غاصب صیہونی افواج کی غزہ میں نسل کشی

اہل غزہ کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے، خدا اہل غزہ کی مدد نصرت فرمائے، ابھی تک تو ان کی مدد کے لیے اہل یمن ہی تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور صیہونی ریاست کو بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

فاران: اسرائیلی سیٹلمنٹ موومنٹ کی صیہونی خاتون سربراہ کا بی بی سی کو دیا گیا ایک انٹرویو سن رہا تھا، وہ بڑی ڈھٹائی سے بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف کہہ رہی ہے کہ عرب غزہ میں نہیں رہیں گے۔ خاتون اینکر پوچھتی ہے کہ پھر یہاں کون رہے گا؟ وہ فوراً کہتی ہے کہ یہودی، افریقہ بڑا ہے، کینیڈا بڑا ہے، دنیا غزہ کے عربوں کو جذب کر لے گی۔ اینکر حیرانگی سے کہتے ہے کہ میں اسے نسلی تطہیر کہوں؟!!! یہ صیہونی رہنماء کہتی ہے کہ انہیں پناہ گزین کہو، یا جو چاہو کہو۔ یہ حقیقت اور واقعیت ہے کہ صیہونی رہنماء اتنے جری ہوچکے ہیں کہ انہیں انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور کسی بھی مذہبی و اخلاقی ضابطے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جو باتیں پردوں میں کی جاتی تھیں، اب علی الاعلان کی جاتی ہیں، یہ سب یورپ کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے، جو انسانی حقوق کا راگ الاپتا رہتا ہے اور اسی کی بنیاد پر ممالک کو برباد کر دیتا ہے، مگر جب اسرائیل کی باری آتی ہے تو ان کے پر جلتے ہیں۔

اس صیہونی خاتون نے بات کی تھی، صیہونی فوج غزہ میں ایک وسیع آپریشن کر رہی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے اتوار کی شام اعلان کیا کہ اس نے غزہ بھر میں وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور کئی علاقوں کے لیے انخلا کے احکامات جاری کیے۔ صیہونی فوج نے شمالی غزہ میں ایک اسپتال سمیت مختلف مقامات پر حملے کیے۔ حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائی میں کم از کم 140 فلسطینی شہید اور 361 زخمی ہوئے۔ اس سے قبل غزہ کے سیف زون المواسی کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 36 فلسطینی بھی شہید ہوئے تھے۔ خون کی ہولی شروع ہوچکی ہے اور ہر روز سینکڑوں نہتے اہل اسلام شہید کیے جا رہے ہیں۔

جبر کی شدت کو سمجھنے کے لیے آصف محمود صاحب نے بڑی زبردست پوسٹ کی کہ ڈیوڈ ہرسٹ لکھتے ہیں: امریکہ نے ویت نام کی جنگ میں اوسطاً 15 ٹن بم فی کلومیٹر پھینکے جبکہ اسرائیل اب تک غزہ میں فی کلومیٹر 275 ٹن گولہ بارود پھینک چکا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے 275 ٹن فی مربع کلومیٹر۔ ایک مربع کلومیٹر اور 275 ٹن گولہ بارود۔ صورت حال بہت دردناک ہے، مگر ڈیوڈ ہرسٹ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنا موقف دلائل کے ساتھ بیان کر کے لکھتے ہیں کہ: اسرائیل یہ جنگ پہلے ہی ہار چکا ہے۔ بس اتنا ہے کہ ابھی اسے شکست کا علم نہیں ہے، جو جلد ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ پر قحط کے سائے منڈلا رہے ہیں، جہاں پانچ لاکھ فلسطینیوں کی زندگیاں بھوک کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھوک کے بحرانوں کی شدت جانچنے والے مستند ادارے آئی پی سی کے تازہ تجزیے میں یکم اپریل سے 10 مئی تک کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ستمبر کے اختتام تک کے خدشات کا اندازہ لگایا گیا۔

ادارے کا کہنا ہے کہ مکمل قحط ایک ممکنہ منظرنامہ بن چکا ہے۔ اگر حالات نہ بدلے تو بڑے پیمانے پر انسانی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ فلسطینی انتہائی سنگین بھوک کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ موت کے دہانے پر ہیں جبکہ دس لاکھ افراد قحط کی ہنگامی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تجزیے کے مطابق 19 لاکھ 50 ہزار افراد یعنی غزہ کی 93 فیصد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، جن میں سے دو لاکھ 44 ہزار افراد کی حالت سب سے زیادہ سنگین یعنی تباہ کن قرار دی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایک لاکھ 33 ہزار افراد تباہ کن صورتحال درجہ بندی میں شامل کیے گئے ہیں۔ غزہ میں دو طرح سے نسل کشی کی جا رہی ہے ایک تو اسرائیلی افواج دن رات لوگوں کا قتل عام کر رہی ہیں اور دوسری طرف پورے غزہ پر قحط مسلط کیا جا رہا ہے۔

مسلسل بمباری کرکے غزہ کو رہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا۔ پلان یہ ہے کہ زیادہ کمٹٹڈ لوگوں کو شہید کر دیا جائے۔ باقی بچنے والوں پر بھوک، پیاس اور خوف کو مسلط کر دیا جائے کہ ہر کوئی یہ کہے کہ ہمیں اس سرزمین سے نکالو، یہ تو جہنم سے بھی بری جگہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ نے جب غزہ کے متعلق اپنے پلان کی آرٹیفیشل ویڈیو جاری کی تھی، جس میں اسرائیل وزیراعظم اور وہ ٹرمپ، ٹرمپ ٹاور پر انجوائے کر رہے ہیں اور ساتھ میں غزہ کی زمین کو امریکی کنٹرول میں لینے کا کہا تھا، اس وقت صحافی نے پوچھا تھا، فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟ کیا آپ انہیں جبراً نکال دیں گے۔؟ اس نے کہا تھا نہیں، ہم نہیں نکالیں گے، غزہ کی جو حالت ہے، اس میں کوئی رہ نہیں سکتا۔ یہ جواب دراصل خواہش اور پلان تھا کہ ہم غزہ کو اس قدر تباہ و برباد کریں گے کہ لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور وہ خود سے غزہ سے نکلنے لگیں گے۔

ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطی سے پہلے یہ شرلی چلوائی گئی کہ ٹرمپ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ یہ صرف دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی آبادی کے لیے ضروری مقدار میں خوراک لانے کی اجازت دے گا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غذائی قلت کا کوئی بحران پیدا نہ ہو۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی صورت حال اسرائیلی فوج کے غزہ میں چل رہے نئے آپریشن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ یہ بیان واضح کر رہا ہے کہ آنے والے دن اہل غزہ کے لیے مزید سخت ہونے جا رہے ہیں اور اسرائیل غزہ پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ابھی کچھ خوراک بھیجی جائے گی اور پھر اپنے ظلم اور جبر کو اس کے آڑ میں کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اہل غزہ کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے، خدا اہل غزہ کی مدد نصرت فرمائے، ابھی تک تو ان کی مدد کے لیے اہل یمن ہی تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور صیہونی ریاست کو بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔