احتجاج کرتا ہے۔ ایک اور مثال اردن کی ہے جس نے 1994ء سے اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کر رکھے ہیں لیکن قدس شریف پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف چپ نہیں رہ سکا اور سرکاری سطح پر احتجاج کرتا ہے جبکہ اس کی پارلیمنٹ میں اسرائیلی سفیر کو نکال باہر کرنے کا مطالبہ پیش کیا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین محض ایک سیاسی ایشو نہیں ہے اور مسلمانوں کی نظر میں اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ یہ بات اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے بھی بہت بنیادی مسئلہ بن چکی ہے۔
ممکن ہے اسلامی دنیا میں بعض ایسے عرب یا غیر عرب حکمران پائے جاتے ہوں جو فلسطینی سرزمین کا کچھ حصہ غاصب رژیم کو سونپ دینے کی بات کریں یا ایسا وعدہ کر لیں، لیکن وہ ہر گز اس پر عملدرآمد نہیں کروا سکتے۔ اسی وجہ سے ٹھیک اس دن جب امریکی اور عرب وفود بئر السبع شہر میں واقع اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین کے دفتر میں جمع ہوئے اور انہوں نے یہ اعلان کرنا چاہا کہ اسرائیل نامی ریاست کا منصوبہ پایہ تکمیل ہو پہنچ چکا ہے، ایک عرب فلسطینی جوان نے اسی شہر میں مزاحمتی کاروائی انجام دی اور چار صہیونیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ پانچ دیگر صہیونی زخمی بھی ہو گئے۔ اس کے بعد تل ابیب، حیفا کے جنوب اور جنین میں بھی اسلامی مزاحمتی کاروائیاں انجام پاتی ہیں۔
آخرکار مسجد اقصی میں صہیونی فورسز اور مسلمان فلسطینی شہریوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ یوں عرب دنیا اور عالم اسلام میں فضا مکمل طور پر فلسطین کے حق میں تبدیل ہو جاتی ہے اور وہی مسلمان سیاست دان جو بئر السبع میں بن گورین کے دفتر میں نمائشی دستخط کرنے کیلئے تیار تھے، اسرائیلی سفیر کو بلا کر فلسطینیوں کے حقوق پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ درست ہے کہ یہ کام منافقت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ رجب طیب اردگان اور بن زاید اور محمد بن سلمان اور السیسی اور سلطان محمد دوم کیوں منافقت پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ ان کی منافقت درحقیقت ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور مراکش کے مسلمان عوام کے دلوں میں قدس شریف اور فلسطین کی شدید محبت اور حمایت کا نتیجہ ہے۔
وہ دن زیادہ دور نہیں جب صہیونی فوج بغیر کسی خوف و ہراس اور پریشانی کے، صرف اپنا رعب جمانے کیلئے فلسطینیوں کی جانب سیدھی سیدھی فائرنگ کرتی دکھائی دیتی تھی۔ 2002ء میں صہیونی وزیراعظم ایریل شیرون کے وزیر جنگ شاول موفاز نے نہاریا میں ایک فلسطینی جوان کی شہادت پسند کاروائی کے ردعمل میں جنین کیمپ میں داخل ہو کر 200 فلسطینیوں کو شہید کر ڈالا تھا۔ اس شہادت پسند کاروائی میں تیس صہیونی ہلاک ہوئے تھے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران کم از کم بیس صہیونی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن صہیونی فورسز کو کسی قسم کے جارحانہ ردعمل کی جرات تک نہیں ہوئی۔ آج صہیونیوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے اور فلسطینیوں کے سامنے نئے نئے راستے کھل چکے ہیں۔ فلسطین جوان مسجد اقصی کے دروازے پر صہیونی فورسز کا مقابلہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تبصرہ کریں