غذائی امداد اور گولی
فاران: صیہونی حکمران غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا مقابلہ کرنا کے لیے بھوک کو اسلحہ کے طور پر استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ غاصب صیہونی فوج نے گذشتہ چند ماہ سے غزہ میں ہر قسم کی اشیائے خورد و نوش اور ادویہ جات کا داخلہ بند کر رکھا تھا۔ گذشتہ ایک ہفتے سے عالمی رائے عامہ کے شدید دباو کے نتیجے میں صیہونی فوج نے محدود پیمانے پر غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دی ہے لیکن اسے تقسیم کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ اس اقدام کا ایک مقصد بین الاقوامی سطح پر اپنا اچھا چہرہ پیش کرنا ہے جبکہ دوسری طرف غزہ میں فلسطینی عوام کو حماس کے خلاف اکسانا ہے۔ اس مقصد کے لیے صیہونی فوج نے غزہ کے شمالی حصے میں انسانی امداد کی تقسیم کے کچھ مخصوص مراکز قائم کیے ہیں اور یہ منصوبہ امریکی تنظیموں کے تعاون سے انجام پا رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی امداد فراہم کرنے والی دیگر تنظیموں نے شمالی غزہ میں امداد فراہم کرنے والی امریکی تنظیم “غزہ ہیومن ایڈ فاونڈیشن” سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی وجہ ان کا یہ اعتراض ہے کہ یہ امریکی تنظیم غزہ کے دیگر علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی انجام نہیں دے رہی ہے۔ یہ امریکی ادارہ معمول کے طریقہ کار سے ہٹ کر جنگ کے مارے فلسطینیوں کو اپنے مورد نظر خاص علاقوں کی جانب بلاتا ہے اور انہیں وہاں جمع کرتا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اہل غزہ کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ منگل کے روز جب شمالی غزہ کے خلاف غذائی محاصرے کو 11 ہفتے گزر چکے تھے، اس امریکی تنظیم نے غذائی امداد کی تقسیم کا اعلان کیا اور عوام کو مخصوص علاقے میں جمع ہونے کی کال دی۔
جب وہاں تمام فلسطینی جمع ہو گئے تو معلوم ہوا کہ غذائی امداد کی مقدار انتہائی کم ہے جس کے باعث ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ ہیومن ایڈ فاونڈیشن غزہ نے اس بارے میں بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا: “انسانی امداد کے مرکز میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ہماری ٹیم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی تاکہ کم تعداد میں فلسطینیوں کو امداد فراہم کر کے انہیں منتشر ہونے پر مجبور کر سکے۔” اس بارے میں اقوام متحدہ سے وابستہ تنظیمیں پہلے سے ہی خبردار کر چکی تھیں کہ غزہ ہیومن ایڈ فاونڈیشن کے پاس اتنی وسیع مقدار میں امداد موجود نہیں جو تمام فلسطینیوں کی ضروریات پوری کر سکے لہذا اگر وہ امدادی سرگرمیاں شروع کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں جنگ زدہ فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
غذائی امداد کی فراہمی کی بجائے فلسطینیوں پر گولیاں برسانا
اخبار گارجین کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ منگل کے روز غزہ ہیومن ایڈ فاونڈیشن کی جانب سے فلسطینیوں میں غذائی امداد کی تقسیم کے دوران وہاں موجود صیہونی فوجیوں نے بھوکے فلسطینیوں پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی شہید اور 48 زخمی ہو گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے امداد وصول کرنے کی غرض سے جنگلا پھلانگنے والے بھوکے فلسطینیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اگرچہ صیہونی رژیم نے دعوی کیا ہے کہ صرف ہوائی فائرنگ کی گئی تھی جس کا مقصد نظم و ضبط برقرار کرنا تھا لیکن وہاں موجود فلسطینیوں نے اسے جھوٹا قرار دے دیا ہے۔ غزہ کے جنوبی حصے میں بھی صیہونی فوج نے تین علاقوں کو غذائی امداد کی تقسیم کے لیے مخصوص کیا ہے۔ صیہونی فوج نے گذشتہ ہفتے خان یونس اور اس کے گردونواح کے علاقے خالی کر دینے کا حکم دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی نیتن یاہو سے مخالفت کا اعلان
اقوام متحدہ اور انسانی امداد کی دیگر تنظیموں نے صیہونی رژیم کے اس نئے طریقہ کار کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تل ابیب 23 لاکھ اہل غزہ کی ضروریات برطرف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان بین الاقوامی تنظیموں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اسرائیل غذائی امداد کو فلسطینی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی فراہمی کے دوران بھوکے فلسطینی عوام اور صیہونی فوجیوں کے درمیان ٹکراو کا بہت زیادہ خطرہ پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجرین سے متعلق ادارے انروا نے کہا کہ صیہونی رژیم کا انسانی امداد کی فراہمی کا موجودہ طریقہ کار صرف اور صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا اور اس کا مقصد اپنے مجرمانہ اقدامات سے توجہ ہٹانا ہے۔
دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے امداد حاصل کرنے کے لیے آنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کو صیہونی رژیم کے اس نئے طریقہ کار کی ناکامی کا واضح ثبوت قرار دیا ہے۔ حماس نے اپنے بیانیے میں کہا کہ موجودہ طریقہ کار عام فلسطینیوں کی جان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور یہ غذائی امداد کے بہانے غزہ پر سیکورٹی کنٹرول برقرار کرنے کی سازش ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ صیہونی فوج کی جانب سے بفر زون میں امدادی مراکز کا قیام درحقیقت فلسطینیوں کے لیے مائن فیلڈ کی طرح ہیں اور وہاں امداد کی فراہمی کے بہانے فلسطینیوں کی تحقیر کی جاتی ہے۔ بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ غذائی امداد کا یہ منصوبہ فلسطینی عوام پر تسلط کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ یاد رہے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے باقاعدہ سرحدی راستوں سے انسانی امداد کی فراہمی بدستور روک رکھی ہے جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بقلم سید رضا حسینی
تبصرہ کریں